فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 27═(قرطبہ پر قبضہ )═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلمان چونکہ ساری رات کے بھیگے ہوئے جاگتے اور سفر کرتے رہے تھے اور پچھلی رات سے مسلسل لڑ رہے تھے اس لیے تھک کر چور ہو گئے تھے-
اس کے علاوہ مغیث الرومی کو اندیشہ ہوا کہ زیادہ عرصہ تک بھیگے کپڑے پہنے رہنے سے کہیں مسلمانوں کو نمونیا نہ ہو جائے اس لئے انہوں نے سر دست انہیں تعاقب کرنے سے روک دیا- "
جب تمام مسلمان اور سارے قیدی آیک جگہ جمع ہو گئے تب مغیث الرومی نے مسلمانوں کو کپڑے بدلنے کو کہا لیکن مشکل یہ پیش آئی کہ تمام مسلمانوں کے کپڑے خیموں میں تھے چنانچہ یہ دیکھ کر مغیث الرومی نے پانچ سو آدمیوں کو اسلامی خیموں میں بھیجا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ خیمے اکھیڑ کر معہ تمام سامان کے لدوا لائیں اور باقی کے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بھیگے کپڑے اتار کر دھوپ میں بیٹھ جائیں صرف ایک ایک شلوار پہنے رکھیں-
مسلمانوں نے ان کے حسب حکم سوائے شلواروں کے تمام کپڑے اتار دیئے اور منہ ہاتھ دھو کر دھوپ میں جا بیٹھے ۔
کچھ دیر بعد خیموں کا تمام سامان منتقل ہو کر خیموں میں آ گیا اور مسلمانوں نے صاف اور دھلے کپڑے پہنے-
فصیل کے قریب ہی خیمے کھڑے کر دیئے گئے ۔
قیدیوں کو خیموں کے درمیان میں رکھا گیا اور ڈھائی سو آدمی پہرے پر مقرر کر کے باقی سب آدمیوں کو سونے کی ہدایت کی گئی اور وہ خیموں میں گھس گھس کر سو گئے ۔مغیث الرومی کے ہمراہیوں نے آرام کیا اور ظہر کے وقت اٹھ کر انہوں نے نماز پڑھی کھانا کھایا اور وہ سب قلعے کا جائزہ لینے چلے ۔
امامن بھی قلعہ کے اندر آ گیا اور وہ اپنا مکان اور دیگر سامان دیکھنے لگا تھا ۔
اس کا مکان محفوظ تھا وہ مغیث الرومی کے پاس اس وقت آیا جب وہ قلعہ کا جائزہ لینے جا رہے تھے- "
اس نے دریافت کیا:
کہاں جا رہے ہیں آپ؟ "
مغیث الرومی: میں قلعہ کو دیکھنے جا رہا ہوں ۔
امامن: ابھی آپ کو ایک مقام فتح کرنا باقی رہ گیا ہے ۔
مغیث الرومی :کون سا؟"
امامن :گرجا
مغیث الرومی :ہم معبد گاہوں پر حملہ نہیں کرتے ۔
امامن :لیکن وہاں دشمن چھپے ہوئے اور لڑائی کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔
مغیث :کون سے دشمن؟ "
امامن :قلعہ دار چار سو سپاہیوں کو لے کر وہاں چھپا ہوا ہے ۔
مغیث الرومی: بہت خوب مجھے تو لگا تھا وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے ۔
امامن: وہ بھاگا نہیں تھا بلکہ گرجا میں پناہ لے کر جنگ کی دھمکی دے رہا ہے ۔
مغیث الرومی :اچھا بتاو گرجا کہاں ہے؟
امامن :چلئے!!!!!!
مغیث الرومی :پانچ سو سپاہیوں کا دستہ لے کر امامن کے ساتھ روانہ ہوئے ۔
چند راستوں اور گلیوں کو طے کر کے ایک عظیم الشان گرجا کے سامنے جا پہنچے ۔
یہ گرجا نہایت بلند اور خوبصورت تھا اس کی چار دیواری اتنی اونچی تھی کہ قلعہ کے اندر ایک اور قلعہ لگتا تھا- "
مغیث الرومی نے اس کی فصیل کے قریب پہنچ کر بلند آواز سے کہا ۔
عیسائیو یہ گرجا ہے معبدہ گاہ کہلاتا ہے تمہیں اس جگہ آ کر چھپنا مناسب لیکن اب جب کہ تم آ کر چھپ گئے ہو تو تم کو امن اور پناہ دیتا ہوں ۔
تم ہتھیار ڈال دو اور گرجے سے چپ چاپ نکل کر جہاں جانا چاہے چلے جاو کوئی تم سے تعرض نہ کرے گا قلعہ دار فصیل پر آیا اور اس نے کہا- "
ہم اس وقت تک اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب تک ہمارا ایک بھی آدمی زندہ ہے- "
مغیث الرومی کو غصہ آ گیا ۔
انہوں نے اپنے جانباز سپاہیوں کو حکم دیا کہ حملہ کر دیں ۔
مسلمان بڑھے تو عیسائیوں نے اوپر سے تیروں کی بارش کر دی ۔
بہت سے مسلمان زخمی ہو گئے ۔
مغیث الرومی کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا وہ ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں ڈھال لے کر دروازے کی طرف بڑھے ۔
انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ کر تمام مسلمانوں غضب سے بھر کر بڑھے اور انہوں نے ڈھالوں کو آگے کر لیا
عیسائیوں نے پوری شدت سے تیرافگنی شروع کر دی مگر جانباز و سرفروش مجاہدین نے تیروں کی مطلق بھی پروا نہ کی وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ وہ عین فصیل کے قریب آ گئے ۔
مغیث الرومی نے نیزہ نکال کر پھاٹک پر مارا پچاس ساٹھ مسلمانوں نے ایک ساتھ نیزوں کے وار کئے دروازہ بہت مظبوط تھا مگر ٹوٹ گیا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلمان تلواریں سونت سونت کر قلعے کے احاطے میں میں پہنچ گئے ۔
عیسائی فصیل سے اتر کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور صفیں قائم کر کے مقابلے پر آمادہ نظر آئے ۔
مسلمانوں نے انہیں دیکھتے ہی ان پر جھپٹ کر حملہ کر دیا عیسائیوں نے جواں مردی سے مقابلہ کیا ۔
تلواریں چلنے لگیں اور سر کٹ کٹ کر گرنے لگے چونکہ بہت سے مسلمان زخمی تھے اس لیے وہ جوش سے بھرے ہوئے حملہ کر رہے تھے ۔انہوں نے متواتر حملے کر کر کے عیسائیوں کی ایک صف کا مکمل خاتمہ کر دیا ۔
اور اب دوسری صف سے لڑائی کرنے لگے عیسائی بھی نہایت جوش و خروش سے لڑ رہے تھے مگر وہ مسلمانوں کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے ۔
مسلمان غیض و غضب سے بھرے نہایت پھرتی سے حملے کر رہے تھے اور بڑی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر رہے تھے ۔
مغیث الرومی کو اتنا غصہ آ رہا تھا کہ وہ ہر حملہ پر علم کو حرکت دیتے تھے اور ہر حملہ میں عیسائیوں کو مار رہے تھے ۔
اس طرح بہت سارے عیسائیوں کو انہوں نے خود ہی مار ڈالا ۔
لڑتے لڑتے وہ قلعہ دار کے قریب پہنچ گئے تھے قلعہ دار انہیں دیکھ کر ہنسا اور بولا ۔
مسلم سردار آخر تمہاری موت تمہیں میرے سامنے کھینچ ہی لائی- "
مغیث الرومی اس کی بات نہ سمجھ سکے اور پوچھا کیا کہہ رہے ہو کیا پناہ چاہیے؟ "-
قلعہ دار نے مغرورانہ انداز میں کہا میں تم کو معاف کر سکتا ہوں اگر تم قلعہ سے باہر چلے جانے کا وعدہ کرو ۔
مغیث الرومی نے کہا اچھا پناہ نہیں مانگتے تو کیا لڑنا چاہتے ہو؟ "-
دونوں اپنی اپنی زبان میں گفتگو کر رہے تھے اور لطف یہ تھا کہ ایک دوسرے کی بات بالکل نہیں سمجھتے تھے ۔
آخر قلعہ دار نے حملہ کر دیا مغیث الرومی نے حملہ روک کر پورے جوش سے حملہ کیا اور پوری قوت سے وار کیا ۔
ان کی تلوار کی نوک قلعہ دار کی ڈال کاٹ کر اس کی پیشانی پر جا پڑی اور پیشانی توڑ کر پیچھے تک اتر گئی ۔
اس نے دلدوز آہ بلند کی اور گرا ۔
اب مغیث الرومی نے پلٹ کر دیکھا تو مسلمانوں نے تمام عیسائیوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا ۔
ایک شخص بھی زندہ نہ بچا ۔
مغیث الرومی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اب اپنا دستہ لے کر گرجا کی عمات کی عمارت کی طرف چلے ۔
جب وہاں کوئی عیسائی نہ ملا اور بالکل اطمینان ہو گیا تب واپس لوٹے ۔
وہ خود معہ سردار ان کے گورنر کے محل میں ٹھہرے اور عام مجاہدین اس محل کے سامنے والے میدان میں خیمہ زن ہو گئے ۔
اس طرح سے قرطبہ کا ناقابل تسخیر قلعہ فتح ہوا 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی