فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 26═(خون ریز جنگ)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قرطبہ کے عیسائی رات کے طوفان کے خوف سے گھروں کے اندر چھپے ہوئے میٹھی نیند سو رہے تھے کہ انہوں نے پہیم اللہ اکبر کے نعروں کی دل دہلانے والی آوازیں سنیں ۔
وہ نہایت حیران ہوئے اور خوفزدہ بھی انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ گزشتہ روز مسلمانوں قاصد آیا تھا اور اس نے صلح کا پیغام دیا تھا جیسے قلعہ دار نے مسترد کردیا تھا ۔
انہیں خیال تھا کہ اگر مسلمان پورے ایک سال بھی قلعہ کا محاصرہ کئے پڑے رہیں گے تب بھی اسے فتح نہیں کر سکیں گے، لیکن آج جب انہوں نے قلعہ کے اندر ہی تکبیروں کی آوازیں سنیں تو سب بھول گئے اور صورت حال معلوم کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے ۔
باہر نکلتے ہی انہوں نے دیکھا کہ مسلمان بارکوں پر حملہ کر کر کے ان عیسائیوں کو قتل کر رہے ہیں جو وہاں چھپے پڑے ہیں-
اب آفتاب طلوع ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا اور چونکہ اس وقت مطلع صاف ہو چکا تھا اس لئے صبح کی دلفریب روشنی اچھی طرح پھیل گئی تھی اور اس روشنی میں دور دور تک کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔
مسلمانوں نے آگے بڑھتے ہی بارکوں میں چھپے ہوئے سپاہیوں کو دیکھ لیا تھا ۔
انہیں دیکھتے ہی انہوں نے بارکوں پر حملہ کر دیا ۔
عیسائی اپنی جانیں بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے لیکن ان پر مسلمانوں کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا تھا کہ وہ ان کے وہ ان کے سامنے آتے ہوئے ایسے ہچکچانے لگے کہ جیسے انسان شیروں کے سامنے جانے سے ڈرتا اور پس و پیش کرتا ہے-
ان کے اس طرح ڈرنے اور ہچکچانے سے مسلمان اور بھی شیر ہو گئے تھے اور وہ انہیں جہاں تہاں قتل کر رہے تھے-
عیسائی سپاہی چیخ و پکار کر رہے تھے اور اپنی مدد کے لیے اوروں کو بلا رہے تھے-
زخمی لوگ بری طرح سے کراہ رہے تھے اور ان کی آوازوں سے تمام قلعہ گونجنے لگا تھا-
مسلمانوں کو ان کے شور مچانے کی پرواہ نہ تھی نہ چیخنے کی ۔
وہ بڑی تیزی سے تلوار چلا چلا کر انہیں قتل کر رہے تھے-
قلعہ دار بھی شور و ہنگامہ سن کر اپنے محل سے باہر نکل آیا-
اس نے قصر کے پہرے داروں سے دریافت کیا یہ کیسا ہنگامہ ہو رہا ہے؟ سپاہی کیوں چیخ رہے ہیں؟
پہرے داروں کے جمعدار نے کہا حضور معلوم ہوا ہے کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے ہیں- "
قلعہ دار فرط حیرت و خوف سے چونک پڑا-
اس نے متعجب ہو کر کہا- "
مسلمان گھس آئے ہیں اور قلعہ میں؟ ؟؟"
جمعدار: جی ہاں حضور
قلعہ دار: کیا تم نے دیکھا ہے؟
جمعدار: نہیں حضور
قلعہ دار: پھر کیسے معلوم ہوا؟
جمعدار: ابھی ایک سپاہی بارکوں میں سے بھاگ کر آیا تھا وہ کہتا تھا-
قلعہ دار: کیا اس نے مسلمانوں کو دیکھا ہے؟
جمعدار: جی ہاں حضور وہ کہتا ہے کہ کمبخت مسلمان بارکوں پر حملہ کر کے سپاہیوں کو قتل کر رہے ہیں-
قلعہ دار: لیکن مسلمان قلعہ کے اندر آئے کیسے؟
جمعدار: حضور وہ تو جن ہیں اور جنوں کو کہیں بھی آنا جانا کیا مشکل ہے ۔
قلعہ دار: بے شک ان بدبختوں کو جن ہی کہا جا سکتا ہے نہ معلوم کس قسم کے لوگ ہیں نہ مرتے ہیں نہ ڈرتے ہیں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا یہ وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں-
جمعدار: حضور جلدی وہاں تشریف لے چلیے جہاں جنگ ہو رہی ہے- "
قلعہ دار: ضرور چلوں گا تم اپنے ماتحت سپاہیوں کو جمع کر لو میں تیار ہو کر آتا ہوں-
جمعدار: بہتر جناب
قلعہ دار چلا گیا اور جمعدار نے اپنے ماتحت سپاہیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکھٹا کیا تھوڑی دیر میں قلعہ دار آ گیا اس نے آتے ہی دریافت کیا-
کہو تمہارے سپاہی جمع ہو گئے- "
قلعہ دار: آو تم سب میرے ہمراہ چلو-
جمعدار: چلئے حضور!!!!!!
قلعہ دار ان سب کو اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا محل سے باہر نکل کر یہ سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور فصیل کی طرف چلے ۔
اس وقت آفتاب نکل آیا تھا اور دھوپ تمام بھیگی چیزوں پر پھیلنے لگی تھی-
مسلمان نے اپنے لشکر کے کئی حصے کرلیے تھے ایک حصہ بارکوں کے سپاہیوں پر حملہ کر رہا تھا دوسرا برجوں میں سے آنے والوں سے لڑ رہا تھا اور تیسرا ان کے شہریوں سے جنگ کر رہا تھا جو وطنیت کے جذبے سے سرشار ہو کر لڑنے لگے تھے مگر ان کے حملے زیادہ تر بیکار جا رہے تھے ۔
ان میں سے جو بھی حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھتا مسلمانوں کی تلوار کا شکار ہو جاتا تھا-
ان کی دلیری قوت کثرت کچھ بھی ان کے کام نہیں آ رہی تھی ۔
مسلمان شیروں کی طرح ان پر جھپٹ جھپٹ کر حملہ کر رہے تھے اور ان کی تلواریں انہیں چیر پھاڑ رہیں تھیں ۔
مسلمانوں کے کپڑے ہتھیار زین سب پانی میں بھیگے ہوئے تھے ۔
خون کے فوارے انہیں سرخ رنگ میں رنگ رہے تھے ۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر مسلمان خون کے دریا میں غوطہ لگا کر آیا ہو ۔
وہ گھوڑے دوڑائے ادھر ادھر پھر رہے تھے جس طرفجاتے اسی طرف موت کا بازار گرم کر دیتے تھے ۔
جگہ جگہ ہاتھوں پیروں اور سروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔
لاشوں پر لاشیں بچھی پڑی تھیں ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب بارکوں میں سے عیسائی باہر نکل آئے تھے اور وہ بھی موت کی لڑائی لڑنے لگے تھے وہ پیدل تھے اور مسلمان سوار-
اگرچہ وہ بہت زیادہ تھے اور مسلمان بہت کم-
لیکن ان میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ نہیں تھا نہ ہی جرآت و ہمت تھی-
اس لئے وہ قتل ہو رہے تھے اور یہ انہیں قتل کر رہے تھے ۔
عیسائی چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو مار ڈالیں یا انہیں قلعہ سے باہر نکال دیں مگر یہ ان کی طاقت سے باہر تھا ۔
اگرچہ مسلمان بھی شہید ہو رہے تھے مگر بہت کم ، اتفاقیہ ہی کوئی مر جاتا تھا لیکن عیسائی جلدی جلدی اور کثرت سے مر رہے تھے ۔
عیسائی گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے تھے زخمی بری طرح سے چیخ رہے تھے شہری عیسائی شور کر کر کے لڑنے والوں کی ہمتیں بڑھا رہے تھے ۔
ان کی مختلف آوازوں سے قلعہ گونج رہا تھا چونکہ رات بھر زور و شور سے بارش ہوتی رہی تھی، اس لئے پانی ابھی تک نالیوں میں بھرا ہوا تھا اور خون کا دریا لہریں لینے لگا تھا اور اس دریا کو دیکھ دیکھ کر عیسائی اور بھی سہم گئے تھے ۔
چونکہ اب دن بہت چڑھ آیا تھا اور شور و ہنگامہ بھی زیادہ ہورہا تھا اس لئے قریب قریب تمام عیسائی گھروں سے باہر نکل آئے تھے ۔
وہ دوڑ دوڑ کر اس جگہ آتے جاتے تھے جہاں جنگ ہو رہی تھی اور مسلمانوں کو دیکھتے ہی دم بخود ہو کر ایک طرف کھڑے ہو جاتے تھے ۔
جب کہ یہ ہنگامہ دار و گیر بلند تھا اس وقت قلعہ دار بھی بہت سے سواروں کو لے کر آ گیا اور اس نے آتے ہی مسلمانوں پر حملہ کر دیا-
یہ حملہ مغیث الرومی کے دستے پر ہوا ۔
انہیں جوش آ گیا اور انہوں نے ہر جگہ سنبھل سنبھل کر پر شور نعرہ بلند کیا ۔
ان نعروں کی آوازوں سے عورتوں اور بچے اچھل پڑے ۔
لڑنے والے ڈر گئے اور نہ لڑنے والے مرد سہم گئے ۔
مسلمان نے نعرہ لگاتے ہی زور و شور سے حملہ کیا اور عیسائیوں کو گھاس پھوس کی طرح کانٹا شروع کر دیا-
ادھر مغیث الرومی کے دستے نے قلعہ دار کے ساتھ دو ہزار سوار تھے ۔
ظاہر ہے کہ برابر کا مقابلہ نہ تھا مگر مسلمان جو قلت اور کثرت کی پرواہ نہ کیا کرتے نہایت جرآت بہادری سے لڑنے لگے ۔
ان کی تلواریں سروتن کے فیصلے کرنے لگیں ۔
موت بڑی تیزی سے روحیں قبض کرنے لگی اور جنگ کے شعلے بھڑک کر دور تک پھیل گئے ۔
تمام عیسائیوںکو مسلمانوں پر بہت غصہ آ رہا تھا کہ مسلمان نہ مرتے ہیں نہ قلعے سے باہر نکلتے ہیں بلکہ ایک جگہ جمع ہوئے نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے اور جو کوئی بھی ان کی تلوار کی ذد میں آتا اسے کاٹ ڈالتے تھے ۔
مسلمانوں کی تلواروں میں سے انہیں موت کی جھلک نظر آ رہی تھی
اس لئے وہ محض اپنی جانیں بچا رہے تھے جو مسلم دستہ شہر والے عیسائیوں سے لڑرہے تھے انہوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے نہایت زور و شور سے حملہ کیا اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر وہ بپھرے ہوئے شیروں کو روک نہ سکے ۔
مسلمانوں نے ان کا قتل عام شروع کر دیا جس طرف ان کا رخ ہوتا پشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے ۔
صفوں کی صفیں الٹ دیں اور مردوں کے ڈھیر لگا دئیے ۔
یہ کیفیت دیکھ کر شہری عیسائیوں کے چھکے چھوٹ گئے ۔وہ سمجھ گئے کہ کہ اب مزید ایک گھنٹہ اور مسلمان اسی طرح لڑتے رہے تو ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں رہے گا ۔انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور امان امان چلانے لگے ۔
مسلمانوں کو ان کے ہتھیار ڈالنے اور ان کی بزدلی پر بہت غصہ آ رہا تھا وہ چاہتے تھے کہ ان سب کو قتل کر ڈالیں لیکن ان کے سپہ سالار کی نصیحت تھی کہ نہتے پر ہاتھ نہیں اٹھانا اس لئے مجبورا انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا اور اپنی تلواریں میانوں میں ڈال لیں ۔
جس وقت انہیں گرفتار کیا جارہا تھا تو تمام شہریوںنے اپنی گرفتاری کا سوچ کر رونا اور فریاد کرنا شروع کر دیا ۔
ان کی اہ بکاہ کی آوازیں سن کر عیسائیوں کی رہی سہی ہمتیں بھی ٹوٹ گئیں ۔
وہ حسرت بھری نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔
مسلمان ان نگاہوں کو دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ اب ان میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر رحم کی التجائیں کرنے لگے ۔
مسلمانوں نے جنگ بندی کر دی کچھ لوگ گرفتاریوں میں لگ گئے اور کچھ مغیث الرومی کے دستے کی مدد کے لیے بڑھے ۔
مغیث الرومی اور ان کا دستہ نہایت جوش و خروش سے لڑ رہا تھا لیکن عیسائی زیادہ تھے اور مسلمان بہت کم اس لئے عیسائی بھی نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے ۔
وہ چاہتے تھے یا ان کا خیال تھا کہ وہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کو ختم کر ڈالیں گے مگر مسلمان حلوائے تر نہ تھے ۔
وہ نہایت شجاعت سے لڑرہے تھے اور پھرتی سے انہیں قتل کر رہے تھے ۔
جب کہ یہاں خون ریز معرکہ کارزار گرم تھا ان مسلمانوں نے بھی حملہ کر دیا جو بارکوں کے سامنے سے آئے تھے اور کچھ ایسی شدت سے حملہ کیا کہ عیسائی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے لگے ۔
ادھر مغیث الرومی اور ان کے دستے نے بھی سنبھل کر حملہ کیا ان دونوں حملوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی کثیر تعداد کو قتل کر ڈالا اور جونہی انہوں نے دوسرا حملہ کیا عیسائی بے تحاشابھاگے قلعہ دار سب سے آگے تھا ۔
مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرنا چاہا لیکن مغیث الرومی نے انہیں منع کر دیا اور سب مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم
دیا ۔حکم سنتے ہی ہر طرف سے مسلمان سمٹ سمٹ کر جمع ہونے لگے 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی