🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت یہ سرفروش روانہ ہوئے، اس وقت بارش بھی زور و شور سے ہونے لگی -
ہوا بھی تیز ہو گئی ۔
بادل اور بجلی گرجنے لگی ۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اربعہ عناصر کی ٹکر شروع ہو ہے اور بادو باراں کا طوفان امڈ آیا ہے ۔
مسلمانوں نے اگرچہ زرہ بکتریں پہن رکھی تھیں لیکن بارش کا پانی سروں پر پڑ پڑ کر گلے کے پاس زرہوں کے نیچے جا رہا تھا اور اس طرح وہ بھیگ رہے تھے ۔
اس کے علاوہ ہوا ایسی تیز اور بارش اس زور و شور سے ہو رہی تھی کہ آنکھ نہ کھلتی تھیں اور نہ آسانی سے آگے بڑھا جاتا تھا ۔
مجاہدین کے گھوڑے بھی سخت پریشان ہو رہے تھے مگر مسلمانوں نے گویا تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔
ساتھ ساتھ کالی گھٹا ہوا مینہ کا طوفان آ رہا تھا ان سب باتوں نے مل جل کر ایسا اندھیرا کر رکھا تھا کہ پاس کی چیز بھی نظر نہ آتی تھی ۔
مسلمان محض قیاس یا خیال کی بنا پر چل رہے تھے البتہ جب بجلی چمک جاتی تب انہیں قلعہ نظر آ جاتا تھا اور وہ چل پڑتے تھے آخر وہ چلتے چلتے قلعہ کی فصیل کے نیچے پہنچ گئے امامن ان کے ساتھ تھا چونکہ وہ بھیگ چکا تھا اس لئے اسے سردی محسوس ہونے لگی تھی اور وہ کانپ رہا تھا مگر کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ جس طرح وہ بھیگ رہا تھا اسی طرح سے تمام مسلمان بھیگ رہے تھے مگر مسلمان جفا کش تھے اگرچہ انہیں بھی ٹھنڈ معلوم ہو رہی تھی لیکن وہ اس کی پرواہ نہ کر رہے تھے ۔
بادلوں کی ہولناک گرج اور بجلی کی ہیبت ناک کڑک کے ساتھ ساتھ ہوا کی تھرتھراہٹ سے فضا اس قدر گونج رہی تھی کہ گھوڑوں کے سموں کی آواز میں جذب ہو کر رہ جاتی تھی ۔
اس سے مجاہدین کو اس بات کا خدشہ نہ رہا تھا کہ گھوڑوں کے قدموں کی آواز قلعہ نشینوں یا فصیل پر موجود عیسائیوں تک پہنچ جائے گی ۔
مسلمان خوب جانتے تھے کہ اس وقت ایسی بارش اور ہوا میں ایک عیسائی بھی فصیل پر موجود نہ ہو گا ۔
سب برجوں میں چلے گئے ہوں گے یا پھر فصیل کے نیچے بارکوں میں جا گھسے ہوں گے
نیز عیسائیوں کو پورا پورا یقین ہو گا کہ قلعے میں نقب نہیں لگ سکتی ۔
مغیث الرومی نے امامن سے دریافت کیا کہ بزرگ یہودی فصیل میں کس طرف شگاف ہے؟ امامن نے کانپتے ہوئے جواب دیا اندھیرا اور بارش کچھ دیکھنے ہی نہیں دے رہے حضور جواب کیا بتاوں- "
مغیث الرومی نے کہا شاید آپ کو سردی زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔
امامن :جی ہاں ۔
مغیث الرومی :ہم نے بڑی غلطی کی جو تم کو ناجائز ہمراہ لائے ۔
امامن :دراصل ایسی خوفناک بادلوں کی گرج اور ایسی دل ہلا دینے والی بجلی کی کڑک میں حملہ کا ارادہ کرنا ہی غلطی میں داخل تھا ۔
مغیث الرومی :یہ سچ ہے لیکن قدرت ہماری مدد کر رہی ہے ۔
طوفان اسی لئے اٹھا ہے اگر ہم اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائیں تو ہم سے بڑا بد نصیب کون ہو سکتا ہے؟
امامن :میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ لوگ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں نہ دھوپ کا اثر ہوتا ہے نہ بارش کا نہ دشمن کی کثرت کا نہ ان کے سازو سامان کا ۔
مغیث الرومی :مسلمان صرف خدا پرست ہوتا ہے اور خدا پرست جفا کش ہوتے ہیں ہم بھی جفاکش ہیں ۔اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور جب کسی کام کا ارادہ کر لیتے ہیں تو پھر اپنے ارادے سے ٹلتے نہیں ہیں اللہ مدد کرتا ہے اور ہم کامیاب ہوتے ہیں- "
امامن: آپ ٹھیک فرما رہے ہیں ۔
مغیث الرومی: دیکھو بجلی بار بار چمک رہی ہے تم کوشش کر کے بجلی چمک میں اندازہ لگا لو کہ شگاف کس طرف ہے ۔
امامن :بہتر ہے ۔
ہر ہولناک گرج کے بعد بجلی چمکتی تھی اور بادلوں کے اوپر سانپ کی طرح لہرانے لگتی تھی اگرچہ اس کی چمک اتنی تیز ہوتی تھی کہ آنکھیں جھپک جاتی تھیں لیکن مسلمان کچھ نہ کچھ دیکھ ہی لیتے تھے ۔
اس مرتبہ بھی جب بجلی چمکی تو امامن نے بھی فورا آنکھیں کھول کر دیکھا لیکن اس کی آنکھیں فورا ہی بند ہو گئیں ۔
مغیث الرومی نے کہا کہو کچھ اندازہ لگایا تم نے؟
امامن: جی نہیں بجلی کی تیزی نے میری آنکھیں بند کر دیں تھیں ۔
مغیث الرومی: اچھا تمہیں اس کی کوئی خاص نشانی یاد ہے؟
امامن: جی ہاں اس کے پاس انجیر کا ایک بڑا درخت کھڑا ہے ۔
مغیث الرومی نے کہا بس کافی ہے ۔
آب انہوں نے بلند آواز میں کہا مسلمانوں انجیر کا ایک بڑا درخت تلاش کرو یہ کہتے وہ بڑھے ان کے پیچھے لشکر چلا اور وہ فصیل کے گرد چکر لگانے لگے ۔
اگرچہ دیر سے بارش ہو رہی تھی لیکن لگتا تھا بادلوں کو غصہ آ رہا تھا اور وہ بڑے زور سے پانی پھینک رہے تھے ۔
ہوا بھی غضبناک ہو رہی تھی اور وہ پانی کو چیرتی ہوئی بڑے زور سے چل رہی تھی ادھر بجلی تیش میں آ رہی تھی اور گرج گرج کر چمک رہی تھی ۔ اس وقت طوفان میں بجائے کمی کے اور شدت آ گئی تھی اور اس کو مسلمان اللہ کی رحمت سمجھ رہے تھے اور وہ برابر بھیگتے ہوئے بڑھ رہے تھے جب وہ شمال کی طرف پہنچے تو مسلمانوں نے ایک بڑا انجیر کا درخت عین فصیل کے نیچے کھڑا ہوا دیکھا انہوں نے آہستگی سے کہا
-"
جناب انجیر کا درخت یہ ہے- "
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگرچہ مغیث الرومی درخت کے نیچے ہی آ گیا تھا لیکن اندھیرا ایسا پڑا ہوا تھا کہ انہیں درخت نظر ہی نہ آیا جب بجلی چمکی تب انہوں نے دیکھا اور کہا ۔
ہاں انجیر کا درخت یہی ہے اچھا اب شگاف تلاش کرو ۔
مغیث الرومی کے رکتے ہی سارا لشکر رک گیا اور سب نے اوپر نظر اٹھانی چاہی لیکن ایک تو بارش ہو رہی تھی دوسرے درخت کے پتوں اور شاخوں میں سے چھن چھن کر آنے والے پانی کی وجہ سے کوئی بھی آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھ سکا جس وقت بجلی چمکی انہیں شگاف نظر آ گیا انہوں نے مغیث الرومی کے پاس جا کر کہا ۔"
ہم نے شگاف دیکھ لیا ہے مغیث الرومی نے کہا کہاں؟
ایک مجاہد :اس درخت کا گدا فصیل کی طرف گیا ہے اور شگاف بالکل گدے کی سیدھ میں ہے ۔
امامن بھی وہیں کھڑا تھا اس نے کہا ۔
ٹھیک کہا انہوں نے شگاف بالکل گدے کی سیدھ میں ہے ۔
مغیث الرومی نے کہا کیا گدا شگاف تک گیا ہے؟
امامن :نہیں تین یا چار فٹ کے فاصلے پر رہ گیا ہے پھر اگلی شاخ اس قدر نازک ہے کہ وہ کسی انسان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ۔
ایک دبلے پتلے مسلمان نےکہا ۔
مگر وہ میرا بوجھ سنبھال لے گی میں لشکر میں شاید سب سے ہلکا ہوں ۔
امامن :نہیں تم اس پر چڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ گر پڑو گے اور ہلاک ہو جاو گے ۔
مسلمان :مرنا تو ہماری عین تمنا ہے ۔
امامن :تمہارا یہی حوصلہ تمہاری کامیابی کا ضامن ہے ۔
مغیث الرومی :اچھا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو اور درخت پر چڑھ جاو لیکن جب پتلی شاخ شروع ہو تو بجلی کی چمک میں دیکھ لینا کہ وہ تمہارا بوجھ برداشت کر سکے گی یا نہیں اور کیا تم شگاف تک پہنچ جاو گے ۔
امامن: دونوں باتیں غیر ممکن ہیں ۔
مغیث الرومی: کیا مطلب ہے آپ کا؟
امامن: یہی کہ نہ شاخ اس کا بوجھ سنبھال سکے گی اور نہ شگاف تک پہنچ سکیں گے ۔
مغیث الرومی: اللہ مدد کرے گا ہمارا اسی پر تکیہ ہے ۔
نوجوان مجاہد گھوڑے سے نیچے اتر آیا بارش اتنی تیز ہو چکی تھی کہ زمین پر پانی کا سیلاب آ گیا تھا ۔
گھٹنوں گھٹنوں تک پانی چڑھا ہوا تھا اور ابھی تک پانی اسی شد و مد سے برس رہا تھا ۔
نوجوان پانی کو چیرتے ہوئے درخت کے تنے کے پاس پہنچا اس نے ٹٹول کر دیکھا تمام تنا بھیگ رہا تھا
بھیگے ہوئے درخت پر چڑھنا آسان نہیں تھا مگر اس نے بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور نہایت ہوشیاری اور احتیاط سے چڑھنا شروع کیا وہ جوں جوں اوپر چڑھتا جاتا تھا بھیگی ہوئی شاخوں سے پانی بارش کی طرح ٹپک رہا تھا
کئ مرتبہ پھسلا بھی مگر اس کے عزم و استقلال میں کچھ فرق نہ آیا اور وہ بدستور چڑھتا رہا ۔
بالآخر وہ درخت پر چڑھ گیا ۔چڑھتے ہی وہ اس ٹہنی پر ہو لیا جو کہ فصیل کی طرف پھیلا ہوا تھا ۔
تنے کے پاس سے تو وہ کافی موٹا تھا اور اس پر آسانی سے آدمی چل سکتا تھا لیکن جوں جوں وہ آگے بڑھتا گیا تنا پتلا اور نازک ہوتا جا رہا تھا ۔
بالآخر و ہ شاخ کے آخری سرے پر پہنچ گیا ۔
چونکہ شاخ نازک تھی وہ جھک گئی ۔
بجلی کی چمک میں نوجوان نے فصیل اور شگاف کو دیکھا ۔
اس سے دو گز کے فاصلے پر فصیل میں شگاف تھا اس نے بسم اللہ کہہ کر جست لگائی اور خوش قسمتی سے شگاف کے اندر اس طرح جا بیٹھا جیسے کسی نے اٹھا کر بیٹھا دیا ہو ۔
اس کے کچھ ہی اوپر فصیل کے کنگرے تھے وہ کنگروں پر چڑھ کر اچھلا اور فصیل پر جا پہنچا ۔
بارش اب بھی تیز اور زور و شور سے ہو رہی تھی ۔
ہوا بھی تیز ہو گئی تھی اس نے فصیل پر جا کر دیکھا ساری فصیل خالی تھی وہاں ایک بھی عیسائی نہ تھا ۔
اس نے جلدی سے اپنا عمامہ کھول کر لٹکا دیا اور بلند آہنگی سے کہا میں فصیل پر آ گیا ہوں اور عمامہ لٹکا رہا ہوں اوپر چڑھنا شروع کر دو ۔
امامن کو یقین تھا کہ وہ نوجوان فصیل تک نہیں پہنچ سکے گا اور بالضر درخت کے اوپر سے گر پڑے گا مگر اس نے اس کی آواز سنی اور اس کا مطلب سمجھا تو اسے بڑی حیرت ہوئی ۔
اس نے کہا بڑی حیرت کی بات ہے یہ- "
مغیث الرومی نے کہا حیرت کی بات نہیں اللہ کی مہربانی ہے- "
اب مسلمان فصیل کے پاس پہنچے اور گھوڑوں سے نیچے اتر اتر کر عمامہ کے ذریعے اوپر چڑھنے لگے ۔
جب اندازا پانچ سو آدمی اوپر پہنچ گئے تب مغیث الرومی نے باقی لوگوں کو روک لیا اور کہا کہ وہ تمام اپنے اپنے گھوڑوں کو لے کر دروازہ پر پہنچ جائیں اور دروازہ کھلنے کا انتظار کریں ۔
دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ سیدھے لشکر میں چلے جائیں اور تمام مسلمانوں کو لے کر صدر دروازے پر آ جائیں
دونوں آدمی لشکر کی طرف اور بقایا پانچ سو سوار معہ اپنے اپنے گھوڑوں کے صدر دروازے پر آ گئے ۔
ان کے چلے جانے کے بعد مغیث الرومی بھی اوپر چڑھ گئے اور انہوں نے فصیل پر : پہنچ کر اپنی اس پہلی کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔