وٹامن ڈی دمے کے لیے موثر


 سائنس دانوں نے کہا ہے کہ سورج کی روشنی میں زیادہ وقت گزارنے سے دمے کے مریضوں کی بیماری پر مثبت فرق پڑ سکتا ہے۔


لندن کے کنگز کالج کے تحقیق کاروں نے کہا کہ سورج کی روشنی میں بننے والے وٹامن ڈی کی جسم میں کم مقدار سے دمے کی علامات بدتر ہو جاتی ہیں۔

تازہ ترین تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وٹامن سے مدافعتی نظام کے ضرورت سے زیادہ فعال حصے کو قابو میں لے آتا ہے۔

تاہم ابھی دمے کے مریضوں پر وٹامن ڈی کے تجربات نہیں کیے گئے۔

دمے کے مریضوں کی سانس کی نالیاں سوج کر پتلی ہو جاتی ہیں جن سے انھیں سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔

دمے کے اکثر مریضوں کا علاج سٹیروئڈ ادویات سے کیا جاتا ہے تاہم وہ سب مریضوں کے لیے کارگر نہیں ہوتیں۔

تحقیق کار پروفیسر کیتھرین ہارائلووچ کہتی ہیں، ’ہمیں معلوم ہے کہ جن لوگوں کے بدن میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ان کا دمہ زیادہ قابو میں رہتا ہے۔ یہ تعلق بہت قابلِ ذکر ہے۔‘

پروفیسر کیتھرین اور ان کے ہم کاروں نے اپنی تحقیق کے دوران یہ دیکھا کہ بدن میں پائے جانے والے کیمیائی مادے انٹرلیوکین 17 پر وٹامن ڈی کا کیا اثر ہوتا ہے۔ یہ مادہ مدافعتی نظام کا انفیکشن کا مقابلہ کرنے میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ تاہم اگر اس کی مقدار ضرورت سے زیاددہ ہو جائے تو یہ دمے کا موجب بن سکتا ہے۔

سائنسی جریدے جرنل آف الرجی اینڈ کلینکل امیونالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جب 18 مریضوں کے خون کے نمونوں میں وٹامن ڈی ملایا گیا تو ان میں انٹرلیوکین 17 کی مقدار کم ہو گئی۔

یہ سائنسی ٹیم اب اس بات پر تحقیق کر رہی ہے کہ دمے کے مریضوں کو وٹامن ڈی کھلانے سے ان کی بیماری کی علامات پر کیا فرق پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایسے مریضوں کا انتخاب کیا ہے جن کے اندر سٹیروئڈ ادویات بے اثر ہوتی ہیں اور ان کے اندر انٹرلیوکین 17 کی مقدار دوسرے مریضوں کے مقابلے پر سات گنا زیادہ ہوتی ہے۔

پروفیسر کیتھرین نے بتایا، ’ہمارا خیال ہے کہ ایسے مریض جن پر سٹیروئڈز کا اثر نہیں ہوتا، ان کو وٹامن ڈی دینے سے سٹیروئڈ کام کرنا شروع کر دیں گی، جب کہ دوسرے مریضوں کو کم مقدار میں سٹیروئڈ استعمال کرنا پڑیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ سورج سے بچنے اور جسم پر سن بلاک کریمیں لگانے سے ممکنہ طور پر دمے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’ضرورت سے زیادہ دھوپ آپ کے لیے مضر ہے۔‘

فلاحی ادارے ایسما یو کے کی ملائکہ رحمٰن کہتی ہیں: ’دمے کے مریضوں کے اکثریت کے لیے موجودہ ادویات موثر طریقے سے کام کرتی ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن پر یہ ادویات بے کار ہیں، اس لیے نئے طریقۂ علاج پر تحقیق ضروری ہے۔‘

انھوں نے کہا، ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دمے کے بہت سے مریضوں کو دواؤں کے مضر اثرات کی تشویش ہوتی ہے، اس لیے اگر وٹامن ڈی سے دوا کی مقدار کم ہو جائے تو اس سے لوگوں کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔‘

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی