سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پراسیسڈ گوشت یعنی مصنوعی طور پر زیادہ دنوں کے لیے کھانے لائق بنایا جانے والے گوشت سے دمے کے مرض کی علامات میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ تحقیق تھوریکس نامی جریدے میں شائع ہوئي ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں چار پورشن کھانے سے خطرہ ہے۔ انھوں نے اس کا تجربہ فرانس کے تقریباً ایک ہزار افراد پر کیا ہے۔
تحقیق کاروں کا خیال ہے گوشت کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے مادے نائٹرائٹ سانس میں تکلیف میں اضافہ کا سبب ہو سکتا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مادے اور سانس کی تکلیف کا تعلق ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اس لیے اس بارے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ ایک طرح کی غذا کے بجائے لوگوں کو انواع و اقسام کی غذا کا استعمال کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پراسیسڈ گوشت کو کینسر کے مرض کا باعث قرار دیا چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کسی شخص کو ایک دن میں 70 گرام سے زیادہ ریڈ میٹ (بڑے جانور کا گوشت) اور پراسیسڈ گوشت نہیں کھانا چاہیے لیکن اس حد تک صحت کے سود مند ہے۔
یہ تحقیق فرانس کے لوگوں پر سنہ 2003 سے سنہ 2013 کے درمیاں دس سال تک جاری رہی ہے اور اس میں تقریباً ایک ہزار افراد نے شرکت کی ہے جن میں سے نصف دمے کے مریض تھے جبکہ باقیوں کو اس قسم کی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی تھی۔
جانچ دمے سے متعلق علامات سانس لینے میں تکلیف، سینے میں سختی، سانس کی کمی، گلے میں خرخراہٹ وغیرہ پر توجہ مرکوز کی گئی اور انھیں ایک مقدار میں پراسیسڈ گوشت دیے گئے۔
دمے کے مریضوں میں اس سے پھیپھڑے کی تکلیف میں اضافہ دیکھا گيا۔ جن لوگوں نے زیادہ گوشت کھائے انھیں زیادہ مسائل کا سامنا رہا۔
بہر حال ماہرین کا خیال ہے کہ دمے کے معاملے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور صرف کھانے کو اس کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
زمرے
صحت و تندرستی