فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 33═(ہولناک لڑائی)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
موسیٰ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے. لیکن پچھلی رات میں اٹهہ بیٹھے اٹهہ کر وضو کیا-
تہجد کی نماز پڑهی اور نماز پڑھ کر سجدہ ریز ہو گئے پروردگار عالم سے عرض کی-"
خدائے بے نیاز آج کرہ ارض پر تیری الوہیت کی منادی اور سچے دل سے تیری عبادت کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں-
وہ مسلمان جو تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اور اطاعت گزار ہیں جو تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں-
اگرچہ تو بے نیاز ہے اور تجھے اس کی پروا نہیں کہ کون تیری عبادت کرتا ہے کون تجھے مانتا ہے اور کون تیری توحید کا قائل اور اس کا مبلغ ہے لیکن مسلمان تیرے ہیں وہ جو کچھ کرتے ہیں تیرے ہی بھروسے پر کرتے ہیں تو ان کی مدد کر اور انہیں رسوا ہونے سے بچا لے-
تونے اپنے کلام پاک قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے-"
ترجمہ : یعنی تو مالک ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دے-
تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے اے پروردگار تو مسلمانوں پر رحم کر، انہیں عزت دے اور فتح یاب کر!"
یہ دعا مانگ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور صبح تک کلام الہی پڑهتے رہے صبح کو انہوں نے نماز پڑھائی اور مسلمانوں کو مسلح ہو کر قلعہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا-
مسلمان فوراً اپنے اپنے خیمے پر پہنچے اور مسلح ہو کر فصیل کی طرف نکل کر صف بستہ ہونے لگے-
ابهی مسلمانوں کی صفیں درست نہ ہوئی تھیں کہ قلعے کا پھاٹک کهلا اور عیسائی سواروں کا سیلاب قلعہ میں سے نکل کر مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگا.
موسیٰ اور مسلمانوں نے انہیں قلعہ سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ انہیں اپنی کثرت پر زعم ہے سامان حرب پر ناز ہے اور فخر و غرور کے مجسمے بن کر مسلمان کو فنا ڈالنے کے لئے بڑے ہی عزم و ارادہ سے قلعہ سے باہر نکلے ہیں - "
موسیٰ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کو دور تک پھیلا دیا - صف بندی کر لی اور مسلمان جنگ کے لئے مستعد ہو گئے -
عیسائیوں کا لشکر برابر آ رہا تھا اور آ آ کر مسلمانوں کے لشکر کے محاذ میں پھیلتا جا رہا تھا.
ان کے افسران کی صف بندی کرتے جا رہے تھے -
اس وقت آفتاب کسی قدر بلند ہو گیا تھا اور دھوپ پھیل گئی تھی -
سرفروشوں کے لباس اور ہتھیار دھوپ میں جگمگا رہے تھے -
موسیٰ نے دیکھا کہ قلعہ کے پھاٹک کے اوپر ایک خوبصورت سہ دری ہے جس کے دروازے نہایت شاندار اور خوبصورت ہیں -
اس سہ دری میں چند کرسیاں ڈالی گئی ہیں اور ان میں ایک کرسی پر ایک نہایت حسین خاتون بیٹھی ہے -
جس کی ریشمی پوشاک اور جواہرات کے زیورات کے اتنا فاصلہ ہونے پر بھی چمک رہے ہیں -
اس وقت موسیٰ کے پاس کونٹ جولین موجود تھا موسیٰ نے اس سے دریافت کیا-"
یہ سامنے دروازہ کے اوپر کون عورت بیٹھی ہے؟ "
جولین نے غور سے دیکھ کر کہا یہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے - "
اب عیسائی لشکر میں طبل جنگ پر چوٹیں پڑیں اور اس کی ہیبت ناک آواز سے تمام میدان گونجنے لگا-
موسیٰ نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو پچیس ہزار عیسائی صف بستہ نظر آئے اور سامنے فصیل پر بھی بے شمار عیسائی سپاہی کھڑے تھے -
موسیٰ نے بھی اپنے لشکر کو بڑھنے کا اشارہ کیا.
مسلمانوں کی صفیں بھی سمندر کے طوفان خیر موجوں کی طرح آگے بڑھنے لگیں-
دونوں لشکر دو کوہ شکن موجوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے -
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ تیروں کی جنگ کر کے لڑائی کو طول نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ دونوں فوجوں میں سے کسی نے بھی کمانیں نہ سنبھالیں، بلکہ برابر بڑھتے رہے-
یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اب عیسائیوں نے ایک شور عظیم کے ساتھ تلواریں میانوں سے نکال کر ہاتھوں میں اٹها لیں صاف و شفاف تلواریں دھوپ میں جگمگاتی آنکھوں میں چوند پیدا کرتی ہوئی بلند ہوئیں.
مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگا کر اپنی تلواریں ہاتھوں میں لے کر تولیں-
چونکہ دونوں لشکر برق رفتاری سے بڑهہ رہے تھے اس لیے دونوں کی زبردست ٹکڑ ہوئی، ٹکر ہوتے ہی تشنہ تلواریں انسانوں کی طرف لپکیں اور ان سے بچنے کے لیے سپاہیوں نے سیاہ ڈھالیں اٹھا لیں-
چونکہ جنگ تمام پہلی صف میں شروع ہوئی تھی اور پہلی صف شمال سے جنوب تک تقریباً ایک میل لمبی تھی، اس لیے حد نگاہ تک تلواریں اٹھتیں اور جھکتی نظر آ رہی تھیں _ عیسائی بڑے جوش و خروش سے حملے کر رہے تھے وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد تمام مسلمانوں کو قتل کر ڈالیں مگر مسلمان بھی غیظ و غضب میں بھرے ہوئے نہایت پهرتی سے حملے کر رہے تھے -
ان کی تلواریں زبردست کاٹ کر رہی تھیں. جو مسلمان عیسائیوں پر حملہ کرتا تھا اسے قتل کئے بغیر نہ چهوڑتا تھا - "
مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کو الٹ دیا اس کے ایک ایک سپاہی کو چن چن کر مار ڈالا تھا اور اب انہوں نے دوسری صف پر حملہ کر دیا -
موسیٰ ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار لئے نہایت جوش و خروش اور دلیری سے لڑ رہے اور قتل کر رہے تھے -
وہ ضعیف العمر تهے - اتنے بوڑھے کہ ان کی ڈاڑھی برف کی مانند سفید تهی مگر دل جوان تھا اور جوانی کی سی امنگ اور جوانوں ہی کے جوش سے لڑ رہے تھے -
ان کی شمشیر خار شگاف نہایت پهرتی سے اٹھتی تھی اور نہایت تیزی سے کاٹ ڈالتی تهی -
انہیں اس طرح لڑتے دیکھ کر تمام مسلمانوں کو جوش آ رہا تھا اور ہر مسلمان نہایت شدت اور دلیری سے حملے کر رہا تھا - "
چونکہ مسلمان لڑائی میں کچھ ایسے مصروف تھے کہ انہیں اپنے تن بدن تک کا ہوش نہیں تھا اس لیے وہ اپنی حفاظت سے غافل ہو گئے اور غافل ہونے کی وجہ سے شہید ہو رہے تھے مگر کثرت سے نہیں جس طرح عیسائی مر رہے تھے -
عیسائیوں کی تو پہلی اور دوسری صفوں کا صفایا ہو چکا تھا اور مسلمانوں کی پہلی صف میں سے چند مسلمان شہید ہوئے تھے -
مرنے والوں کے گھوڑے دولتیاں جھاڑتے پهر رہے تھے ان کا جس طرف رخ ہوتا وہ لاتیں مارنے لگتے تھے -
ان گھوڑوں سے مسلمان اور عیسائی دونوں کو نقصان پہنچ رہا تھا -
چنانچہ کچھ مسلمانوں نے انہیں پکڑ کر عیسائیوں کی طرف بھگا دیا زخم خوردہ گھوڑوں نے عیسائی لشکر میں پہنچ کر کچھ ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ عیسائیوں کو ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہو گیا-
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب کہ عیسائی ان سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے اس وقت مسلمانوں نے ان پر پوری شدت سے حملہ کر دیا اب عیسائیوں پر دوہری مار پڑنے لگی-
ایک گھوڑے تو دوسرا مسلمانوں نے انہیں کاٹنا شروع کر دیا -
اسی سے وہ گھبرا اٹھے اور ان کی گھبراہٹ مسلمانوں نے دیکھ لی-
انہوں نے اور زور و شور سے حملے کرنا شروع کر دئیے اور ہر طرف ہر محاذ پر ایسی خون ریز جنگ کی کہ لاشوں پر لاشیں بچها دیں-
عیسائیوں نے مقابلہ کے لیے کچھ ہاتھ پیر مارے مگر مسلمانوں کے جوش کے سامنے کچھ نہ کر سکے اور مرنے لگے.
باوجود یکہ عیسائی زیادہ مر چکے تھے اور اب بھی مر رہے تھے ان کی تعداد کم نہیں ہو رہی تھی مسلمان عیسائیوں کو ختم کرنے میں کچھ ایسے مشغول ہوئے تھے جسے انہوں نے انہیں ختم کر کے ہی چھوڑنا ہے وہ ایک ہاتھ میں ڈھالیں لیے دوسرے میں تلوار پکڑے بڑی پهرتی سے حملے کر رہے تھے -
اب تک مسلمانوں نے عیسائیوں کی کئی صفیں الٹ دی تهیں اور ان کے اگلے سواروں کو پچھلوں سے ملا دیا تھا -
عیسائیوں کو مسلمانوں پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا کہ وہ بہت ہی کم اور پھر ایسے جوش سے لڑ رہے تھے کہ خود تو مرتے نہیں عیسائیوں کو برابر قتل کئے جا رہے تھے -
اور اگر کوئی مرتا تو شاذ و نادر عیسائیوں کے افسر انہیں للکار للکار جوش دلا رہے تھے کہہ رہے تھے کہ مسلمان کم ہیں تمہاری زرا سی ہمت اور تھوڑا سا استقلال ان کا خاتمہ کر دے گا-
عیسائی سوار بھی یہی سمجھ رہے تھے لیکن جب بھی وہ جوش میں آ کر حملہ کرتے مسلمان انہیں تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیتے تھے اور ان کے جوش اور ان کی جرات کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ وہ بے چارے قتل ہو کر گر پڑتے تھے اور اپنے وجود سے میدان جنگ کو پاٹ دیتے تھے -
مسلمان ایسے ہی جوش و خروش میں بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے اس بات کا بھی خیال چهوڑ دیا کہ وہ ہر طرف سے دشمن کے نرغے میں ہیں اور انہیں سنهبل کر لڑنا چاہیے وہ بڑهہ بڑهہ کر حملے کر رہے تھے ہر حملہ میں عیسائیوں کی تعداد کم کرتے چلے جاتے تھے -
اس وقت دوپہر ہو گئی تھی آفتاب عین سر پر آ گیا تھا -
شدید گرمی اور لڑنے والوں کو پسینہ آ رہا تھا مگر نہ انہیں گرمی کا خیال تھا نہ پیاس کی شدت نہ دھوپ نہ پسینے کا احساس وہ لڑائی میں مصروف تھے اور جوش و خروش سے لڑ رہے تھے -
نائلہ قلعہ کے دروازے پر بیٹھی میدان کارزار کی طرف دیکھ رہی تھی وہ ایسی حسین تهی کہ دور سے بھی چاند کی طرح چمکتی ہوئی نظر آ رہی تھی -
موسیٰ ابهی تک جوش و خروش سے لڑ رہے تھے انہوں نے بہت سے عیسائیوں کو جہنم واصل کر دیا تھا -
ان کے ایک طرف ان کا بیٹا عبداللہ اور دوسری طرف دوسرا بیٹا مروان تھا اور یہ دونوں جوش اور دلیری سے لڑ رہے تھے -
موسیٰ نے سنبھل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اس نعرہ کو سن کر مسلمان بھی سنبھل گئے اور انہوں نے بھی ایک ساتھ اس پر ہیبت نعرہ کی تکرار کی اور نعرہ لگاتے ہی اس شدت سے حملہ کیا کہ عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بد حواس ہو کر بے تحاشا قلعہ کی طرف بھاگے.
مسلمانوں نے آن کا تعاقب کیا ہر طرف سے انہیں گھیر کر مولی کھیرے کی طرح کاٹنا شروع کر دیا وہ انہیں قتل کرتے ان کے پیچھے چلے گئے-
ان کا ارادہ تھا کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ ہی قلعہ میں داخل ہو جائیں گے لیکن عیسائیوں نے پھاٹک بند کر لیا کچھ لشکر تو قلعہ میں بند ہو گیا مگر اب بھی بے تحاشا عیسائی باہر رہ گئے.
مسلمانوں نے انہیں بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک عیسائی کو بھی زندہ نہ چھوڑا اور ایک ایک کر سب کو مار ڈالا -
چونکہ پھاٹک مضبوط تها اور آسانی سے اسے توڑا نہیں جا سکتا تھا اس لیے موسی نے واپسی کا اشارہ کیا اور اسلامی لشکر واپس لوٹ کر خیموں میں آ گیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی