فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 32═(فتوحات کا سلسلہ)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز نے جب سے وہ عجیب و غریب خواب دیکھا تھا، اس وقت سے انہیں ان تمام چیزوں کے دیکھنے کا زبردست شوق پیدا ہو گیا تھا اور جب کونٹ جولین نے انہیں یہ بتایا کہ سب چیزیں اندلس کی جانب اشارہ کر رہی ہیں تو عبدالعزیز کا خیال تھا کہ وہ اندلس جانے کی اجازت حاصل کر لیں گے لیکن ان کی حسرتوں اور امنگوں کا اس وقت خون ہو گیا، جب موسٰی نے انہیں اجازت نہ دی اور طارق کو اندلس کی مہم پر روانہ کیا-"
مگر اس کے دل کو اطمینان تھا کہ خواب اُس نے دیکھا تھا وہ بیداری میں بھی دیکهے گا لیکن کب اور کس طرح یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا - "
وہ رات دن انہیں خیالوں میں غلطاں پیچاں رہتا ایک دن طارق کا قاصد نوید مسرت لایا ان کا دل عجیب انداز میں ڈھرک رہا تھا انہیں امید تھی کہ اب کہ وہ ضرور جائے گا -
ان کے دل میں امید کی شعاعیں پهر چمکی اور فریب دل نے نئی نئی امنگیں اور نئی نئی تمنائیں پیدا کرنا شروع کر دیں-
انہوں نے دوبارہ اپنے باپ موسیٰ سے اندلس چلنے کی آرزو کی مگر ان کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں جب انہوں نے کہا کہ وہ خود معہ اپنے دونوں بھائیوں عبداللہ اور مروان کے اندلس جا رہے ہیں اور قیروان کی حکومت خود ان کے یعنی عبدالعزیز کے ہاتھ میں رہے گی-
عبدالعزیز کے ان سے دو چھوٹے بھائی تھے -
ان میں سے ایک کا نام عبداللہ اور دوسرے کا مروان تھا -
عبدالعزیز کو پهر افسوس ہوا اور ان کی تمنائیں کوہ حسرت سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئیں لیکن کوئی غیبی طاقت اب بھی ان سے کہ رہی تھی کہ وہ ضرور اندلس جائیں گے اور وہ تمام چیزیں دیکھیں گے جو انہوں نے خواب میں دیکهی تهیں - "
مگر یہ کب اور کیسے ہوگا.
اس کا حل اس سے نہیں ہو رہا تھا -
آخر ان کے سامنے ان کا باپ موسیٰ دس ہزار سوار اور اٹهہ ہزار پیدل سپاہ لے کر ان کے دونوں بھائیوں عبداللہ اور مروان نیز مشہور سردار مثلاً علی بن ربیع حیات بن تمیمی اور عیسیٰ بن عبداللہ الطویل کے ہمراہ اندلس روانہ ہوئے-
عبدالعزیز ایک مرتبہ پھر حسرت اور افسوس کے بھنور میں غوطے کهانے لگے.
موسیٰ معہ لشکر کے جب اندلس کے ساحل پر اترے تو ان کے استقبال کے لئے کونٹ جولین اور اشبیلیا کا راہب آئے اور انہوں نے نہایت شان سے ان کا استقبال کیا.
انہیں یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا کہ طارق فتح کے زعم میں اندرون ملک میں بڑھتے گئے ہیں -
اور انہوں نے ان کے حکم کی مطلقاً پروا نہیں کی وہ کچھ برہم ہو گئے کونٹ جولین جو نہایت ہوشیار تھا سمجھ گیا کہ وہ طارق سے ناخوش ہو گئے ہیں لہذا اس نے کہا - "
معلوم ہوتا ہے کہ آپ طارق سے کچھ ناخوش سے ہو گئے ہیں - "
موسیٰ ہاں اس نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی.
جولین: انہوں نے چاہا تھا کہ پیش قدمی روک دیں مگر______
موسیٰ: مگر آپ نے انہیں آگے بڑھنے کا مشورہ دیا-
جولین: نہیں!
موسیٰ: اور؟
جولین: ان کے ماتحت افسروں کے مشورے سے.
موسیٰ: کس وجہ سے؟
جولین: اس وجہ سے کہ بہادر طارق نے جب وادی بیکا کے کنارے پر رازرق کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دی تو عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت چها گئی-
اس پر طاری نے دانش مندی کی کہ اپنے لشکر کے تین حصے کئے اور ایک کو قرطبہ دوسرے کو ملاگا اور تیسرے کو طلیطلہ روانہ کیا-
ان تینوں لشکروں کو پہیم فتوحات نصیب ہوئیں اور اس انداز سے عیسائی اور بھی مرعوب ہو گئے -
موسیٰ :جب تو انہوں نے بہادری اور عقلمندی کا ثبوت دیا ہے.
جولین :یہی بات ہے فتح و نصرت شیر دل طارق کے قدموں سے لگی پهرتی ہے -
موسیٰ :میں ان کی فتوحات سے بہت خوش ہوا ہوں مگر!
جولین :مگر کیا حضور؟
موسیٰ :انہیں میرے حکم کا احترام کرنا چاہئے تھا
جولین :یہ سچ لیکن اگر وہ اس قدر کامیابی کے بعد رک جاتے تو عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا جو رعب تھا وہ ختم ہو جانا تھا اور وہ سنبھل کر پهر اپنی طاقت اکٹھی کر کے مسلمانوں سے نبرد آزما ہو جاتے -
موسیٰ :میں یہ سب باتیں سمجھتا ہوں جانتا ہوں کہ ایسی حالت میں آگے بڑھنا ہی مناسب تھا مگر انہیں تمام واقعات کی مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی - "
جولین :یہ البتہ ان سے فروگذاشت ہو گئی
موسیٰ :اور انہیں اس کا مجھے جواب دینا پڑے گا -
جولین :حضور اب کس طرف بڑھنے کا ارادہ ہے
موسیٰ :میں اس ملک کے راستوں سے کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ.
جولین: جنوب سے شمال تک کا تمام علاقہ بہادر طارق نے فتح کر لیا ہے لہذا آپ مغرب کی طرف بڑھیں-
اشبیلیا اور بوسنیا کا زرخیز وسیع علاقہ اس طرف ہے.
موسیٰ :مناسب ہے.
جولین :لیکن آپ کے پاس لشکر کتنا ہے؟
موسیٰ :اٹھارہ ہزار.
جولین :ان علاقوں کی فتح کے لیے یہ لشکر کم ہے.
موسیٰ :کم ؟کیا آپ نے طارق کو نہیں دیکھا؟ ؟ان کے ہمراہ کتنا لشکر تها صرف بارہ ہزار مسلمان
جولین :یہ سچ ہے مگر اس طرف کے قلعہ جات نہایت مضبوط اور عیسائی بکثرت ہیں -
موسیٰ :کچھ فکر نہ کرو اللہ مددگار ہے وہی ہمیں فتح دے گا.
جولین :بہتر ہے -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے روز موسیٰ اپنا لشکر لے کر اشبیلیا کے علاقے کی طرف بڑھے -
عیسائیوں نے مجاہد اعظم طارق کی فتوحات کے واقعات سن رکهے تهے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ مسلمان جس شہر میں جاتے یا حملہ کرتے ہیں اسے فتح کئے بغیر نہیں چھوڑتے.
ان کے دلوں پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی -
چنانچہ جس وقت موسیٰ اس نواح میں بڑھے تو شہر اور قلعے کے عیسائی ان کے سامنے آ پڑے اور انہوں نے صلح کی درخواست پیش کی.
موسیٰ نے بھی نہایت نرم شرائط کے ساتھ صلح کرنی شروع کردی اور اس طرح سے ان کی رحم دلی کی اشبیلیا کے تمام علاقوں میں شہرت پھیل گئی اور سارے علاقوں کے عیسائی آ آ کر صلح کرنے لگے اس طرح مسلمان بغیر کسی خون خرابے کے تمام علاقوں پر قابض ہو گئے -
چونکہ یہ علاقہ دور تک پھیلا ہوا تھا اس لیے موسی نے یہاں آ کر عیسیٰ بن عبداللہ کو گورنر بنا کر دو ہزار سپاہی ان کے علاقے میں امن امان قائم رکھنے کے لیے چهوڑ دئیے اور خود شہر قار مونیا کی جانب بڑھے.
جب وہ اس شہر کے سامنے پہنچے تو انہوں نے وہاں صبح کی نماز پڑھی اور فارغ ہو کر مسلح لشکر کو حکم دیا اتنے میں قلعہ کا پھاٹک کهلا اور چند آدمی سفید جھنڈا لہراتے ہوئے نظر آئے.
چونکہ سفید جھنڈا امن اور صلح کا جھنڈا کہلاتا ہے اس لیے موسی نے لشکر کو حملہ کرنے سے روک دیا.
یہ لوگ موسیٰ کے حضور حاضر ہوئے اور صلح کی درخواست پیش کی موسیٰ نے ان کی بهی انہیں شرائط پر صلح کر لی جن کی بناء پر اشبیلیا والوں سے کی تھی.
غالباً قارئین اس بات کے متمنی ہوں گے کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے کہ وہ شرائط کیا تهیں تو درج زیل شرائط
عیسائی شہری مسلمانوں اور اسلامی حکومت کے وفادار رہیں گے اور کبھی سرکشی نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی سازش کریں گے.
انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو گی.
عیسائی حکومت کا جو قانون ہے وہی قانون نافذ رہے گا.
پرانے گرجے بدستور قائم رہیں گے البتہ نئے گرجے تعمیر کرنے کے لیے حاکم سے اجازت لینی ہو گی.
ہر مقدمہ کی اپیل مسلمان حاکم کے اجلاس میں ہو گی اور اس کا فیصلہ ناطق ہو گا.
عیسائیوں کو ہر مرد و عورت اور بچہ کی طرف سے 2 دینار سالانہ جزیہ دینا ہو گا -
جو عیسائی مسلمان ہو جائے گا اس پر اسلامی قوانین کی پابندی لازم ہو گی اور عیسائی قوانین سے کوئی سروکار نہ ہو گا -
یہ وہ شرائط ہیں جن کی بنا پر موسی نے ان سے صلح کی تھی.
چونکہ ان سے نرم شرائط اور ہو بھی نہیں سکتی تھیں اس لیے عیسائی بڑے جوش و خروش سے ان کی شرائط کو مان لیتے تھے اور قلعہ اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیتے تھے -
چنانچہ انہیں شرائط پر شہر قارمونیا نے بھی صلح کر لی قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا -
موسیٰ نے ایک معمولی درجے کے آفیسر کو ڈھائی سو پیادہ دے دے کر اس شہر میں متعین کر دیا اور خود بوسیٹانیا کی طرف بڑھے -
بوسیٹانیا اندلس غربی کا حصہ تھا موسیٰ نے اس کی طرف پیش قدمی کی اور سب سے پہلے شہر سبلا پہنچے ان کے آنے سے پہلے ہی یہاں ان کی ہیبت چها گئی تھی انہوں نے ان سے پہنچتے ہی صلح کر لی یہاں بھی انہوں نے کچھ سپاہی چھوڑے اور خود اسونیا کی طرف بڑھے -
اسونیا کا قلعہ نہایت مضبوط تها لیکن اس کے باشندوں کی ہمتیں اس فصیل کی طرح بلند نہ تهیں چنانچہ انہوں نے بھی صلح کر کے قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا وہاں سے موسیٰ مرتبلس کی طرف بڑھے.
چونکہ انہیں فتوحات بغیر لڑے بهڑے ہی نصیب ہوتی جا رہی تھیں اس لیے ان کا جذبہ شوق بڑھتا چلا گیا جب وہ مرتبلس پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں نے ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور صلح کر کے قلعہ ان کے حوالے کر دیا موسیٰ وہاں سے بیزاد کی سمت روانہ ہوئے.
اب تک انہوں نے جتنا بھی علاقہ فتح کیا وہاں کچھ نہ کچھ لشکر چھوڑتے رہے جس کی وجہ سے ان کا لشکر کم رہ گیا.
مسلمانوں کا عیسائیوں پر اتنا رعب چها گیا تھا کہ مزید لشکر منگوانے کی ضرورت ہی نہیں تهی.
بیزاد والوں نے ان سے مصالحت کر لی اور وہ آگے بڑھے.
تمام علاقے کو فتح کر کے وہ شہر مریڈا پہنچے. یہ شہر اس قدر خوبصورت تها کہ موسیٰ اور تمام مسلمان اسے دیکھ کر حیران رہ گئے.
وہ پہاڑ کے دامن میں آباد تھا اور اس کی فصیل نہایت بلند تهی ایسا لگتا تھا کہ اس شہر کے بانیوں نے بھاری پتهروں کو کاٹ کر بنایا تھا.
مریڈا والوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر دیا اور فصیل پر چڑھ گئے موسی سمجھ گئے کہ مریڈا والے لڑنے کے ارادے سے فصیل پر چڑھ گئے ہیں.
کونٹ جولین سے انہیں معلوم ہوا کہ اس قلعہ کے اندر کم از کم پچاس ہزار سپاہی موجود ہیں یہ دیکھ کر موسیٰ نے اپنا ایک قاصد اپنے بیٹے عبدالعزیز کے پاس روانہ کر دیا کہ امدادی لشکر لے کر جلد از جلد یہاں آ جائیں.
ادھر انہوں نے قاصد مریڈا والوں کے پاس بهیجا کہ وہ صلح کر لیں لیکن شہر والے آمادہ نہ ہوئے اور ایک معزز شخص نے بلند آواز میں کہا اپنے معزز سردار کہو کہ اس قلعہ کی فتح کا خیال دل سے نکال کر کسی اور طرف چلا جائے.
ورنہ اس کے لشکر کی تمام لاشیں اس فصیل کے نیچے سڑتی ہوئی نظر آئیں گی.
قاصد نے کہا تم فضول لڑ رہے ہو تمام ملک فتح ہو چکا ہے حتی کہ دارالسلطنت بھی اور تمہارے سردار بھی ہمارے مطیع ہو چکے ہیں پھر کس کے بھروسے پر تم لڑنا چاہتے ہو؟
اس شخص نے جواب دیا اپنے قلعہ کی مضبوطی اور لشکر کی کثرت تعداد کے بھروسے پر
اس کے علاوہ شاہ رازرق کی ملکہ نائلہ یہاں موجود ہے اور جب تک وہ یہاں رہے گی اس وقت تک ہم ان کی حفاظت کریں گے - "
قاصد واپس آ گیا اور اس نے قلعہ والوں کا پیغام سنا دیا.
موسیٰ نے جوش میں آ کر اپنے لشکر میں منادی کرا دی کہ رات کو حملے کے لیے تیار رہیں اور اگلے روز مریڈا پر حملہ کیا جائے گا -
اب تک اس لشکر کو زور آزمائی کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ بغیر لڑے ہی انہیں فتوحات ملی تهیں مگر اب انہیں امید ہو چکی تھی کہ مریڈا والوں سے جنگ ضرور ہو گی.
وہ امیر کے اعلان کو سن کر بہت خوش ہوئے اور ساری رات لڑائی کی تیاری کرتے رہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی