ஜ۩۞۩ஜ د҉ر҉س҉ِ҉ ҉ح҉د҉ی҉ث҉ ஜ۩۞۩ஜ
عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ. (رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہوگا اس وقت جب نازل ہونگے تم میں عیسی بن مریم اور امام تمہارے ہونگے تم میں سے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح:بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت حالات بہت غیر معمولی ہوگی جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث اور اس موضوع سے متعلق دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے حدیث کے آخری جز “وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ” کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اس وقت عیسی بن مریم کی حیثیت یہ ہوگی کہ (اگلے زمانے کے ایک نبی و رسول ہونے کے باوجود) تم میں کے یعنی تم مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کی حیثیت سے تمھارے امام اور امیر ہونگے اسی حدیث کی صحیح مسلم کی ایک روایت میں “وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ” کی جگہ “فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ” ہے اور اس کے ایک راوی ابن ابی ذئب نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے “فَأَمَّكُمْ بِكِتَابِ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ وَسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” یعنی عیسی بن مریم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کے امام و حاکم ہونگے اور وہ امامت و حکومت قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق کریں گے اس تشریح کے مطابق اس حدیث میں عیسی علیہ السلام کی امامت سے مراد صرف نماز کی امامت نہیں بلکہ امامت عامہ مراد ہے۔ یعنی امت کی دینی و دنیوی قیادت و سربراہی اور حاکمانہ حیثیت۔ گویا اس وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب و خلیفہ ہوں گے۔