ایک استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بُلایا اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔ اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا اور بولے تگڑا ہو جا۔ پھر اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا یا - یوں کہہ لیجیئے کہ دبانا شروع کر دیا - وہ بچہ تگڑا تھا وہ اکڑ کر کھڑا رہا۔ استاد محترم نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا۔ وہ بچہ دبنے لگا اور بلآخر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ استاد محترم بھی اُسے دبانے کے لئے نیچے ہوتا چلا گیا۔ وہ لڑکا آخر میں تقریباً گر گیا اور اُس سے تھوڑا کم استاد محترم بھی زمین پر تھے۔ اُستاد صاحب نے اِس کے بعد اُسے اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہوئے؛
”آپ نے دیکھا مجھے اِس بچے کو نیچے گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا؟
دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی طرف جا رہا تھا، میں بھی اِس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے۔“
استادِ محترم اُس کے بعد رکے لمبی سانس لی اور بولے؛
”یاد رکھئیے! ہم جب بھی زندگی میں کِسی شخص کو نیچے گرانے یا دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف ہمارا ہدف ہی نیچے نہیں جاتا ہم بھی اُس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں۔ (مطلب انسانیت سے گِر جاتے ہیں) جب کہ اِس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا۔ ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں ہمارا درجہ، ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے۔
اُستاد صاحب اِس کے بعد رکے اور بولے باکمال انسان کبھی کسی کو نیچے نہیں گراتا۔ وہ ہمیشہ گرے ہوؤں کو اٹھاتا ہے۔ اور اُن کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے، وہ بلند ہوتا رہتا ہے۔
زمرے
معاشرت و طرزِ زندگی