ماہِ ربیع الاوّل میں رائج بدعات ورسومات میں سے ایک غیر شرعی عمل یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ ماہِ ربیع الاول خصوصًا 12 تاریخ کو سبیلیں لگا کر دودھ یا شربت پلاتے ہیں، حلوہ، چاول یا دیگر کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں، اس کو بہت بڑے اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں اور اس کے خود ساختہ فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب کچھ شریعت کے مزاج سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ ہم بدعات کو بھی نیکی سمجھنے لگتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نیک کام کررہے ہیں یا گناہ کما رہے ہیں!!
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تر چیزیں بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ اگر ماہِ ربیع الاوّل خصوصًا 12 تاریخ کو یہ کھانے پینے کی چیزیں اس لیے تقسیم کی جاتی ہیں کہ یہ عید کا موقع ہے اور عید کے موقع پر خوشی ہونی چاہیے، تو واضح رہے کہ جب عید میلاد کا تصور ہی شریعت کے خلاف ہے تو اسی کی بنیاد پر انجام دیے جانے والے تمام اعمال غیر شرعی ہوں گے، اس لیے اس کی ممانعت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن وسنت اور خیر القرون جیسے مبارک زمانوں سے یہ چیزیں ثابت نہیں جو آج عشق نبوی اور دین کے نام پر اپنائی جاتی ہیں۔
2⃣ اگر ماہِ ربیع الاوّل خصوصًا 12 تاریخ کو یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود صدقہ دینا ہے تو واضح رہے کہ صدقہ تو سال بھر میں کسی بھی دن دیا جاسکتا ہے، اور صدقہ میں کوئی بھی جائز چیز دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے مہینہ یا دن خاص کرنا یا صدقہ میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف اور بدعت ہے۔ یہ شریعت کا ایک اہم اصول ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
3⃣ اگر ماہِ ربیع الاوّل خصوصًا 12 تاریخ کو یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود حضور اقدس ﷺ کے لیے ایصالِ ثواب ہے تو واضح رہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی دن یا مہینہ خاص ہے، اور نہ ہی کوئی کھانے پینے کی چیز تقسیم کرنا ضروری ہے، بلکہ ایصالِ ثواب تو کسی بھی نیک عمل کا کیا جاسکتا ہے، اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے بھی مہینہ یا دن خاص کرنا یا ایصال ثواب میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف ہے۔
🌼 ماہِ ربیع الاوّل کی بدعات پر مشتمل کھانے پینے کا شرعی حکم:
ماہ ربیع الاوّل میں عمومًا بہت سے گھروں میں عید میلاد کی بدعات پر مشتمل کھانے پینے کی چیزیں آتی رہتی ہیں یا گلی کوچوں اور راستوں میں ان چیزوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اس لیے شرعی اعتبار سے ان چیزوں کے کھانے پینے کا تفصیلی حکم سمجھنا چاہیے:
1⃣ شریعت ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سنت وشریعت کی پیروی کرتے ہوئے بدعات سے خود بھی اجتناب کرے اور دوسروں کو بھی بدعات ترک کرنے کی ترغیب دے۔
2⃣ اسی طرح ہر وہ کام جس سے بدعات کی ترویج، اشاعت اور حوصلہ افزائی ہوتی ہو اس سے بھی مکمل اجتناب کرے، کیوں کہ یہ بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے بدعات پر مشتمل مجالس یا کاموں کے لیے چندہ دینا، کسی بھی قسم کا تعاون کرنا، ان کی تعریف کرنا، ان کے لیے دعوت یا مہم چلانا، ان میں شرکت کرنا یا اس طرح کا کوئی بھی کام کرنا جس سے بدعات کو تقویت ملے؛ یہ سب شریعت کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ شریعت کا مزاج بدعات کی حوصلہ شکنی کا ہے۔
3⃣ اس لیے ماہِ ربیع الاوّل کی بدعات پر مشتمل مجالس اور کھانے پینے کے مقامات میں شریک ہونا ناجائز ہے کیوں کہ اس سے بدعات کی شان وشوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو قوت اور رواج میسر آتا ہے۔
4⃣ البتہ اگر کوئی شخص ان بدعات پر مشتمل یہ کھانا پینا کسی کے ہاں بھیج دے تو ایسی صورت میں مسئلہ واضح رہے کہ اگر حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو محض بدعت ہونے کی وجہ سے وہ کھانا پینا اپنی ذات میں حرام نہیں ہوجاتا، البتہ کوشش یہی کی جائے کہ اسے وصول ہی نہ کیا جائے اور ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے، یا اگر وصول ہی کرنا پڑے تب بھی ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں، وصول کرنے کی صورت میں اس کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہوئے کسی غریب کے ہاں بھیج دیا جائے تو بہتر ہے تاکہ بدعات کی نفرت دل میں برقرار رہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، اور جب لینے والے نہ رہیں گے تو دینے والے خود بخود یہ بدعات ترک کردیں گے، البتہ اگر خود ہی کھالیا جائے تو حرام نہیں بشرطیکہ حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو، البتہ اجتناب کرنے ہی میں احتیاط ہے، خصوصًا وہ شخص تو خصوصی اجتناب کرے جو کہ مقتدیٰ ہو اور لوگ ان کی پیروی کرتے ہوں تاکہ بدعات کا خاتمہ ہوسکے۔ البتہ اگر کسی نے حرام مال سے یہ کھانا پینا تیار کیا ہے یا غیر اللہ کی نذر ونیاز کی نیت سےکوئی جانور ذبح کرکے تیار کیا ہے تو اس کا حرام ہونا واضح ہے، اور جہاں ماحول اور افراد کی اعتقادی حالت کی وجہ سے پہچان نہ ہوتی ہو اور اس پہلو کا امکان ہو تو وہاں بھی وصول نہ کرنے ہی میں احتیاط ہے۔
5⃣ جو شخص صحیح العقیدہ مسلمان ہے اور اس کے ہاں سے عام ایام میں بھی کھانے پینے کی چیزیں گھر آتی رہتی ہیں اور وہ ماہِ ربیع الاوّل خصوصًا 12 تاریخ کو بھی ایسی کوئی چیز بھیجے اور یہ کہے کہ میں نے کسی بھی غلط نظریے سے نہیں بھیجی ہے تو اس کا کھانا بالکل درست ہے البتہ بھیجنے والا کوشش یہ کرے کہ بدعات کے خاتمے کے لیے خصوصًا 12 تاریخ کو یہ اہتمام نہ کرے تو اچھا ہے۔
(تفصیل ملاحظہ فرمائیں: ماہِ محرم الحرام کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب، فتاویٰ عثمانی ودیگر کتب)
✍۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
5 ربیع الاول1441ھ/ 3 نومبر