🌻 حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ وِلادت کو روزہ رکھنے کی تحقیق


 🌻 حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ وِلادت کو روزہ رکھنے کی تحقیق


🌼 حضور اَقدس ﷺ کی تاریخِ وِلادت کو روزہ رکھنے سے متعلق غلط فہمی:
بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ چوں کہ حضور اقدس ﷺ نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھا ہے اس لیے تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنا مستحب یا مسنون ہے، اسی پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی 12 ربیع الاوّل کو روزہ رکھنا چاہیے، اور بعض لوگ اسی تناظُر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ سے اپنی پیدائش کی تاریخ میں صرف ایک ہی عمل ثابت ہے اور  وہ یہی روز ہ ہے، اس لیے 12 ربیع الاوّل کو عید میلاد نہیں منانا چاہیے بلکہ روزہ رکھنا چاہیے، گویا کہ عید میلادُ النبی ﷺ جیسے بدعت عمل کی تردید میں بھی یہ بات کی جاتی ہے۔ اس طرح کی متعدد باتیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش اور یومِ پیدائش میں فرق نہیں کرپاتے، جس کی وجہ شاید آجکل ’’تاریخ‘‘ کی جگہ ’’یوم‘‘ کا بکثرت استعمال ہے۔
زیرِ نظر تحریر سے اسی غلط فہمی کا اِزالہ مقصود ہے۔

🌼 حضور اقدس ﷺ کی یومِ پیدائش کو روزہ رکھنے کی حقیقت:
حضور سرور کائنات ﷺ کی مبارک وِلادت پیر کے روز  ہوئی، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے:
1⃣ صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: پیر کے روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھے نبوت عطا کی گئی (یا: اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی)۔
وَسُئِلَ ﷺ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ، قَالَ ﷺ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَىَّ فِيهِ».
(صحیح مسلم کتاب الصيام حدیث: 2804)
2⃣ اسی طرح بعض روایات میں پیر کے دن روزہ رکھنے کی ایک اور وجہ بھی بیان فرمائی گئی ہے، چنانچہ سنن ابی داود میں ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے، تو اُن سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بندوں کے اَعمال جمعرات اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔‘‘
2438: عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِى الْقُرَى فِى طَلَبِ مَالٍ لَهُ فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ: لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ؟ فَقَالَ: إِنَّ نَبِىَّ اللهِ ﷺ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: «إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الاِثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ». 
(باب فِى صَوْمِ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)
3⃣ سنن الترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پیر اور جمعرات کے دن اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔‘‘
747: عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ». 
(بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالخَمِيسِ)

💐 خلاصہ:
ان تین روایات سے یہ معلوم ہوا کہ:
⬅️ حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی۔
⬅️ حضور اقدس ﷺ پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور یہی ان کا مبارک معمول تھا۔
⬅️ حضور اقدس ﷺ نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی دو وجوہات بیان فرمائی: ایک تو یہ کہ پیر کے دن میری پیدائش ہوئی، دوم یہ کہ پیر کے دن اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔

🌼 تاریخِ پیدائش اور یومِ پیدائش کا فرق:
بہت سے لوگ حضور اقدس ﷺکی تاریخِ پیدائش اور یومِ پیدائش میں فرق نہیں کرپاتے جس کے نتیجے میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ واضح رہے کہ تاریخِ پیدائش اور یومِ پیدائش میں واضح فرق ہے کہ تاریخِ پیدائش کے معنی یہ ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ماہِ ربیع الاوّل کی فلاں تاریخ کو دنیا میں جلوہ افروز ہوئے، جبکہ یومِ پیدائش کے معنی یہ ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ہفتے کے فلاں دن میں دنیا میں تشریف لائیں۔ گویا کہ پیدائش کی تاریخ اور پیدائش کے دن میں فرق ہے۔

🌼 تاریخِ پیدائش میں اختلاف جبکہ یومِ پیدائش میں اتفاق ہے:
حضور اقدس ﷺ کے یومِ پیدائش کے بارے میں امت کے اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی پیدائش پیر کے دن ہوئی، جبکہ تاریخِ پیدائش میں امت کے اہلِ علم کا شدید اختلاف ہے، جس کی مدلّل تفصیل اس ’’سلسلہ اِصلاحِ اَغلاط‘‘ کی پچھلی قسط یعنی سلسلہ نمبر 45 میں بیان ہوچکی۔ 
▪️امام نووی رحمہ اللہ ’’تہذیبُ الاَسماء واللُّغات‘‘ میں فرماتے ہیں:
واتفقوا على أنه ولد يوم الاثنين من شهر ربيع الأول، واختلفوا هل هو فى اليوم الثانى أم الثامن أم العاشر أم الثانى عشر، فهذه أربعة أقوال مشهورة. 
(الترجمة النبوية الشريفة)

🌼 حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنے کا کوئی ثبوت نہیں:
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش میں روزہ رکھنے کو سنت یا مستحب قرار دینا ہرگز درست نہیں، بلکہ یہ ایک خود ساختہ بات ہے کیوں کہ:
1⃣ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں اور نہ ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے، بلکہ احادیث سے یومِ پیدائش کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے جو کہ پیر کا دن ہے۔
2⃣ ماقبل میں جو روایات ذکر ہوئیں ان میں تاریخِ پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ یومِ پیدائش کا ذکر ہے جو کہ پیر کا دن ہے، اور حضور اقدس ﷺ تاریخِ پیدائش میں روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ یومِ پیدائش کو روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرات صحابہ کرام نے یومِ پیدائش یعنی پیر کے دن روزہ رکھنے سے متعلق ہی سوال کیا تھا۔ اس لیے اس سے یومِ پیدائش یعنی پیر کے دن روزہ رکھنا مستحب اور مسنون قرار پاتا ہے۔
3⃣ پیر کا روزہ سال بھر ہر ہفتے نصیب ہوتا ہے اور یہی حضور اقدس ﷺ کا معمول تھا، جبکہ تاریخِ پیدائش سال میں ایک ہی بار نصیب ہوتی ہے ،جس کے نتیجے میں یہ روزہ سال بھر میں ایک ہی بار نصیب ہوگا جو کہ بذاتِ خود احادیث کے خلاف ہے۔
4⃣ ماقبل میں بیان کی گئی ایک حدیث میں پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ ’’پیر اور جمعرات کے دن اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ اعمال کی پیشی پیر کے روز  ہوتی ہے جو کہ یومِ پیدائش بھی ہے، نہ کہ تاریخِ پیدائش کو۔ اس لیے تاریخِ پیدائش کے روزے کو کیسے سنت یا مستحب قرار دیا جاسکتا ہے؟؟
5⃣ امت کے حضرات اکابر اور بزرگانِ دین سے یہ ثابت ہی نہیں کہ وہ تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھا کرتے تھے، البتہ پیر کے دن روزہ رکھنے کا معمول واضح طور پر ثابت  ہے۔
6⃣ فقہ کی کتب میں تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنے کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، البتہ پیر کے دن روزہ رکھنے کا ذکر ضرور ملتا ہے۔
ان تمام وجوہات سے ان حضرات کی غلطی بخوبی واضح ہوجاتی ہے جو کہ تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنے کو مستحب یا سنت قرار دیتے ہیں۔

⭕ تنبیہ: 
1⃣ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش  چاہے 12 ربیع الاوّل ہو یا کوئی اور؛ سب کا یہی حکم ہے جو ماقبل میں بیان ہوا کہ تاریخِ پیدائش کو روزہ رکھنے کو سنت یا مستحب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
2⃣ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش کو روزہ ثابت نہ ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس دن عید میلاد النبی ﷺ منایا جائے کیوں کہ اس کا بدعت ہونا دیگر دلائل سے ثابت ہے۔

💐 خلاصہ:
ماقبل کی تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ربیع الاوّل کی 12 یا کسی اور تاریخ کو حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ پیدائش قرار دے کر روزہ رکھنا مستحب یا مسنون نہیں، بلکہ اس حیثیت سے اس کو مستحب یا مسنون قرار دینا بھی ہرگز درست نہیں، بلکہ یہ دین میں زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جشنِ میلاد کی تردید میں اس تاریخ کو روزے کی ترغیب نہیں دی جاسکتی، بلکہ شرعی احکام کے اعتبار سے یہ تاریخِ پیدائش بھی ربیع الاوّل کی دیگر  تاریخوں کی طرح ایک عام  تاریخ ہے جس میں کوئی مخصوص اضافی عمل شریعت سے ثابت نہیں، البتہ پیر کے دن روزہ رکھنا مسنون اور مستحب ہے جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔

✍۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی