اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے
جینے کی تمنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
اے شہر خرابات کے آشفتہ مزاجوں
جب ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے
اس درد کی شدت بھی نمو خیز بہت ہے
جو زخم ہیں سینے میں وہ بھر کیوں نہیں جاتے
ہم معتکف دشت اذیت تو نہیں ہیں
پیروں سے مسافت کے بھنور کیوں نہیں جاتے
جب آئے ہیں مقتل میں تو کیا لوٹ کے جانا
اب اپنے لہو میں ہی نکھر کیوں نہیں جاتے
جب ڈوب کے مرنا ہے تو کیا سوچ رہے ہو
ان جھیل سی آنکھوں میں اتر کیوں نہیں جاتے
یہ بھی کوئی ضد ہے کہ یہ شاہدؔ کی انا ہے
جاتے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے
شاعر: شاہد کمال