جہاد کا تسلسل اور اسے ترک کرنے کے نتائج


 آج اگر کسی خطۂ زمین پر اسلامی نظام قائم کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام ممالک سے تعلقات ختم کر ڈالے اور اپنے علاقے کے علاوہ کسی دوسرے خطے میں جاری شر وفساد سے لاتعلق ہو جائے، بلکہ یہ لوگ اسی نظام کے ذریعے جہاد کا تسلسل جاری رکھیں گے جب تک روئے زمین سے شر وفساد کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا طریقہ کار مختلف ہوسکتاہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جہاد کے نام پر ایسے کام کیے جائیں جو فتنوں کے خاتمے کی جگہ اپنے اسلامی نظام کو کمزور کرنے اور مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن جائیں۔


استطاعت ہوتے ہوئے جہاد کو ترک کرنا عظیم گناہوں میں سے ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

 "ہر وہ گروہ یا جماعت جو فرض نماز،  روزہ، زکوۃ، حج، جہاد، اہل کتاب پر جزیے کا نفاذ، اسی طرح دیگر فرائض و واجبات یا محرمات کا انکار کرے، یہ دائرہ اسلام سے خارج شمار ہوں گے، ان کے خلاف جہاد واجب ہو جائے گا، اس مسئلے میں سلف صالحین میں سے کسی کا اختلاف نہیں۔" ( فتاوی ابن تیمیہ)

 اس کے علاؤہ بے شمار نصوص میں ترک جہاد کو کو گناہ، اس کے نتائج بد سے آگاہ کیا گیا یے، چند نصوص کی تشریح درج ذیل ہے:
 
1. ترک جہاد دنیا و آخرت میں ہلاکت کا سبب ہے۔ 
دنیا میں ذلت، غلامی، کفار کے زیر تسلط ہونا، آخرت میں ہلاکت و جھنم، یہ سب ترک جہاد کے عواقب ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

 وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( سورة البقرة ایة ۱۹۵ )

 ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہوجاو، بے شک بھائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔

2. ترک جہاد اور اس پر رضا منافقین کی صفات میں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

 فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ. ( سورة التوبه ایة۸۱ )

 ترجمہ: پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھے رہے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں لڑیں اور بولے (دیگر مسلمانوں کو) اس گرمی میں نہ نکلو، اے محمد تم انہیں کہو کہ جہنم کی آگ سب سے سخت گرم ہے، کسی طرح انہیں سمجھ ہوتی۔ 

3. ترک جہاد روئے زمین پر فساد وتباہی کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان یے: 

 ( وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا). (سورة الحج ایة۴۰)

 ترجمہ :اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ جہاد کا حکم کوئی نیا حکم نہیں، گزشتہ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کو بھی جہاد کا حکم تھا، اگر جہاد کا فریضہ نہ ہوتا تو آج کسی بھی دین کا نام ونشان تک نہ ہوتا، تمام آسمانی ادیان کے ماننے والوں کو اپنے اپنے زمانے میں جہاد کا حکم ہوا تھا۔

4. ترک جہاد سے فوائد وفضائل سے محرومی لازم آتی ہے۔

جیسے: اجر،ثواب،شھادت،غنیمت، تربیت،کفار کی ذلت،شروفساد کا خاتمہ،دفاع اسلام، مسلمانو ں کی عظمت کا حصول۔

5. ترک جہاد کے سبب کبھی دنیا میں ہی جلد عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

جیسے اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کا واقعہ بیان فرماتے ہیں: موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ بیت المقدس جاکر جہاد کریں لیکن انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا جس کے فورا بعد عذاب نازل ہوا:

 يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ (۲۲) قٰالُوْ يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىَ يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (۲۴) قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُواْ عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللّهِ فَتَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (۲۵) قَالُواْ يَا مُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُواْ فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۶) قَالَ رَبِّ إِنِّي لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَط. (سورة المایده ایة ۲۶۲۱)

 اے قوم پاک زمین میں داخل ہو جو اللہ نے تمہارے لیےلکھی ہے اور پیچھے نہ پلٹو کہ نقصان پر پلٹوگے، بولے اے موسیٰ! اس میں تو بڑے زبردست لوگ ہیں اور ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں گے۔دو مرد کہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے،اللہ نے انہیں نوازا،بولے کہ زبردستی دروازے میں ان پر داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے، بولے اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب،تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔موسی نے عرض کی کہ اے رب میرے، مجھے اختیار نہیں مگر اپنا اور اپنے بھائی کا تو تو ہم کو ان فاسقوں سے جو جہاد کے انکاری ہیں، سے جدا رکھ۔

اللہ تعالیٰ نے اس حکم عدولی پر یہ مقدس سرزمین حرام کردی اور چالیس سال تک بنی اسرائیل ترک جہاد کے سبب وادی تیہ میں سرگرداں وپریشان پھرتی رہی۔

✍️ عثمان احمد زئی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی