ஜ۩۞۩ஜ د҉ر҉س҉ِ҉ ҉ح҉د҉ی҉ث҉ ஜ۩۞۩ஜ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ- يَعْنِي عِيسَى عليه السلام - وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الإِسْلاَمِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلاَّ الإِسْلاَمَ وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ. (رواه ابوداؤد)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ اپنا خاص تعلق بیان فرماتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں (ان کے بعد اللہ تعالی نے مجھے ہی نبی و رسول بنا کر بھیجا ہے) اور یقینا وہ (میرے دور نبوت میں قیامت سے پہلے) نازل ہونے والے ہیں تم جب ان کو دیکھو تو پہچان لیجیو وہ میانہ قد ہونگے ان کا رنگ سرخی مائل سفید ہوگا وہ زرد رنگ کے دو کپڑوں میں ہونگے ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں اگرچہ سر کو تر نہ کیا گیا ہوگا وہ نازل ہونے کے بعد اسلام کے لیے جہاد و قتال کریں گے وہ صلیب کو پاش پاش کردیں گے اور خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے اور انکے زمانے میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سارے ملتوں اور مذہبوں کو ختم کردیں گے اور حضرت مسیح علیہ السلام دجال کا خاتمہ کردینگے، اس کو فنا کر دیں گے پس وہ اس زمین اور اس دنیا میں چالیس سال رہیں گے پھر یہی وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح:اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی السلام کے نزول کی اطلاع کے ساتھ ان کی بعض ظاہری علامتیں بھی بیان فرمائیں ایک یہ کہ نی تو وہ زیادہ دراز قد ہونگے نہ پستہ قد بلکہ میانہ قد ہونگے دوسری یہ کہ ان کا رنگ سرخ و سفید ہوگا تیسری یہ کہ ان کا لباس ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے ہونگے چوتھی یہ کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں حالاں کہ ان کے سر پر پانی نہ پڑا ہو گا وہ تو اسی وقت آسمان سے اترے ہونگے مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے صاف شفاف ہوں گے اور ان کے سر کے بالوں کی کیفیت ایسی ہوگی کہ ابھی غسل فرما کے تشریف لا رہے ہیں۔
یہ چند ظاہری علامتیں بتلانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاص اقدامات اور کارناموں کا ذکر فرمایا اس سلسلہ کی پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین حق اسلام کی دعوت دیں گے (جس کی دعوت اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے سب پیغمبروں نے دی ہے) اور ان کا آسمان سے نازل ہو کر دین اسلام کی دعوت دینا اس کے دین حق ہونے کی ایسی روشن دلیل ہوگی جس کے بعد اس کو قبول کرنے سے صرف وہی بدبخت اور سیاہ باطن لوگ انکار کریں گے جن کے دلوں میں حق سے عناد ہوگا اور اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ ہوگی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو بھی دین حق اور اسلام کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے لیے بالآخر طاقت استعمال فرمائیں گے اور جہاد و قتال کریں گے اس کے علاوہ دو اقدام ان کے خاص طور سے ان کے نام لیوا عیسائیوں سے متعلق ہونگے ایک یہ کہ وہ صلیب کو پاش پاش کر دیں گے جس کو عیسائیوں نے اپنا شعار اور گویا معبود بنا لیا ہے اور جس پر ان کے انتہائی گمراہانہ عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہے اس کے ذریعہ اس حقیقت کا بھی اظہار ہوگا کہ وہ صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اس بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں فرقوں کا عقیدہ غلط باطل ہے حق وہ ہے جس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا ہے اور جو امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اپنے نام لیوا عیسائیوں سے ہی متعلق دوسرا اقدام ان کا یہ ہوگا کہ وہ خنزیروں کو نیست ونابود کرائیں گے جن کو عیسائیوں نے اپنے لئے حلال قرار دے دیا لیا ہے حالانکہ وہ تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اس کے بعد حدیث شریف میں عیسی علیہ السلام کے اس اقدام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ جزیہ لینا موقوف اور ختم کردیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما کر ظاہر فرما دیا کہ ہماری شریعت میں جزیہ کا قانون نزول مسیح کے وقت تک کیلئے ہے جب وہ نازل ہو جائیں گے اور آپ کے خلیفہ کی حیثیت سے امت مسلمہ کے سربراہ اور حاکم ہونگے تو جزیہ کا قانون ختم ہو جائے گا (اس کا ایک ظاہری سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو غیر معمولی برکات ہوگی تو حکومت کو جزیہ وصول کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی جو ایک طرح کا ٹیکس ہے) اس کے بعد حدیث شریف میں ان کے دو اہم کا ناموں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین حق اسلام کے سوا دوسرے تمام باطل مذہبوں اور ملتوں کو ختم فرما دے گا سب ایمان لے آئینگے اور اسلام قبول کرلیں گے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالی انہی کے ہاتھ سے دجال کو ہلاک کرا کے جہنم واصل کرے گا اور دنیا دجال کے اس فتنہ سے نجات پائے گی جو اس دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام نازل ہونے کے بعد اس دنیا اور اس زمین میں چالیس سال رہیں گے اس کے بعد یہیں وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث جو سنن ابی داود کے حوالہ سے یہاں نقل کی گئی اور یہاں تک اسکی تشریح کی گئی یہ مسند امام احمد میں بھی ہے اور اس میں کچھ اضافہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اور ان کے زمانہ حکومت و خلافت میں اللہ تعالی کی طرف سے جو خارق عادت برکات ہوں گی ان میں سے ایک یہ بھی ہوگی کہ شیر بھیڑئیے وغیرہ درندوں کی فطرت بدل جائے گی بجائے درندگی کے ان میں سلامتی آجائیگی شیر، چیتے، اونٹوں، گایوں، بیلوں کے ساتھ اسی طرح بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ گھومیں گے، کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا اسی طرح چھوٹے بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور سانپ کسی کو نہیں ڈسے گا اور کسی سے کسی کو ایذا نہیں پہنچے گی یہ خوارق اور درندوں کی فطرت تک میں یہ انقلاب اسکی علامت ہوگا کہ یہ دنیا اب تک جن نظام کے ساتھ چل رہی تھی اب وہ ختم ہونے والا ہے اور قیامت قریب ہے اور اس کے بعد آخرت والا نظام چلنے والا ہے جیسا کہ راقم سطور نے تمہیدی اصولوں کے ضمن میں عرض کیا تھا اس وقت کو روزقیامت کی صبح صادق سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت پر جس کا ایمان ہو اس کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ناقابل فہم اور ناقابل یقین نہیں۔