فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 21═(ملاگا کی فتح )═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عیسائی نہایت شان کے ساتھ قلعے کے دروازے سے نکل کر میدان کارزار میں بڑھ بڑھ کر صف بستہ ہوتے چلے جا رہے تھے ۔
مسلمان بھی ان سے چار فرلانگ کے فاصلے پر جا کر صف بستہ ہو گئے تھے ۔
دونوں لشکر آمنے سامنے کھڑے تھے ۔آفتاب بھی کچھ اونچا ہو گیا تھا ۔دھوپ سارے سواروں پر پھیل گئی تھی اور سواروں کے ہتھیار شعاعیں پڑنے سے جگمگا رہے تھے ۔
عیسائیوں کا لشکر ابھی فصیل کے اوپر کھڑا ہوا میدان جنگ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔دفتعا عیسائی لشکر طبل جنگ بجا اور اس کے مہمیب شور سے سارا دن میدان گونج اٹھا ۔
تھوڑی دیر بعد ایک موٹا تازہ عیسائی گھوڑے پر سوار ہو کر اکڑتا ہوا آیا اس کی شان بتا رہی تھی کہ اسے اپنے زور بازو پر بڑا گھمنڈ ہے ۔
وہ دونوں لشکروں کے درمیان میں آ کر رکا اس کی ذرہ بکتر اس کے ہتھیار اور اس کا خود دھوپ میں چمک رہے تھے اس نے آتے ہی بلند آواز میں کہا- "
جو موت کا خواہش مند ہے اسے میرے ساتھ لڑنے کے لئے بھیجو ۔
مسلمانوں نے اس کی بات تو سمجھی نہیں لیکن وہ یہ ضرور سمجھ گئے تھے کہ وہ لڑنے کے لیے نکلا ہے اور کسی لڑنے والے کو طلب کر رہا ہے ۔
اس لشکر کے ساتھ طاہر بھی تھے وہ نوجوان اور بڑے جوشیلے تھے وہ جلدی سے گھوڑا دوڑا کر زید کے پاس آئے اور کہا
مہربانی کر کے مجھے اس کے ساتھ لڑنے کی اجازت دیں -"
زید نے کہا جاو اللہ تمہارا مددگار ہے مگر کہیں جوش میں آ کر سارے لشکر پر نہ حملہ کر دینا ۔
طاہر گھوڑا دوڑا کر عیسائی کے سامنے پہنچے عیسائی نے اسے دیکھا وہ اس کے مقابلے میں دبلے پتلے تھے عیسائی نے حقارت بھری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا- "
تم آئے ہو مجھ سے لڑنے کسی میرے میرے جیسے کو بھیجو کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو- "
طاہر کو اس کی بات کی کچھ سمجھ نہ آئی اس نے کہا تم کیا کہہ رہے ہو مجھے نہیں پتہ ۔
عیسائی سمجھ گیا کہ وہ کیا جاننا چاہتے ہیں ۔
اس نے تلوار نکالی اور پوری قوت سے اس پر حملہ کر دیا طاہر نے ڈھال پر اس کا وار روک کر خود بھی حملہ کر دیا ۔
عیسائی انہیں ناچیز سا انسان سمجھ رہا تھا مگر اب جب اس نے طاہر کو نبزد آزما دیکھا تو اس کی ساری خوش فہمی ہوا ہو گئی اور وہ سمجھ گیا کہ طاہر معمولی آدمی نہیں ہیں ۔
دونوں گھوڑوں کو کاوا دے کر لڑائی میں مصروف ہو گئے ۔
دونوں لشکر انہیں لڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ گھوڑوں کے سموں سے بلند ہونے والے غبار نے انہیں دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا یہ دونوں تلواریں لیے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ جھپٹ کر حملہ کر رہے تھے ۔
اتفاق سے عیسائی کی تلوار ٹوٹ گئی وہ گھبرا گیا اور جلدی سے گھوڑا دوڑا کر طاہر کو لپیٹ لیا تاکہ وہ تلوار سے اس پر وار نہ کر سکے ۔
انہوں نے فورا ہی تلوار گرا دی اور ڈھال پشت پر لپیٹ لی اور اس کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگے ۔
عیسائی کو بالکل یقین ہو گیا تھا کہ وہ طاہر کو اٹھا کر پٹک دے گا مگر جب اس نے اپنا پورا زور صرف کر دیا اور پھر بھی طاہر نے جنبش تک نہ کی تو وہ حیران رہ گیا ۔
ادھر طاہر نے اس کا پٹکا پکڑ کر زور لگایا اور اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگایا اور اسے اٹھا کر زور دار چکر دے کر زمین پر دے مارا ۔
اس کے گرتے ہی اس کا گھوڑا خوف زدہ ہو کر بھاگا اور اسے کچل کر ڈورا چلا گیا ۔
اس کا سم عیسائی کے بھیجے پر پڑا اور اس کا دماغ پاش پاش ہو گیا ۔
عیسائی لشکر نے اپنے ساتھی کو اس طرح مرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے شور مچا کر گھوڑوں کو دوڑایا ۔
طاہر مردہ عیسائی کو دیکھنا چھوڑ کر تلوار اٹھانے کے لیے کودے اور تلوار اٹھا کر پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے ۔
ابھی وہ سوار ہو کر سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ عیسائی قریب آ گئے اور آتے ہی انہوں نے حملہ کر دیا طاہر بھی سنبھل گئے تھے ۔
انہوں نے بھی جوش میں آ کر حملہ کر دیا ان کا گھوڑا بجلی کی طرح ادھر ادھر جھپٹنے لگا اور ان کی برق وش تلوار کوند کوند کر عیسائیوں کی خرمن ہستی پر گرنے اور گر کر جلانے لگی ۔
انہوں نے تنہا ہی حملے کر کے بہت عیسائیوں کو جہنم واصل کر دیا ۔عیسائی جوش انتقام سے غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے مگر جو بھی عیسائی طاہر کے قریب پہنچتا طاہر اسے مار ڈالتے انہیں رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا کہ ایک معمولی تن و توش کا نوجوان ان کے ساتھ بڑے جوش و خروش سے لڑ لڑ کر انہیں قتل کر رہا تھا اور وہ خود زخمی بھی نہ ہوا تھا ۔
انہوں نے اسے چاروں طرف سے نرغے میں لے کر تلواروں کی بارش کر دی طاہر ذرا بھی نہ گھبرائے برابر لڑتے اور انہیں قتل کرتے رہے ۔
جب کہ وہ لڑائی میں مشغول تھے انہوں نے اللہ اکبر کے پر زور نعرہ کی آواز سنی اس آواز کو سن کر عیسائی خوف زدہ ہو گئے اور نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انہیں تمام مسلمان تلواریں سونتے دوڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے ۔
وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پھیل گئے مسلمانوں نے جس وقت تنہا طاہر پر عیسائیوں کو حملہ کرتے دیکھا تو وہ دوڑ آئے اور انہوں نے آتے ہی حملہ کر دیا اور پہلے ہی حملے میں قریب قریب ایک ایک عیسائی کو مار ڈالا یہ دیکھ کر عیسائیوں کو طیش آ گیا اور وہ بڑھ بڑھ کر حملے کرنے لگے ۔
مگر مسلمان گویا لوہے کے بن گیے تھے یا بقول عیسائیوں کے کہ ایسی مخلوق جو مرنا نہیں جانتے تھے چنانچہ وہ مر ہی نہیں رہے تھے بلکہ جھپٹ جھپٹ کر حملہ کر کے انہیں قتل کر رہے تھے ۔
چونکہ عیسائی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اور مسلمان بھی ان کے برابر کشادہ ہو گئے اس لئے دور تک جنگ ہو رہی تھی اور جہاں تک لڑائی کی چنگاریاں پہنچ گئی وہاں تک تلواریں اٹھتی نظر آ رہی تھیں اور خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ۔
نہایت خون ریز جنگ ہو رہی تھی ہاتھ پیر سر ڈھر کٹ کٹ کر گر رہے تھے ۔
لڑنے والے عیسائی شور کر رہے تھے فصیل والے بھی غل مچا رہے تھے زخمی چلا رہے تھے اور تمام میدان گونج رہا تھا ۔
طاہر ابھی تک اسی جگہ پر لڑ رہے تھے جہاں انہوں نے عیسائی کو مارا تھا ۔
انہوں نے اپنے اطراف میں عیسائی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے تھے اور اب بھی گھوڑے کو بڑھا چڑھا کر عیسائیوں کو قتل کر رہے تھے ۔
وہ جس طرف بھی جاتے دو تین عیسائیوں کو مارے بغیر نہ لوٹتے ان کے کپڑے خون میں تر ہو گئے تھے اور چہرہ بھی اور بازو شل ہو گئے تھے پر ان کو کسی بات کی پرواہ نہ تھی ۔
گویا وہ سارے عیسائیوں کو خود ہی مار ڈالنا چاہتے تھے جو تمنا ان کی تھی وہی تمام مسلمانوں کی تھی عیسائی گویا ان کے نزدیک ایک گھاس کی طرح تھے جیسے کسی مسلمان نے کاٹ کر ڈھیر لگا دیا ہو ۔
بات یہ ہے کہ مسلمان کو جب تک غصہ نہیں اتا وہ خاموش رہتا ہے جب غصہ آتا ہے تو بڑے بڑے پہاڑوں کو اکھاڑ پھینکتا ہے ۔اس کے علاوہ مسلمان جہاد کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور اگر وہ شہید ہو جاتے ہیں تب جنت کے حق دار بن جاتے ہیں وہ موت کی لڑائی لڑتے ہیں اور زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں ۔جو قوم موت سے نہیں ڈرتی دنیا اس سے ڈرتی ہے اس لئے وہ بےجگری سے لڑ تے تھے یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی ۔-"
آسیائے جنگ نہایت تیزی سے چل رہی تھی اور اس چکی میں بے چارے عیسائی ہی زیادہ پس رہے تھے کبھی کبھی کوئی مسلمان بھی آ جاتا وہ بھی اس وقت جب کہ سو دو سو عیسائی مارے جا چکے ہوتے ۔
زید ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار لئے نہایت خوش و خروش سے حملے کر رہے تھے ۔
وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اسے الٹ دیتے تھے جس شخص پر وار کرتے اسے ختم کر ڈالتے وہ کچھ ایسی پھرتی سے لڑ رہے تھے کہ گویا چاروں طرف سے گھوم گھوم کر کہ سب حیرت زدہ ہو رہے تھے ۔
چونکہ دھوپ میں تیزی آ گئی تھی اس لیے ہر لڑنے والا پسینے میں ڈوب چکا تھا اس وقت مسلمانوں نے سنبھل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور نہایت جوش و غضب سے بھر کر حملہ کر دیا آس حملے میں تقریبا دو ہزار عیسائی جہنم واصل ہو گئے اور جہاں تہاں ان کی لاشوں کے ڈھیر بکھر گئے یہ کیفیت دیکھ کر عیسائی گھبرا گئے اور ہر جگہ سے پسپا ہو کر قلعے کی طرف بھاگے مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں قتل کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ قلعے کی فصیل تک ان کی لاشیں بچھا دیں ۔
جب عیسائی قلعہ میں داخل ہونے لگے تو ساتھ ہی مسلمان انہیں قتل کرتے ہوئے قلعے میں داخل ہو گئے اور اب قلعہ کے اندر جنگ ہو رہی تھی ۔
عیسائیوں کو نہایت غصہ آ رہا تھا کہ مسلمان کیسے لوگ ہیں؟
اگر لڑتے ہیں تو اس وقت لڑتے رہتے ہیں کہ جب تک جنگ کا خاتمہ نہ ہو جائے ۔جب عیسائیوں نے مسلمانوں کو قلعہ کے اندر لڑتے ہوئے دیکھا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے ۔
مسلمانوں نے جنگ بندی کر دی اور انہیں گرفتار کرنے لگے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔