🌻-حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ وِلادت باسَعادت کی مفصَّل تحقیق
🌼 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی وِلادت مبارکہ کا سال:
حضور اقدس حبیبِ خدا خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت بابرکات عامُ الفِیل میں ہوئی۔ عام الفیل سے مراد وہ سال ہے جس سال اَبرہہ بادشاہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر کعبے پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے کمزور پرندوں کے ذریعے ان کو نیست ونابود کیا تھا، جس کا ذکر سورۃ الفیل میں ہے۔
☀️ مستدرک حاکم میں ہے:
4180: عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: ولد النبي ﷺ عام الفيل.
☀️ المعجم الکبیر میں ہے:
12432: عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: ولد رسول الله ﷺ عام الفيل.
▪️امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’دلائلُ النُبُوَّۃ‘‘ میں اس بات پر اہلِ علم کا اتفاق نقل فرمایا ہے:
وَالَّذِي لَا يَشُكُّ فِيهِ أَحَدٌ مِنْ عُلَمَائِنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ وُلِدَ عَامَ الْفِيلِ، وَبُعِثَ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً مِنَ الْفِيلِ.
(باب العام الذي ولد فيه رسول الله ﷺ)
🌼 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی وِلادت باسعادت کا مہینہ:
ماہِ ربیع الاوّل کو یہ عظیم الشان شرف حاصل ہے کہ اس میں حبیبِ خدا خاتَمُ الانبیاء فخرِ موجودات حضور اقدس ﷺ دنیا میں جلوہ افروز ہوئے، یقینًا یہ شرف اور مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اس لیے اس حیثیت سے ماہِ ربیع الاوّل کو سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔
▪️ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’التمہید‘‘ میں اس بات پر اتفاق نقل فرمایا ہے:
وَلَا خِلَافَ أَنَّهُ وُلِدَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ بِمَكَّةَ فِي رَبِيع الْأَوَّلِ عَامَ الْفِيلِ، وَأَنَّ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ أَوَّلُ يَوْمٍ أَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ فِيهِ.
🌼 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت کا دن:
حضور سرورِ کائنات ﷺ کی مبارک ولادت بروزِ پیر ہوئی، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے:
▫️ صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: پیر کے روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھے نبوت عطا کی گئی (یا: پیر کے روز مجھ پر وحی نازل کی گئی)۔
وَسُئِلَ ﷺ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ، قَالَ ﷺ: «ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَىَّ فِيهِ».
(صحیح مسلم کتاب الصيام حدیث: 2804)
اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی۔
💐 خلاصہ: تین مُتَّفَق عَلیہ باتیں:
اس تفصیل سے تین باتیں معلوم ہوئیں جن پر امت کے اکابر اہلِ علم کا اتفاق ہے:
1⃣ حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت عامُ الفِیل میں ہوئی۔
2⃣ حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت ماہِ ربیع الاوّل میں ہوئی۔
3⃣ حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے روز ہوئی۔
مذکورہ بالا تین باتوں پر جمہور کا اتفاق اور اجماع ہےجیسا کہ:
☀️ ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں فرماتے ہیں:
وُلِدَ عَامَ الْفِيلِ عَلَى الصَّحِيحِ الْمَشْهُورِ، وَادَّعَى الْقَاضِي عِيَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَيْهِ، وَاتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ وُلِدَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ فِي شَهْرِ رَبِيع الْأَوَّلِ. (بَابُ الْمَبْعَثِ وَبَدْءِ الْوَحْيِ)
☀️ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ ’’التمہید‘‘ میں فرماتے ہیں:
وَلَا خِلَافَ أَنَّهُ وُلِدَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ بِمَكَّةَ فِي رَبِيع الْأَوَّلِ عَامَ الْفِيلِ، وَأَنَّ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ أَوَّلُ يَوْمٍ أَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ فِيهِ.
🌼 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی تاریخِ ولادت بابرکات:
حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی وِلادت مبارکہ سے متعلق سال، مہینے اور دن کے بارے میں امت کے اہلِ علم کے اتفاق کے بعد اس بات میں شدید اختلاف ہے کہ حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت باسعادت کی تاریخ کیا تھی؟ اس حوالے سے امت کے حضرات اکابر کے متعدد اقوال ہیں جس کے نتیجے میں ربیع الاوّل کی 2، 8، 10، 12، 13، 14 تاریخیں ملتی ہیں۔
1⃣ امام نووی رحمہ اللہ نے ’’تہذیبُ الاَسماء واللُّغات‘‘ میں اس حوالے سے چار مشہور اقوال نقل فرمائے ہیں: 2، 8، 10، 12 ربیع الاوّل:
واتفقوا على أنه ولد يوم الاثنين من شهر ربيع الأول، واختلفوا هل هو فى اليوم الثانى أم الثامن أم العاشر أم الثانى عشر، فهذه أربعة أقوال مشهورة.
(الترجمة النبوية الشريفة)
2⃣ امت کے مؤرخین اور سیرت نگاروں کے دلائل اور تجزیے ملاحظہ کیے جائیں تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے طور پر کسی ایک تاریخ کو راجح قرار دیا ہے جس کی وجہ سے متعدد اقوال سامنے آتے ہیں، ان مذکورہ اقوال میں سے زیادہ تر ربیع الاوّل کی 2، 8، 10 یا 12 تاریخ کو بعض یا اکثر حضرات نے ترجیح دی ہے۔ بعض حضرات نے ربیع الاوّل کی 12 تاریخ کو مشہور قول قرار دیا ہے جیسا کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے ’’سیرت خاتم الانبیاء ﷺ‘‘ میں تاریخِ ولادت سے متعلق مذکورہ بالا متعدد اقوال نقل کرکے فرمایا کہ مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے۔ جبکہ متعدد حضرات نے ربیع الاوّل کی 8 تاریخ کو ترجیح دی ہے۔
▪️ علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’المواہب‘‘ سے ایک اہم اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’تاریخِ ولادت سے متعلق ایک قول 8 ربیع الاوّل کا ہے، شیخ قطب الدین قسطلانی فرماتے ہیں کہ یہی قول اکثر محدثین نے اختیار فرمایا ہے، حضرت ابن عباس اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے، اہلِ تاریخ ونسب نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، علامہ حمیدی اور ان کے شیخ ابن حزم کا بھی یہی قول ہے، شیخ قضاعی نے عُیون المعارف میں اس پر اجماع نقل کیا ہے، امام زہری نے امام محمد بن جبیر بن مطعم سے یہی روایت کیا ہے، وہ عرب کے نسب کے ماہر تھے اور انھوں نے اپنے والد حضرت جبیر رضی اللہ عنہ سے یہی بات روایت کی ہے۔‘‘
☀️ المواهب اللدنية بالمنح المحمدية:
وقيل: لثمان خلت منه، قال الشيخ قطب الدين القسطلانى: وهو اختيار أكثر أهل الحديث، ونقل عن ابن عباس وجبير بن مطعم، وهو اختيار أكثر من له معرفة بهذا الشأن، واختاره الحميدى، وشيخه ابن حزم، وحكى القضاعى فى «عيون المعارف» إجماع أهل الزيج عليه، ورواه الزهرى عن محمد بن جبير بن مطعم، وكان عارفا بالنسب وأيام العرب، أخذ ذلك عن أبيه جبير. (آيات ولادته ﷺ)
3⃣ شیخ التفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سیرت المصطفی ﷺ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور ﷺ 12 ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مؤرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور ﷺ 8 ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔‘‘
⭕ تنبیہ:
مصر کے مشہور ماہر فلکیات محمود پاشا صاحب نے 9 ربیع الاول کو تاریخِ ولادت قرار دیا جس کو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے’’سیرت خاتم الانبیا ﷺ‘‘ میں جمہور کے خلاف بے سند بات قرار دیا ہے، اور مشہور محقق نامور فلکی حضرت اقدس مولانا موسی خان روحانی بازی صاحب رحمہ اللہ نے بھی ’’فلکیات جدیدہ‘‘ میں اس کی تردید فرمائی ہے۔
🌼 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی وِلادتِ مبارکہ کی تاریخ میں اختلاف کیوں؟؟
یہاں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ذاتِ بابرکات اس قدر عظیم الشان ہستی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ہی کا مرتبہ ہے: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔۔۔ اسی طرح حضرات صحابہ کرام جو کہ حضور اقدس ﷺ کے جانثار تھے اور حضور اقدس ﷺ کی ہر ایک ادا انھوں نے محفوظ فرمائی تو پھر تاریخِ ولادت کی درست تعیین کیوں نہ ہوسکی؟؟ تو اس شبہ کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں جن میں سےایک درست جواب یہ بھی ہےکہ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ سے متعلق امت کا کوئی شرعی حکم وابستہ نہیں تھا اس لیے منجانب اللہ اس کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا، سال بھر کی جن تاریخوں سے شریعت کے احکام وابستہ تھے تو ان سے متعلق حضور اقدس ﷺ کے ارشادات امت کے سامنے ہیں اور ان تاریخوں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام امت نے بخوبی کیا، لیکن حضور اقدس ﷺ کی ولادت کی تاریخ سے متعلق قرآن وسنت میں کوئی مخصوص حکم نہیں ملتا اس لیے اس کو محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی اِقدامات حضرات صحابہ کرام کی جانب سے اجتماعی طور پر سامنے نہیں آئے اور نہ ہی حضور اقدس ﷺ کی جانب سے ایسا کوئی حکم دیا گیا۔
📿 حضور خاتَمُ الانبیاء ﷺ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف سے واضح ہونے والا ایک اہم نکتہ:
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت کی تعیین میں متعدد اقوال ہیں، یہ اختلاف خود اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت سے متعلق نہ تو حضور اقدس ﷺ نے کوئی حکم یا فضیلت بیان فرمائی، نہ ہی حضرات صحابہ کرام میں اس حوالے سے کسی خاص عمل یا جشن وغیرہ کا اہتمام تھا اور نہ ہی حضرات تابعین وتبع تابعین میں، کیوں کہ اگر اس تاریخ سے متعلق حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ وتابعین کرام میں کوئی مخصوص عمل یا اہتمام یا جشن وغیرہ رائج ہوتا تو امت میں اس تاریخ ِ ولادت سے متعلق اس قدر اختلاف نہ ہوتا۔ اس اہم نکتے میں ہر مسلمان کے لیے بہت بڑا سبق ہے!! (تفصیل دیکھیے: اصلاحی خطبات)
✍۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی