ஜ۩۞۩ஜ د҉ر҉س҉ِ҉ ҉ح҉د҉ی҉ث҉ ஜ۩۞۩ஜ
عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِي الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِي الْخَلْقِ ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ يَمْلأُ الأَرْضَ عَدْلاً. (رواه ابوداؤد)
ترجمہ:
ابو اسحاق سبیعی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ نام (سید) دیا ہے۔ ضرور ایسا ہوگا کہ اس کی نسل سے ایک مرد خدا پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی والا نام (یعنی محمد) ہوگا وہ اخلاق و سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ ہوگا اور جسمانی بناوٹ میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مشابہ نہ ہوگا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے بیان فرمایا یہ واقعہ کہ وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح:
اس روایت میں ابو اسحاق سبیعی نے (جوتابعی ہیں) حضرت حسنؓ کی نسل سے پیدا ہونے والے جس مرد خدا کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے چونکہ وہ امور غیب سے ہے اور سینکڑوں یا ہزاروں برس بعد ہونے والے واقعہ کی خبر ہے اس لئے ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے یہ بات صاحب وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی فرمائی ہوگی۔ صحابہ کرام کے ایسے بیانات محدثین کے نزدیک حدیث مرفوع (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات) کے حکم میں ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہی سے سنا ہوگا۔
اس روایت میں حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ نام (سید) دیا تھا بظاہر اس سے حضرت علیؓ کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے جو آپ نے حضرت حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا۔ “ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ اَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظْمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ” (میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے متحارب (برسر جنگ) گروہوں کے درمیان مصالحت کرا دے گا) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے بارےمیں سید کا استعمال فرمایا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کی اولاد میں سے ہونگے لیکن بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت حسینؓ کی اولاد میں سے ہوں گے بعض شارحین نے ان دونوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ وہ والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی ہونگے۔
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی کہ مہدی ان کی اولاد میں سے ہوں گے لیکن یہ روایتیں بہت ہی ضعیف درجہ کی ہیں جو روایتیں کسی درجہ قابل اعتبار ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے۔
اس موضوع سے متعلق ایک ضروری انتباہ
حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی تشریح کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری معلوم ہوا کہ ان کے بارے میں اہل سنت کے مسلک و تصور اور شیعی عقیدہ کا فرق و اختلاف بھی بیان کردیا جائے کیونکہ بعض شیعہ صاحبان ناواقفوں کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں گویا ظہور مہدی کے مسئلہ پر دونوں فرقوں کا اتفاق ہے حالاں کہ یہ سراسر فریب اور دھوکا ہے۔
اہلسنت کی کتب حدیث میں حضرت مہدی سے متعلق جوروایات ہے (جن میں سے چند ان صفحات میں بھی درج کی گئی ہیں) ان کی بنیاد پر اہل سنت کا تصور ان کے بارے میں یہ ہے کہ قیامت کے قریب ایک وقت آئے گا جب دنیا میں کفر و شیطنت اور ظلم و طغیان کا ایک غلبہ ہو جائے گا کہ اہل ایمان کے لئے اللہ کی وسیع زمین تنگ ہو جائے گی تو اس وقت اللہ تعالی امت مسلمہ ہی میں سے ایک مرد مجاہد کو کھڑا کرے گا (ان کی بعض علامات اور صفات و خصوصیات بھی احادیث میں بیان کی گئی ہیں) اللہ تعالی کی خاص مدد ان کے ساتھ ہوگی ان کی جدوجہد سے کفر و شیطنت اور ظلم و عدوان کا غلبہ دنیا سے ختم ہو جائے گا پورے عالم میں ایمان و اسلام اور عدل و انصاف کی فضا قائم ہوجائے گی اور اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی طریقہ پر آسمانی اور زمینی برکات کا ظہور ہوگا احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں دجال کا خروج ہو گا جو ہماری اس دنیا کا سب سے بڑا اور آخری فتنہ اور اہل ایمان کے لیے سخت ترین امتحان ہوگا اس وقت خیر اور شر کی طاقتوں میں آخری درجہ کی کشمکش ہو گی خیر اور ہدایت کے قائد و علمبردار حضرت مہدی ہوں گے اور شر اور کفر و طغیان کا علمبردار دجال ہوگا پھر اسی زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور انہی کے ذریعہ اللہ تعالی دجال اور اس کے فتنہ کو ختم کرائے گا (نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق احادیث انشاءاللہ آگے پیش کی جائینگی وہیں ان کی تشریح کے ساتھ حیات مسیح علیہ السلام اور نزول مسیح علیہ السلام کے مسئلہ پر بھی بقدر ضرورت انشاءاللہ کلام کیا جائے گا)
الغرض حضرت مہدی کے بارے میں اہل سنت کا مسلک اور تصور یہی ہے جو ان سطور میں عرض کیا گیا لیکن شیعی عقیدہ اس سے بالکل مختلف ہے اور دنیا کے عجائبات میں سے ہے اور تنہا یہی عقیدہ جو ان کے نزدیک جزو ایمان ہے ارباب دانش کو اثنا عشری مذہب کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہاں تو صرف اہل سنت کی واقفیت کے لئے اجمال و اختصار ہی کے ساتھ اس کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی کسی قدر تفصیل شیعہ مذہب کی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ اس عاجز کی کتاب “ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت” میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مہدی کے بارے میں شیعی عقیدہ
شیعوں کا عقیدہ ہے جو ان کے نزدیک جزو ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے بعد سے قیامت تک کے لیے اللہ تعالی نے بارہ امام نامزد کر دئیے ہیں ان سب کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام نبیوں و رسولوں سے برتر و بالا ہے۔ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہیں اور ان کی اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کی طرح فرض ہے ان سب کو وہ تمام صفات و کمالات حاصل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے عطا فرمائے تھے بس یہ فرق ہے کہ ان کو نبی یا رسول نہیں کہا جائے گا بلکہ امام کہا جائے گا اور امامت کا درجہ نبوت و رسالت سے بالاتر ہے ان کی امامت پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانا شرط نجات ہے ان بارہ میں سب سے پہلے امام امیرالمومنین حضرت علیؓ، ان کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے حضرت حسنؓ، ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حضرت حسینؓ، ان کے بعد ان کے بیٹے علی بن الحسین (امام زین العابدین) ان کے بعد اسی طرح ہر امام کا ایک بیٹا امام ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ گیارہویں امام حسن عسکری تھے جن کی وفات 260ھ میں ہوئی شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے کہ ان کی وفات سے چار پانچ سال پہلے (بااختلاف روایت 255ھ یا 256ھ میں) ان کی فرنگی کنیز (نرگس) کے بطن سے ایک بیٹے پیدا ہوئے تھے جن کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھا جاتا تھا کوئی ان کو دیکھ نہیں پاتا تھا اس وجہ سے لوگوں کو (خاندان والوں کو بھی ان کی پیدائش اور ان کے وجود کا علم نہیں تھا) یہ صاحبزادے اپنے والد حسن عسکری کی وفات سے صرف دس دن پہلے (یعنی چار، پانچ سال کی عمر میں) امامت سے متعلق وہ سارے سامان ساتھ لے کر (جو امیر المومنین حضرت علیؓ سے لےکر گیارہویں امام ان کے والد حسن عسکری تک ہر امام کے پاس رہے تھے) معجزانہ طور پر غائب اور اپنے شہر سرمن رای کے ایک غار میں روپوش ہوگئے۔ اس وقت سے وہ اسی غار میں روپوش ہیں انکی غیبوبت اور روپوشی پر اب ساڑھے گیارہ سو برس سے بھی زیادہ زمانہ گزر چکا ہے شیعہ صاحبان کا عقیدہ اور ایمان ہے کہ وہی بارہویں اور آخری امام مہدی ہیں وہی کسی وقت غار سےبرآمد ہونگے اور دوسرے بے شمار معجزانہ اور محیرالعقول کارناموں کے علاوہ مردوں کو بھی زندہ کریں گے اور (معاذاللہ) (حضرت) ابوبکرؓ (حضرت) عمرؓ اور (حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہم) کو (جو شیعوں کے نزدیک ساری دنیا کے کافروں، مجرموں، فرعون و نمرود وغیرہ سے بھی بدتر درجہ کے کفار و مجرمین ہیں) ان کی قبروں سے نکال کر اور زندہ کرکے ان کو سزا دیں گے سولی پر چڑھائیں گے اور ہزاروں بار زندہ کر کر کے سولی پر چڑھائیں گے اور اسی طرح ان کے ساتھ دینے والے تمام صحابہ کرامؓ اور ان سے محبت و عقیدت رکھنے والے تمام سنیوں کو بھی زندہ کرکے سزا دی جائے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیرالمومنین حضرت علیؓ اور تمام ائمہ معصومین اور خاص شیعہ محبین بھی زندہ ہوں گے اور (معاذاللہ) اپنے ان دشمنوں کی سزا اور تعذیب کا تماشہ دیکھیں گے گویا شیعوں کے نزدیک یہ جناب امام مہدی قیامت سے پہلے ایک قیامت برپا کریں گے شیعہ حضرات کی خاص مذہبی اصطلاح میں اس کا نام رجعت ہے اور اس پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ رجعت کے سلسلہ کی شیعی روایات میں یہ بھی ہے کہ جب یہ رجعت ہوگی تو ان جناب مہدی کے ہاتھ پر سب سے پہلے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کریں گے اس کے بعد دوسرے نمبر پر امیرالمومنین حضرت علیؓ بیعت کریں گے اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے حضرات بیعت کریں گے۔
یہ ہیں شیعہ حضرات کے امام مہدی جن کو وہ القائم، الحجة اور المنتظر کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور غار سے انکے برآمد ہونے کے منتظر ہیں اور جب ان کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں اور لکھتے ہیں عجل الله فرجه (اللہ جلدی ان کو باہر لے آئے)
اہل سنت کے نزدیک اول سے آخر تک یہ صرف خرافاتی داستان ہے جو اس وجہ سے گھڑی گئی ہے کہ فی الحقیقت شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری 260ھ میں لاولد فوت ہوئے تھے ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس سے اثنا عشریہ کا یہ عقیدہ باطل ہوتا ہے کہ امام کا بیٹا ہی امام ہوتا ہے اور بارہواں امام آخری امام ہوگا اور اس کے بعد دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ الغرض صرف اس غلط عقیدہ کی مجبوری کی وجہ سے یہ بےتکی داستان گھڑی گئی جو غور و فکر کی صلاحیت رکھنے والے شیعہ حضرات کے لیے آزمائش کا سامان بنی ہوئی ہے۔
افسوس ہے کہ اختصار کے ارادہ کے باوجود مہدی سے متعلق شیعہ عقیدہ کے بیان نے اتنی طوالت ہو گئی لیکن مہدی سے متعلق اہل سنت کے تصور و مسلک اور شیعی عقیدہ کا فرق و اختلاف کو واضح کرنے کے لیے یہ سب لکھنا ضروری سمجھا گیا۔
حضرت مہدی سے متعلق احادیث کی تشریح کے سلسلہ میں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے تحقیق اور ناقد وبصیر عالم و مصنف ابن خلدون مغربی نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف مقدمہ میں مہدی سے متعلق قریب قریب ان سب ہی روایات کی سندوں پر مفصل کلام کیا ہے جو اہل سنت کی کتب حدیث میں روایت کی گئی ہیں اور قریبا سب ہی کو مجروح اور ضعیف قرار دیا ہے، (1) اگرچہ بعد میں آنے والے محدثین نے ان کی جرح و تنقید سے پورا اتفاق نہیں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ابن خلدون کی اس جرح و تنقید نے مسئلہ کو قابل بحث وتحقیق بنا دیا ہے۔ والمسئول من الله تعالى هداية الحق والصواب