🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پانچ⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو دونوں کی مسافت کے بعد حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ ایران کے جس قلعے میں داخل ہوا وہ قلعہ اصفہان تھا، عام طور پر اسے قلعہ شاہ در کہا جاتا تھا، یہ سلجوقی سلطان ملک شاہ نے تعمیر کروایا اور ذاکر نام کے ایک سرکردہ فرد کو امیر قلعہ یا والی قلعہ مقرر کیا تھا۔
ذاکر سلجوقیوں کی طرح پکا مسلمان اور اسلام کا شیدائی تھا ،یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے اندر شہر آباد ہوتا، اندر آبادی تو تھی لیکن چند ایک معزز اور اچھی حیثیت اور سرکاری رتبہ اور عہدوں والے لوگ انتظامیہ کے اور لوگوں کے ذاتی ملازم رہتے تھے، آبادی قلعے سے باہر اور ذرا دور دور تھی، اس آبادی میں فرقہ باطنیہ کے لوگ بھی تھے لیکن وہ اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔
ذاکر کی عمر کم و بیش پچاس سال تھی اور اس کی دو بیویاں تھیں دونوں کی عمریں چالیس سال سے اوپر ہو گئی تھیں ،ذاکر کوئی عیاش آدمی تو نہ تھا ،پابند صوم و صلات تھا، لیکن انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں، ایک روز وہ ہرن کے شکار کو گیا وہ ہرا بھرا سر سبز علاقہ تھا، پیڑ پودوں نے جنت کا منظر بنا رکھا تھا، شفاف پانی کی دو ندیوں نے کچھ اور ہی بہار بنا رکھی تھی۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ایک ندی کے کنارے کنارے جا رہا تھا اس کے ساتھ چار محافظ اور دو مصاحب تھے، ذاکر ان کے آگے آگے جا رہا تھا، ندی کا موڑ تھا ،درخت تو بہت تھے لیکن دو درخت اس کے قریب تھے، ایک خودرو بیل دونوں کے تنوں سے اس طرح لپٹی اور پھیلی ہوئی تھی کہ چھت سی بن گئی تھی، اور اس کی شکل مٹی کے ٹیلے میں گف جیسی بنی ہوئی تھی، نیچے خشنما گھاس تھی ۔
ذاکر نے وہاں جاکر گھوڑا روک لیا، پہلے تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر آیا پھر ہونٹوں پر تبسم آیا۔
پھولدار بیل کی چھت کے نیچے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، جس کی عمر سترہ سال سے ذرا کم یا ذرا ہی زیادہ تھی، اس کی گود میں ہرن کا بچہ تھا ،لڑکی کی آنکھیں ہرن کے بچے جیسی نشیلی سیاہ اور موہنی تھی، اور اس کا حسین چہرہ بیل کے پھولوں کی طرح کھلا ہوا تھا، اس کے ریشمی بالوں میں سے دوچار بال اس کے سرخی مائل سفید چہرے پر آئے ہوئے تھے۔
یہ بچّہ کہاں سے لائی ہو لڑکی!،،،،، ذاکر نے پوچھا ؟۔
جنگل میں اکیلا بھٹکتا پھر رہا تھا لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔بہت دن ہو گئے ہیں ماں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
کھڑی ہو کر بات کر لڑکی!،،،، ایک محافظ نے لڑکی کو ڈانٹ کر کہا۔۔۔ امیر قلعہ کے احترام میں کھڑی ہو جا۔
ذاکر نے اس محافظ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔
تم سب آگے چلو۔۔۔۔۔۔ ذاکر نے محافظوں اور مصاحبوں کو حکم دیا۔۔۔ پل پر میرا انتظار کرو۔
لڑکی کے چہرے پر خوف کا تاثر آ گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگی، ذاکر گھوڑے سے اتر آیا اور لڑکی کے قریب جا کر ہرن کے بچے کی طرف ہاتھ بڑھائے ،لڑکی نے ہرن کا بچہ پیچھے کر لیا اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سا تبسم تھا وہ غائب ہو گیا اور خوف کی جھلک اس کی غزالی آنکھوں میں بھی ظاہر ہونے لگا، ذاکر نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے۔
ڈر کیوں گئی لڑکی!،،،،، ذاکر نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ اس بدبخت نے تمہیں ڈرا دیا ہے ،میرے دل کو تم اور ہرن کا یہ بچہ ایسا اچھا لگا کہ میں رک گیا میں امیر قلعہ ضرور ہوں لیکن تم پر میں کوئی حکم نہیں چلاؤں گا۔
میں ہرن کا بچہ نہیں دونگی۔
میں تم سے یہ بچہ لونگا بھی نہیں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔اور اس سے اس کا نام پوچھا۔
زریں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔
کیا اس بچے کے ساتھ تمہیں بہت پیار ہے؟،،،،،، ذاکر نے پوچھا، اور لڑکی کا جواب سنے بغیر بولا ۔۔۔یہ بچہ اتنا پیارا ہے کہ ہر کسی کو اس پر پیار آتا ہے۔
نہیں امیر!،،،،، لڑکی نے خوف سے نکل کر کہا۔۔۔یہ پیارا اور خوبصورت تو ہے لیکن میں اس سے کسی اور وجہ سے پیار کرتی ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ ماں کے بغیر جنگل میں بھٹکتا پھر رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب میں بھی بھٹک گئی تھی، اور میں اپنی ماں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔
ذاکر اس لڑکی میں اتنا محو ہو گیا کہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بٹھا دیا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا، لڑکی نے اس سے پرے ہٹنے کی کوشش نہ کی ۔
پھر تمہیں ماں کہاں ملی تھی؟،،،، ذاکر نے پوچھا۔
آج تک نہیں ملی ۔۔۔زرّیں نے جواب دیا۔۔۔ اس وقت میری عمر تین چار سال تھی ،چھوٹا سا ایک قافلہ تھا جس کے ساتھ ہم جا رہے تھے، میرے ماں باپ غریب لوگ تھے ،ان کی عمر خانہ بدوشی میں گزر رہی تھی، میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جنگلوں پہاڑوں اور بیابانوں میں چلتے پھرتے اور نقل مکانی کرتے پایا ۔
تم ان سے بچھڑ کس طرح گئی تھی؟
بڑا ہی تیز و تند طوفان باد باراں آگیا تھا ۔۔۔۔ زرّیں نے جواب دیا ۔۔۔قافلے والے نفسا نفسی کے عالم میں تتربتر ہو گئے چند ایک گھوڑے تھے اور دو تین اونٹ تھے، سب سامان سمیت ادھر ادھر بھاگ گئے، میرے چار اور بہن بھائی بھی تھے کسی کو کسی کی خبر نہیں تھی، ہر کوئی جدھر کو منہ آیا ادھر پناہ لینے کو اٹھ دوڑا ،میں اکیلی رہ گئی طوفان کے تھپیڑے اس قدر تنگ تھے کہ میرے پاؤں اکھڑ گئے میں چھوٹی سی تو تھی طوفان نے مجھے اپنے ساتھ اڑانا شروع کردیا ،اب میں باد باراں کے رحم و کرم پر تھی۔
وہ شاید ندی نہیں تھی جس میں میں گر پڑی تھی ،وہ ایسے ہی پانی کا ریلا تھا جو مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا، میں نے چیخنا چلانا اور ماں کو پکارنا شروع کردیا ،لیکن طوفان کی چیخیں اتنی بلند تھیں کہ میری چیخ اس میں دب جاتی تھی، پھر اس طرح یاد آتا ہے جیسے بڑا ڈراؤنا خواب دیکھا تھا، میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی، یہ بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ میں ڈوب رہی تھی اور دو ہاتھوں نے مجھے پانی سے نکال لیا، میں اس وقت کچھ ہوش میں اور کچھ بیہوش تھی، اتنا یاد ہے کہ وہ ایک بزرگ صورت آدمی تھا جس نے مجھے اس طرح اپنے سینے سے لگا لیا تھا جس طرح ماں اس بچے کو گود میں اٹھائے رکھتی ہو، بس یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ دن پہلے اس بچے کو جنگل میں بھٹکتے دیکھا تو اسے اٹھا لیا، میں اسے اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتی ہوں۔
تو کیا اس شخص نے تمہیں پالا پوسا ہے؟۔۔۔ ذاکر نے پوچھا۔۔۔ یا تمہیں ماں باپ مل گئے تھے؟
نہیں امیر!،،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہاں ملتے، معلوم نہیں بے چارے خود بھی زندہ ہیں یا نہیں، مجھے اس بزرگ ہستی نے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا پوسا ہے، میں انہیں اپنا باپ اور ان کی بیوی کو اپنی ماں سمجھتی ہوں، ان سے مجھے بہت پیار ملا اور ایسی زندگی ملی ہے جیسے میں شہزادی ہوں۔
کون ہے یہ لوگ؟
احمد بن عطاش!،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔قلعے کے باہر رہتے ہیں ،مذہب کے عالم ہیں اور پکے اہل سنت ہیں۔
زریں کا انداز بیاں ایسا معصوم اور بھولا بھالا تھا کہ ذاکر اس میں جذب ہو کے رہ گیا، جیسے اس کی اپنی کوئی حیثیت ہی نہ رہی ہو ،کچھ تو لڑکی بڑی پیاری تھی اور کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ لڑکی نے اپنی زندگی کی ایسی کہانی سنائی تھی جس سے ذاکر کے دل میں اس کی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی، اس نے لڑکی کے ساتھ ایسے انداز سے اور اس قسم کی باتیں شروع کر دیں جیسے ہم جولی کیا کرتے ہیں ،ان میں اتنی معصومیت اور سادگی تھی کہ وہ بچوں کی طرح ذاکر میں گھل مل گئی۔
زریں!،،،،ذاکر نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ اس پھول میں میرا پیار ہے، یہ تم لے لو۔
زریں نے پھول لے لیا، اور چھوٹے سے بچے کی طرح ہنس پڑی، اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے جل ترنگ سے نغمہ پھوٹا ہو۔
ایک بات بتاؤ زریں!،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ کیا تم نے میرا یہ پھول دل سے قبول کرلیاہے؟
ہاں تو !،،،،زریں نے کہا۔۔۔ پیار کون قبول نہیں کرتا۔
تو کیا تم میرے گھر آنا پسند کروں گی؟،،،،، ذاکر نے کچھ التجا کے لہجے میں پوچھا۔
وہ کیوں ؟
میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا، زندگی کا ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔
تو پھر میں کیوں آؤں ۔۔۔۔زریں نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کیوں نہیں آتے؟
نہیں زریں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔تم اتنی معصوم ہو کہ میری بات سمجھ نہیں سکی، میں تمہیں اپنے گھر لانا چاہتا ہوں ،تم مجھے اس پھول جیسی پیاری لگتی ہو۔
پھول کسی کے پاس چل کر نہیں جایا کرتے امیر محترم !،،،،،زریں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ پھولوں کے شیدائی خود چل کر پھولوں کے پاس جایا کرتے ہیں، اور وہ کانٹوں میں سے بھی پھول توڑ لیا کرتے ہیں، آپ نے یہ پھول جو مجھے دیا ہے ہاتھ لمبا کرکے توڑا ہے، آپ کسی پھول کو حکم دیں کہ وہ آپ کے پاس آجاۓ تو کیا پھول آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا؟
ذاکر نے قہقہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے قریب کر لیا، زرین نے مزاحمت نہ کی۔
تم جتنی حسین ہوں اتنی ہی دانش مند ہو۔۔۔ذاکر نے کہا ۔۔۔اب تو میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا۔
اور میں اپنی جان کی قیمت دے کر بھی آپ سے بھاگوں گی ۔۔۔زریں نے پہلے جیسی شگفتگی سے کہا۔
وہ کیوں ؟
میں نے بادشاہوں کی بہت کہانیاں سنی ہے۔۔۔ زرین نے کہا۔۔۔ آپ جیسے امیر بھی بادشاہ ہوتے ہیں، مجھ جیسی لڑکی پر فریفتہ ہو کر اسے زروجواہرات میں تول کر اپنے حرم میں ڈال لیتے ہیں، اور جب انہیں ایسی ہی ایک اور لڑکی مل جاتی ہے تو وہ پہلی لڑکی کو حرم کے کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں، میں فروخت نہیں ہونا چاہتی ،ائے امیر قلعہ !،،،ہاں اگر آپ کے سپاہی مجھے زبردستی اٹھا کر آپ کے محل میں پہنچا دیں تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی، میرا بوڑھا باپ احمد بن عطاش بھی سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کرسکے گا، وہ بوڑھا بھی ہے عالم دین بھی ہے، اور وہ شاید تلوار بھی نہیں چلا سکتا۔
نہیں زریں!،،،، ذاکر نے کہا ۔۔۔احمد بن عطاش کی طرح میں بھی سنی مسلمان ہوں، کیا تم نے کبھی مسلمانوں میں کوئی بادشاہ دیکھا ہے، پھر میں کسی ملک کا حکمران نہیں میں سلجوقی سلطان کا ملازم ہوں ،حکومت سلطان ملک شاہ کی ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتے، میرے پاس کوئی حرم نہیں دو بیویاں ہیں جو جوانی سے آگے نکل گئی ہیں، وہ تمہاری خدمت کیا کریں گی، اور وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگی۔
اس دور میں عربوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج تھا، اس وقت سوکن کا تصور نہیں تھا، بیویاں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم رہتی تھیں، یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ خاوند عیاش طبیعت ہو تو کبھی کبھی کوئی بیوی اپنی کسی سہیلی کو ایک ادھ رات کے لئے اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھیں، داستان گو جس دور اور جس خطے کی کہانی سنا رہا ہے وہاں سلجوقی سلاطین کی حکومت تھی، سلجوقی ترک تھے ان کے یہاں بھی یہی رواج تھا، اسلام قبول کر کے انھوں نے بھی اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا کہ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے، حرم کا تصور عربوں کی طرح ان کے یہاں بھی ناپید تھا ،بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلجوقی بیویوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔
زریں نے جب ذاکر سے یہ سنا کہ اس کی دو بیویاں ہیں اور دونوں جوانی سے آگے نکل گئی ہیں تو اس پر ایسا کوئی اثر نہ ہوا کہ اس کی دو سو کنیں ہوں گی۔
میں تمہیں زبردستی نہیں اٹھاؤں گا زریں!،،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہیں زروجواہرات میں تولونگا ،میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق تم سے نکاح پڑھواؤنگا، فیصلہ تم کرو گی۔
تو پھر اس پودے کے پاس جائیں جس کا پھول توڑنا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔
ہاں زریں! ۔۔۔۔۔ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں، میں احمد بن عطاش کے ساتھ بات کروں گا، میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں زریں پہلے تو مجھے تمہارا یہ معصوم حسن اچھا لگا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ تم میں عقل و دانش بھی ہے تو میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا، یہ اس لئے کہا تھا کہ میں اس قلعے کا حاکم ہوں، تم جیسی دانشمند بیوی میرے لیے سود مند ثابت ہو گی، تم مجھے سوچ بچار میں مدد دو گی۔
میرے باپ سے فیصلہ لے لیں۔۔۔ زریں قدر سنجیدگی سے کہا۔۔۔ میں نے آپ کو ٹھکرایا نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کہ مجھے دولت نہیں محبت چاہیے۔
ذاکر نے زریں کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ذرا ملا اور کچھ دبایا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
زریں!،،،،، ذاکر نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔میری فطرت بادشاہوں جیسی ہوتی تو میں درہم و دینار کی ایک تھیلی تمہارے قدموں میں رکھ دیتا، لیکن نہیں میں محبت کو محبت سے خریدوں گا ۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگادی ،اسکے محافظ اور مصاحب ندی کے پل پر اسکے منتظر تھے۔
ایک بات غور سے سن لو۔۔۔ ذاکر نے کہا۔۔۔ اگر کوئی ہرن سامنے آئے تو مجھے دیکھ کر یہ ضرور بتا دیا کرو کہ یہ نر ہے یا مادہ، کبھی کسی ہرنی کو نہیں مارنا، ہوسکتا ہے وہ بچے والی ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ذاکر شکار سے واپس آ رہا تھا اس نے ایک ہی ہرن مارا تھا ،لیکن اس روز وہ بہت بڑا شکار کھیل آیا تھا، وہ زریں تھی جو ادھ کھلے پھول کی طرح معصوم تھی، ذاکر کو ابھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ شکار کرکے آیا ہے یا خود شکار ہو گیا ہے۔
زریں نے اسے اپنی بستی بتادی تھی جو تھوڑی ہی دور تھی، اس بستی کے قریب ذاکر نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ یہاں احمد بن عطاش نام کا ایک عالم دین رہتا ہے اسے میرا سلام پہنچایا جائے۔
ایک مصاحب نے گھوڑا دوڑا دیا اور وہ بستی کی گلیوں میں غائب ہو گیا۔
جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جو سرسے پاؤں تک سفید چغے میں ملبوس تھا ،اس کے سر پر سلجوقی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر سفید رومال تھا جو کندھوں تک لٹک رہا تھا، اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس کے لباس کی طرح سفید، ذاکر نے اسے بستی سے نکلتے دیکھا تو گھوڑے سے کود کر اترا اور بہت ہی تیز چلتا اس شخص تک پہنچا،
جھک کر سلام کیا پھر اس کے گھٹنے چھوکر مصافحہ کیا۔
احمد بن عطاش؟
ہاں امیر قلعہ!۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ احمد بن عطاش میں ہی ہوں، میرے لیے حکم۔
کوئی حکم نہیں ائے عالم دین!،،،، ذاکر نے التجا کے لہجے میں کہا۔۔۔ ایک درخواست ہے کیا آپ آج کا کھانا میرے ہاں کھانا پسند فرمائیں گے۔
زہے نصیب ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔حاضر ہو جاؤں گا مغرب کی نماز کے بعد۔
ذاکر نے ایک بار پھر جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور واپس آ گیا۔
مغرب کی نماز کے بعد احمد بن عطاش ذاکر کے محل نما مکان میں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا، کھانے کے دوران ہی ذاکر نے درخواست کے لہجے میں احمد بن عطاش سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ زریں اسے کہاں ملی تھی، اور یہ بھی کہ زریں نے اسے بتایا تھا کہ وہ احمد بن عطاش کی بیٹی کس طرح بنی تھی۔
اللہ نے میری دعائیں قبول کرلی ہیں۔۔۔ احمد بن عطاش نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا۔۔۔ میں نے اس بچی کو طوفان میں سے نکالا تھا اور اسے بڑے پیار سے پالا ہے، میں دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اس بچی کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی نہ ہو، اور اس کا مستقبل روشن ہو ، اگر آپ نے اسے اپنی رفاقت کے قابل سمجھا ہے تو بچی کے لئے اور میرے لیے اور خوش نصیبی کیا ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو چار ہی دنوں بعد زریں دلہن کے لباس میں ذاکر کی زندگی میں داخل ہو گئی، ذاکر کی دونوں بیویوں نے بڑے پیار سے اس کا استقبال کیا ،ذاکر نے دو خادمائیں زریں کے لئے وقف کردیں۔
مجھے کسی خادمہ کی ضرورت نہیں۔۔۔ زریں نے ذاکر سے کہا ۔۔۔میں آپ کی خدمت اپنے ہاتھوں کرنا چاہتی ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ رات کو آپ دودھ پیتے ہیں تو وہ خادمہ آپ کو دیتی ہے، آئندہ یہ دودھ میں خود آپ کے لیے تیار کیا کروں گی، میں جانتی ہوں آپ دودھ میں شہد ملا کر پیتے ہیں۔
ذاکر کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی اسے غالبا توقع نہیں تھی کہ سترہ سال عمر کی اتنی حسین لڑکی اس پر فریفتہ ہوجائے گی، اس نے زریں کو اجازت دے دی کہ رات کا دودھ وہ خود اسے پلایا کرے گی۔
کچھ دنوں بعد زریں نے ذاکر سے کہا کہ جس شخص نے اسے طوفان سے بچایا اور اتنے پیار سے پالا ہے اس کے بغیر وہ اپنی زندگی بے مزہ سی محسوس کرتی ہے، ذاکر احمد بن عطاش کو اجازت دے دے کہ وہ ایک دو دنوں بعد کچھ وقت یہاں گزارا کریں۔
مختصر یہ کہ یہ نوخیز لڑکی ذاکر کے دل و دماغ پر چھا گئی، ذاکر نے احمد بن عطاش کو بلا کر بڑے احترام سے کہہ دیا تھا کہ وہ جب چاہے اسکے گھر آ جایا کرے، اور جتنے دن چاہے رہاکرے، ذاکر کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ احمد بن عطاش چاہتا ہی یہی ہے کہ اسے ذاکر کے گھر میں داخلہ مل جائے اور احمد اپنی سازش کو اگلے مرحلے میں داخل کرے، وہ اجازت مل گئی اور احمد ذاکر کے گھر جانے لگا۔
ذاکر کو یہ شک بھی نہ ہوا کہ احمد بن عطاش کٹر باطنی ہے اور فرقہ باطنیہ کا پیشوا اور اس فرقے کی زمین دوز تنظیم کا بڑا ہی خطرناک لیڈر ہے، وہ جس بستی میں رہتا تھا وہاں باقاعدہ خطیب بنا ہوا تھا، اور ہر کوئی اسے اہلسنت سمجھتا تھا۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری مرحوم نے مختلف مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک طرف ایک نوجوان لڑکی امیر قلعہ کے اعصاب پر غالب آگئی، اور دوسری طرف احمد بن عطاش نے مذہب کے پردے میں اپنی زبان کا جادو چلانا شروع کر دیا ،ذاکر احمد بن عطاش سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے بعض سرکاری امور میں بھی اس سے مشورے لینے شروع کر دیئے، زریں کو خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس کے مطابق وہ ذاکر کو ہپناٹائز کیے رکھتی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس لڑکی نے ذاکر کو جو یہ پیشکش کی تھی کہ اسے وہ خود دودھ پلایا کرے گی اس سازش کی ایک اہم کڑی تھی، وہ دودھ میں اسے ہر روز کچھ گھول کر پلاتی تھی جس کے فوری طور پر اثرات ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ اثرات اندر ہی اندر اپنا کام کر رہے تھے، اس دوائی میں نشے کا بھی کچھ اثر تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ ذاکر کے مزاج میں بڑی خوشگوار تبدیلی آجاتی تھی اور وہ زریں کے ساتھ ہم عمر ہمجولیوں کی طرح کھیلنے لگتا تھا۔
صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ذاکر کی ایک بیوی نے زریں کو یہ دوائی دودھ میں ڈالتے دیکھ لیا اور زریں سے پوچھا بھی کہ اس نے دودھ میں کیا ڈالا ہے؟،،، زریں نے بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ اس نے کچھ بھی نہیں ڈالا ،اس بیوی نے ذاکر کو بتایا اور کہا کہ اسے شک ہے کہ زریں ذاکر کو دودھ میں کوئی نقصان دہ چیز ملا رہی ہے، ذاکر کا ردعمل یہ تھا کہ اس نے اس بیوی کو طلاق تو نہ دی لیکن اسے یہ سزا دی کہ اسے الگ کر دیا اور اس کے ساتھ کچھ عرصے کے لئے میاں بیوی کے تعلقات ختم کر دیئے۔
کم و بیش تین مہینوں بعد ذاکر صاحب فراش رہنے لگا ،لیکن وہ یہ بیان نہیں کر سکتا تھا کہ بیماری کیا ہے اور تکلیف کس نوعیت کی ہے، طبیبوں نے اس کے علاج میں اپنا پورا علم صرف کر ڈالا لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اٹھ کر ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہ رہا، اس کے بستر کے قریب احمد بن عطاش اور زریں ہر وقت موجود رہتے تھے، اس کیفیت میں مریض کو وہ انسان فرشتہ لگتا ہے جو اس کی ذمہ داری پوری ہمدردی سے کرے، اسے یہ احساس دلاتا رہے کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔
احمد بن عطاش نے اس کے پاس بیٹھ کر بڑی ہی پرسوز آواز میں تلاوت قرآن پاک شروع کردی، ذاکر کو اس سے کچھ سکون ملتا تھا
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ذاکر نے کہا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا، اس نے سلطان ملک شاہ کے نام ایک پیغام لکھوایا جس میں اس نے احمد بن عطاش کی دانشمندی اور علم و فضل کا ذکر کیا ،اور اس کی آخری خواہش ہے کہ اس قلعے کا امیر احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
ذاکر مرتے دم تک احمد بن عطاش کو سنی سمجھتا رہا ، دو چار روز بعد وہ اللہ کو پیارا ہو گیا، اس کی موت کی اطلاع سلطان ملک شاہ کو ملی تو اس نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ آج سے قلعہ شاہ در کا امیر احمد بن عطاش ہے۔
اس وقت تک بہت سے باطنیوں کو قید میں ڈالا جاچکا تھا، سلجوقی چونکہ اہل سنت والجماعت ہیں اس لیے انہیں جونہی پتہ چلتا تھا کہ فلاں شخص اسماعیلی یا باطنی ہے اسے قید میں ڈال دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر باطنی اپنے آپ کو سنی کہلاتے تھے، لیکن خفیہ طریقوں سے وہ بڑی ہی خوفناک سازشیں تیار کر رہے تھے۔
احمد بن عطاش نے امیر قلعہ بنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ان تمام باطنیوں کو جو قلعے کے قید خانے میں بند تھے رہا کر دیا، پھر اس نے درپردہ باطنیوں کو قلعے کے اندر آباد کرنا شروع کردیا، اور باطنیوں پر جو پابندی عائد تھی وہ منسوخ کردی ۔
اس کے فوراً بعد قافلے لوٹنے لگے اور رہزنی کی وراداتیں بڑھنے لگی، ان وراداتوں کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا تھا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ احمد بن عطاش علم نجوم اور علم سحر کا ماہر تھا، خطابت میں اس کی مہارت ایسی تھی کہ سننے والے پر طلسماتی سا تاثر طاری ہو جاتا تھا۔
یہ تھا وہ قلعہ شاہ در جس میں حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ رہبر اسے سیدھا امیر قلعہ احمد بن عطاش کے گھر لے گیا ،یہ گھر محل جیسا مکان تھا، احمد بن عطاش کو اطلاع ملی کہ رے سے حسن بن صباح آیا ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے۔
آ نوجوان !،،،،،،احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھ کر کہا ۔۔۔میں نے تیری بہت تعریف سنی ہے، آج آرام کر لو کل صبح سے تمہیں بتایا جائے گا کہ کیا کرنا ہے، اور اب تک کیا ہو چکا ہے۔
حسن بن صباح نے جھک کر سلام کیا اور باہر نکل آیا ، اہلسنت سلطان ملک شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی سلطنت میں ابلیس اتر آیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*