ஜ۩۞۩ஜ د҉ر҉س҉ِ҉ ҉ح҉د҉ی҉ث҉ ஜ۩۞۩ஜ
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا. ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا}. (رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یقینا قریب ہے کہ نازل ہونگے تم میں (یعنی مسلمانوں میں) عیسی بن مریم عادل حاکم کی حیثیت سے، پھر توڑ دیں گے وہ صلیب کو، اور قتل کر آئیں گے خنزیروں کو اور ختم کردیں گے جزیہ، اور کثرت و بہتات ہو گی مال کی یہاں تک کہ کوئی قبول نہیں کرے گا اس کو تا آنکہ ہوگا اس وقت ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر پھر کہتے تھے ابوہریرہؓ کہ اگر (قرآن سے اس کا ثبوت چاہو تو) پڑھو (سورہ نساء کی آیت) “وَاِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ ..... الاية” (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) “اور سب ہی اہل کتاب عیسی السلام کی موت سے پہلے ان پر ضرور بالضرور ایمان لے آئینگے اور قیامت کے دن وہ ان کے بارے میں شہادت دیں گے”۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح:قیامت کی علامات کبری جو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق دنیا کے خاتمہ کے قریب قیامت قائم ہونے سے پہلے ظاہر ہوگی ان میں ایک بہت غیر معمولی واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہے ان صفحات میں تو حسب معمول اس موضوع سے متعلق بھی چند ہی حدیثیں پیش کی جائینگی لیکن واقعہ یہ ہے کہ حدیث کی قریبا تمام ہی کتابوں میں مختلف سندوں سے اتنے صحابہ کرامؓ سے نزول مسیح علیہ السلام کی حدیثیں روایت کی گئی ہیں جن کے متعلق (ان کی صحابیت سے قطع نظر کرکے بھی ازروئے عقل و عادت) یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے باہم سازش کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بہتان باندھا ہے کہ آپ نے قیامت سے پہلے آسمان سے حضرت مسیح کے نازل ہونے کی خبر دی تھی اور اسی طرح یہ شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان سب صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہو گی۔ بہرحال حدیث کے ذخیرہ میں اس مسئلہ سے متعلق جوروایات ہیں ان کو سامنے رکھنے کے بعد ہر سلیم العقل کو اس بات کا قطعی اور یقینی علم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی اطلاع امت کو دی تھی اس کے لیے استاذنا حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے رسالہ “التصریح بما تواتر فی نزول المسیح” کا مطالعہ کافی ہے اس میں صرف اسی مسئلہ سے متعلق حدیث کی کتابوں سے منتخب کرکے ستر (70) سے اوپر حدیثیں جمع کردی گئی ہیں۔
پھر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ قرآن مجید سے بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھایا گیا جانا اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنا ثابت ہے اس بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے حضرت استاذ قدس سرہٗ کے رسالہ “عقیدۃ الاسلام فی حیوة عیسی علیہ السلام” کا مطالعہ کافی ہوگا۔ (ملحوظ رہے کہ حضرت استاذ قدس سرہ کے یہ دونوں رسالے عربی زبان میں ہیں)
اس عاجز راقم سطور کا ایک رسالہ ہے “قادیانی کیوں مسلمان نہیں اور مسئلہ نزول مسیح و حیات مسیح” اس میں قریبا 70 صفحات اسی مسئلہ سے متعلق لکھے گئے ہیں اردو خواں حضرات کو اس کے مطالعہ سے بھی انشااللہ یہ اطمینان و یقین حاصل ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید نے اپنے معجزانہ انداز میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ قیامت کے قریب حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دی ہے۔
لیکن چونکہ اس مسئلہ کے بارے میں بہت سے لوگوں کو عقلی شبہات اور وساوس ہوتے ہیں اور قادیانی مصنفین و اہل قلم نے (مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے مسیحیت کی گنجائش پیدا کرنے کے واسطے) اس موضوع پر چھوٹے بڑے بے گنتی رسائل اور مضامین لکھ کر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے اس لئے مناسب سمجھا گیا ہے کہ اس سلسلہ کی احادیث کی تشریح سے پہلے تمہید کے طور پر کچھ اصولی باتیں عرض کردی جائیں امید ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد انشاءاللہ صاحب ایمان اور سلیم الفہم ناظرین کرام کو اس مسئلہ کے بارے میں وہ اطمینان میں یقین حاصل ہوجائے گا جس کے بعد کسی شبہ اور وسوسہ کی گنجائش نہیں رہے گی۔ واللہ ولی التوفیق۔
مسئلہ نزول مسیح سے متعلق چند اصولی باتیں
(1) ..... سب سے پہلی اور اہم بات جس کا اس مسئلہ پر غور و فکر کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ اس کا تعلق اس ذات سے ہے جس کا وجود ہی عام سنت اللہ اور اس دنیا میں جاری قانون فطرت کے بالکل خلاف ہے یعنی حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام اس طرح پیدا نہیں ہوئے جس طرح ہماری اس دنیا میں انسان مرد اور عورت کے ملاپ اور مباشرت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں (اور جس طرح تمام اولوم العزم پیغمبر اور انکے خاتم وسردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیدا ہوئے تھے) بلکہ وہ اللہ تعالی کی خاص قدرت اور اس کے حکم سے اس کے فرشتہ جبریل امین (روح القدس) کے توسط سے اپنی ماں حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے بغیر اس کے کہ ان کو کسی مرد نے چھوا بھی ہو معجزانہ طور پر پیدا کیے گئے اسی لیے قرآن مجید میں ان کو “اللہ کا کلمہ” بھی کہا گیا ہے قرآن مجید نے سورہ آل عمران کی آیت 45، 51 میں اور سورہ مریم کی آیت 19تا 23 میں ان کی معجزانہ پیدایش کا حال تفصیل سے بیان فرمایا ہے (اور انجیل کا بیان بھی یہی ہے اور اسی کے مطابق ساری دنیا کے مسلمانوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے)
ایسی ہی ایک دوسری عجیب بات قرآن مجید نے اس بارے میں یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی قدرت اور اس کے حکم و کلمہ سے معجزانہ طور پر مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا ہوئے (جو کنواری تھیں اور ان کا کسی مرد سے نکاح نہیں ہوا تھا) اور وہ ان کو اپنی گود میں لئے بستی میں آئیں اور برادری اور بستی کے لوگوں نے ان کے بارے میں اپنے گندے خیالات کا اظہار کیا اور معاذ اللہ اس نومولود بچے کو ولد الزنا سمجھا تو اسی نومولود بچہ (عیسی بن مریم) نے اللہ کے حکم سے اسی وقت کلام کیا اور اپنے بارے میں اور حضرت مریم علیہا السلام کی باکبازی کے بارے میں بیان دیا۔ (سورہ مریم آیات 27 تا 30)
پھر قرآن مجید ہی میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں پر انتہائی محیرالعقول معجزے ظاہر ہوئے کہ وہ مٹی کے گوندے سے پرندہ کی شکل بناتے تھے پھر اس پر پھونک مار دیتے تو وہ زندہ پرندہ کی طرح فضا میں اڑجاتا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں پر ہاتھ پھیر دیتے یا دم کر دیتے تو وہ فورا اچھے بھلے ہو جاتے اندھوں کی آنکھیں روشن ہو جاتی اور کوڑھیوں کے جسم پر کوئی اثر اور داغ دھبّہ بھی نہیں رہتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرکے دکھا دیتے ان کے ان محیرالعقول معجزوں کا بیان بھی قرآن مجید (سورہ آل عمران اور سورہ مائدہ) میں تفصیل اور وضاحت سے فرمایا گیا ہے اور انجیل میں بھی ان معجزات کا ذکر کچھ اضافہ ہی کے ساتھ کیا گیا اور عیسائی دنیا کا عقیدہ بھی اسی کے مطابق ہے۔
پھر قرآن مجید ہی میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی نے ان کو نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کیا اور آپ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو ایمان اور ایمانی زندگی کی دعوت دی تو آپ کی قوم کے لوگوں نے ان کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دے کر سولی کے ذریعہ سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا (1) اور اپنے خیال میں انہوں نے اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردیا اور سمجھ لیا کہ ہم نے عیسیٰ کو سولی پر چڑھا کے موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہوا۔ (انہوں نے جس شخص کو عیسی سمجھ کر سولی پر چڑھایا وہ دوسرا شخص تھا) عیسیٰ علیہ السلام کو تو وہ یہودی پا ہی نہ سکے اللہ تعالی نے اپنی خاص قدرت سے ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور وہ قیامت سے پہلے اللہ کے حکم سے پھر اس دنیا میں آئیں گے اور یہیں وفات پائیں گے اور ان کی وفات سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے دین محمدی کی خدمت لے گا اور ان کا نزول ہونا قیامت کی ایک خاص علامت اور نشانی ہو گا۔ (یہ سب سورہ نساء اور سورہ زخرف میں بیان فرمایا گیا ہے۔
پس جو اہل ایمان قرآن پاک کے بیان کے مطابق معجزانہ پیدایش اور ان کے مذکورہ بالا محیرالعقول معجزات پر ایمان لا چکے ہیں ان کو باحکم خداوندی آسمان پر ان کے اٹھا لئے جانے اور اسی کے حکم سے مقرر کیے ہوئے وقت پر آسمان پر نازل ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
الغرض سب سے پہلی اور اہم بات جس کا اس مسئلہ نزول مسیح پر غور و فکر کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نرالی شخصیت اور ان کی مذکورہ بالا خصوصیات ہیں جو قرآن کے حوالہ سے سطور بالا میں ذکر کی گئی اور جن میں وہ انسانی دنیا میں منفرد ہیں۔
(2) ...... اسی طرح کی ایک دوسری یہ بات بھی اس مسئلہ پر غور کرتے وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عیسی علیہ السلام کا نزول جس کی اطلاع قرآن مجید میں بالاجمال اور رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں تفصیل اور وضاحت دی گئی ہے اس وقت ہوگا جب کہ قیامت بالکل قریب ہوگی اور اس کی قریب ترین علامات کبری کا ظہور شروع ہو چکا ہوگا۔ مثلا آفتاب کا بجائے مشرق کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور دابۃ الارض کا خارق عادت طریقہ پر زمین سے پیدا ہونا اور وہ کرنا جس کا ذکر احادیث میں ہے گویا اس وقت کی قیامت کی صبح صادق ہوچکی ہوگی اور نظام عالم میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہوگا اور لگاتار وہ خوارق و حوادث رونما ہوں گے جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا (انہی میں سے دجال کا خروج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہوگا)
پس عیسی علیہ السلام کے نزول یا دجال کے خروج و ظہور کا اس بنا پر انکار کرنا کہ ان کی جو نوعیت اور تفصیل حدیثوں میں بیان کی گئی ہے وہ ہماری عقل میں نہیں آتی بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ قیامت اور جنت دوزخ کا اس وجہ سے انکار کردیا جائے کہ ان کی جو تفصیلات خود قرآن مجید میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کو ہماری عقلیں ہضم نہیں کر سکتی جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ان کی اصل بیماری یہ ہے کہ وہ خداوند قدوس کی معرفت سے محروم اور اس کی قدرت کی وسعت سے ناآشنا ہیں۔
(3) ..... مسئلہ حیات مسیح و نزول مسیح علیہ السلام پر غور کرتے وقت ایک دوسری بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کے بیان اور ہم مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام ہماری اس دنیا میں نہیں ہیں جہاں کا عام فطری نظام یہ ہے کہ آدمی کھانے پینے کی جیسی ضروریات اور تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہوتا بلکہ وہ عالم سماوات میں ہیں جہاں اس طرح کی کوئی ضرورت اور کوئی تقاضا نہیں ہوتا جیسا کہ فرشتوں کا حال ہے حضرت مسیح علیہ السلام اگرچہ ماں کی طرف سے انسانی نسل ہیں لیکن ان کی پیدائش اللہ تعالی کے “کلمہ” سے اسکے فرشتے روح القدس کے توسط سے ہوئی اس لیے وہ جب تک ہمارے انسانی دنیا میں رہے انسانی ضروریات اور تقاضے بھی ان کے ساتھ رہے لیکن جب وہ انسانی دنیا سے عالم سماوات اور عالم ملکوت کی طرف اٹھا لیے گئے تو وہ ان ضروریات اور تقاضوں سے فرشتوں ہی کی طرح بے نیاز ہو گئے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی ایک کتاب ہے “الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح” (جو دراصل عیسائیوں کے رد میں لکھی گئی ہے) اس میں ایک جگہ گویا اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جب آسمان پر ہیں تو ان کے کھانے پینے جیسی ضروریات کا کیا انتظام ہے؟ شیخ الاسلام نے تحریر فرمایا ہے :
فليست حاله كحالة اهل الارض فى الاكل والشرب واللباس والنوم والغائط والبول ونحو ذالك. (1)
ترجمہ : (وہاں آسمان پر) کھانے پینے اور لباس اور سونے کی جیسی ضروریات اور تقاضوں کے معاملہ میں ان کا حال زمین والوں کا سا نہیں ہے (وہاں وہ فرشتوں کی طرح ان چیزوں سے بے نیاز ہیں)
امید ہے کہ ان اصولی باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات و نزول کے بارے میں وہ شبہات اور وساوس انشاءاللہ پیدا نہیں ہوں گے جو عقلوں کی خامی ایمان کے ضعف اور اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت سے ناآشنائی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس تمہید کے بعد نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے۔
تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول اور ان کے چند اہم اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اور امت کو اس کی اطلاع دی ہے چونکہ یہ مسئلہ غیر معمولی تھا اور بہت سے کوتاہ عقل اور ضعیف الایمان لوگوں کو اس میں شک شبہ ہو سکتا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قسم کے ساتھ ذکر فرمایا سب سے پہلے فرمایا “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ” (اس خداوند پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے) اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا “لَيُوشِكَنَّ” یقینا قریب ہے) وہ بھی نزول مسیح علیہ السلام کے یقینی اور قطعی ہونے کی ایک تعبیر ہے جس طرح قرآن مجید میں قیامت کے بارے میں فرمایا گیا “اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ” (قیامت قریب ہی ہے) مطلب یہ ہے کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھنا چاہیے کہ بس آنے ہی والی ہے بہرحال قسم کے بعد “لَيُوشِكَنَّ” کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو اطلاع دی جارہی ہیں وہ قطعی اور یقینی ہے۔
قسم اور “لَيُوشِكَنَّ” کے ذریعہ مزید تاکید کے بعد اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس ارشاد میں دی اس کو واضح اور عام فہم الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یقینا یہ ہونے والا ہے کہ قیامت سے پہلے عیسی بن مریم اللہ کے حکم سے عادل حاکم کی حیثیت سے تم مسلمانوں میں (یعنی اس وقت ان کی حیثیت مسلمانوں ہی میں کے ایک عادل حاکم اور امیر کی ہوگی) اور وہ اپنی حاکمانہ حیثیت سے جو اقدامات کریں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صلیب جو بت پرستوں کے بتوں کی طرح عیسائیوں کا گویا بت بن گئی ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہ کن اور موجب کفر عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کو توڑ دیں گے توڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جو تعظیم اور ایک طرح کی پرستش عیسائیوں میں ہو رہی ہے اس کو ختم کردیں گے الغرض صلیب شکنی کا مطلب وہی سمجھنا چاہیے جو ہماری زبان میں بت شکنی کا سمجھا جاتا ہے اسی طرح کا ایک دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ خنزیروں کو قتل کر آئیں گے عیسائیوں کی ایک بڑی گمراہی اور دین عیسوی میں ایک بڑی تحریف یہ بھی ھے کہ خنزیر (جو تمام آسمانی شریعتوں میں حرام ہے) اس کو انہوں نے جائز کرلیا ہے بلکہ وہ ان کی مرغوب ترین غذا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام نہ صرف یہ کہ اس کی حرمت کا اعلان فرما ئیں گے بلکہ اس نسل ہی کو نیست و نابود کر دینے کا حکم دیں گے اس کے علاوہ ان کا ایک خاص اقدام یہ بھی ہو گا کہ وہ جزیہ کے خاتمہ کا اعلان فرما دیں گے (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ ارشاد فرمایا تو حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ فیصلہ اور اعلان اسی کی بنیاد پر ہوگا اپنی طرف سے اسلامی شریعت و قانون میں تبدیلی نہیں ہوگی) آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانہ میں مال و دولت کی ایسی کثرت اور بہتات ہوگی کہ کوئی کسی کو دینا چاہے گا تو وہ لینے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا دنیا کی طرف سے بے رغبتی اور اس کے مقابلہ میں آخرت کے اجر و ثواب کی طلب و رغبت اللہ کے بندوں میں اس درجہ پیدا ہوجائے گی کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سب کے مقابلہ میں اللہ تعالی کے حضور میں ایک سجدہ زیادہ عزیز اور قیمتی سمجھا جائے گا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ “فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: الخ” مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان قرآن میں پڑھنا چاہو تو سورہ نساء کی یہ آیت “{وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الاية (سورہ نساء ، آیت نمبر ۱۵۹) پڑھو۔