فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 17═(عظیم الشان فتح)═


 فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  17═(عظیم الشان فتح)═

 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
2 شوال 92 ہجری کو مسلمانوں اور عیسائیوں میں جو جنگ ہوئی اگرچہ وہ سارا دن لڑتے رہے مگر فتح کسی کو نصیب نہ ہوئی-
رات نے انہیں ایک دوسرے سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا-
دوسرے روز وہ پھر بڑے جوش و خروش سے میدان جنگ میں نکلے اور ہر فریق دوسرے روز وہ پھر بڑے جوش و خروش سے میدان جنگ میں نکلے اور ہر فریق دوسرے فریق کا خاتمہ کرنے کے لیے بڑے شدومد سے حملہ آور ہوا-
فوجی باجوں آوازوں سپاہیوں کے نعروں اور مجروحین کی چیخ و پکار نے ایک شور حشر بپا کر دیا -
کل کی طرح ہی لڑائی ہوتی رہی-
سرفروش لڑتے رہے اور کٹ کٹ کر مرتے رہے. .مردوں کے ڈھیر لگ گئے اور خون کی ندیاں بہہ گئیں لیکن جنگ کا فیصلہ آج بھی نہ ہوا اور آفتاب غروب ہو جانے سے آج بھی جنگ بند کرنی پڑی-
اگلے روز صبح ہوتے ہی پهر میدان کارزار گرم ہو گیا پھر تلواریں چلنے لگیں پهر خون کی بارش ہونے لگی-
بہادر داد جواں مردی دینے لگے-
آج بھی سارا دن لڑائی ہوتی رہی لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا-
پھر شام ہوئی پھر دونوں لشکر جدا ہوئے-
5 شوال 92 ہجری کو جب آفتاب طلوع ہوا تو عیسائی پورے جوش و خروش سے میدان میں نکلے اور صفیں قائم کر کے کھڑے ہو گئے - رازرق اپنی مخصوص بگهی میں سوار ہو کر لشکر کے بیچ میں آ کهڑا ہوا. اس نے بلند آواز میں کہے-"
عیسائیو یہ کیا دون ہمتی ہے، تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہے اور دشمن تم سے آٹھواں حصہ ہیں تعجب ہے کہ تین روز سے جنگ ہو رہی ہے اور تم اپنے دشمنوں کو پامال نہیں کر سکے-
یہ بڑے شرم کی بات ہے میں چاہتا ہوں کہ تم آج ان خون خوار انسانوں کو کچل ڈالو-"
عیسائی جوش و غیرت میں آ کر مرنے مارنے پر تیار ہو گئے -
لیکن ان کے لشکر میں طبل جنگ بجا اور ان کی لمبی لمبی صفوں کو حرکت ہوئی.
مسلمان بھی صبح کو نماز فجر پڑهتے ہی مسلح ہو کر میدان جنگ میں صف آراء ہو گئے تھے -
طارق نے ان کے سامنے گھوڑا دوڑایا اور کہا.
مسلمانو تین روز تک تم نے دشمنوں کا خوب مقابلہ کیا لیکن اگر تم اسی طرح لڑتے رہے تو اللہ جانتا ہے کتنے دنوں میں جنگ کا خاتمہ ہو.
لڑائی کا یہ طریقہ ہماری روایات کو بٹا لگاتا ہے-
تمہارے بزرگوں نے کبھی ان عیسائیوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھا-
انہوں نے ہر موقع پر انہیں شکست دی.
آج ان کا تم سے مقابلہ ہے تم بھی انہیں شکست دو.
یاد رکھو عیسائی موت سے ڈرتے ہیں اور اس لیے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.
مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور اس لیے اللہ اسے فتح دیتا ہے تم اللہ پرست ہو اللہ کو یاد کرتے ہو وہ بھی تمہیں یاد کرتا ہے تمہاری زرا سی جرات و ہمت تم کو کامیاب کر دے گی-
اللہ سے فتح کی دعا مانگو پر جوش حملہ کرو ان شاءالله فتح یاب ہو گے-"
یہ کہتے ہی انہوں نے وقفے وقفے سے اللہ اکبر کے تین نعرے لگائے تیسرے نعرہ کے بعد تمام مسلمانوں نے مل کر اللہ اکبر نہایت پر زور نعرہ لگایا اس نعرہ سے زمین سے لرز گئی-
فضا تھرانے لگی اور عیسائی کانپ گئے.
نعرہ لگاتے ہی مسلمانوں نے بڑھنا شروع کر دیا دونوں لشکر آمنے سامنے زور دار ٹکر ہوئی آج فریقین بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے تھے -
دونوں نے ٹکراتے ہی تلواریں کهنیچ لیں اور ایک دوسرے پر برس پڑے-
جنگ شروع ہوئی تلواریں جلد جلد اٹھنے لگیں ہاتھ اور سر کٹ کٹ کر اچھلنے لگے.
بے دھڑ سر گر گر کر تڑپنے لگے.
خون کے فوارے ابلنے لگے ایک فریق دوسرے پر ٹوٹا پڑتا تھا صفیں درہم برہم ہو گئیں. پیدل سواروں میں سوار پیدلوں میں گھس گئے تھے اور نہایت خون آشام جنگ ہو رہی تھی -
جہاں سے اور جہاں تک نظر جاتی تھی خون آلود تلواریں اٹھتی اور سر اچھلتے نظر آتے تھے،
عیسائی غل مچا رہے تھے فوجی باجے بجا رہے تھے ان کی مختلف آوازوں سے ایسا شور و شغب بپا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی -
اس وقت ہر شخص خون خوار بھیڑیے کی صورت اختیار کئے ہوئے تھا اور مد مقابل کو چیر پھاڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا -
جوں جوں آفتاب بلند ہوتا جارہا تھا جنگ کا زور بڑھتا جاتا تھا - جس طرح عیسائی مسلمانوں کو کچل ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے اسی طرح مسلمان انہیں روند ڈالنے کی فکر میں تهے.
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی اب بھی عیسائیوں سے کوئی نسبت نہیں تهی -
عیسائی سوار تھے مسلمان پیدل بہت کم لوگوں کے پاس گھوڑے تهے -
عیسائی جملہ ہتھیاروں سے مسلح تھے اور مسلمانوں کے پاس ایک ایک دو ہتھیار تھے - عیسائی زرہ پوش تهے مسلمان زیادہ تر سادہ کپڑوں میں تهے مگر اس بے سروسامان میں بھی وہ نہایت جوش و خروش سے لڑ رہے تھے جس طرف حملہ کرتے تھے صفوں کی صفیں الٹ دیتے تھے -
ان کی تلواریں ڈھالوں کو پھاڑ کر سروں کو کاٹ رہی تھیں _ انہوں نے عیسائیوں کی پندرہ بیس صفوں کو الٹ کر ان میں رخنے ڈال دئیے تھے اور اب تک ہزاروں عیسائیوں کو مار ڈالا -
مغیث الرومی دائیں دستے میں تهے اور وہ نہایت طیش میں آ آ کر حملے کر رہے تھے -
وہ گھوڑے پر سوار تھے اور جس طرف جھپٹ کر حملے کرتے مردوں پر مردے ڈالتے چلے جاتے تھے - جس جوش و خروش سے وہ لڑ رہے تھے اسی جوش و خروش سے ان کا دستہ بھی لڑ رہا تھا اور ان کے دستوں نے بے شمار عیسائیوں کو موت کی گود میں پہنچا دیا.
بائیں دستے میں طاہر تهے - وہ نوجوان مجاہد تھے نوجوانوں میں جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے لہذا وہ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے حملہ کر رہے تھے اور ہر حملہ میں دو چار عیسائیوں کو مار ڈالتے تھے -
وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح عیسائیوں کو جلد از جلد شکست دے دیں.
ان کا دستہ بھی یہی چاہتا تھا اور اس لئے وہ بڑی بےجگری سے لڑ رہے تھے -
جتنی کوششیں عیسائی مسلمانوں کو قتل کرنے کی کرتے تھے بے چارے خود ہی قتل ہو ہو کر گر پڑتے تھے لیکن ان کی تعداد اس قدر زیادہ تهی کہ جتنے قتل ہوتے تھے اس سے زیادہ پچھلی صفوں سے آگے بڑھ آتے تھے اور پھر تازہ دم آ کر لڑنے لگتے.
لڑائی نہایت زور و شور سے جاری تھی بہادر زندگی سے بےنیاز ہو کر لڑ رہے تھے اور قتل ہو رہے تھے مسلمان بھی شہید ہو رہے تھے -
اکثر گھوڑوں کے سموں سے کچلے جا رہے تھے بعض تلواروں سے قتل ہو رہے تھے مگر کوئی مسلمان بھی اس وقت تک نہ مرتا تھا جب تک وہ بیس بائیس عیسائیوں کو نہ مار ڈالتا تھا - یہی وجہ تھی کہ مسلمان شہید ہوتے معلوم ہی نہ ہو رہے تھے اور عیسائی قدم قدم پر مرتے ہوئے واضح نظر آ رہے تھے -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
طارق لشکر کے قلب میں تهے اور وہ ایک ہاتھ میں علم لئے اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تهے جس پر سوار پر جھپٹتے تهے. اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتے تھے جس شان سے جنگ کر رہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی تمنا ہے کہ سارے عیسائیوں کو جلدی جلدی خود ہی قتل کر ڈالیں.
وہ نہایت تیزی اور بڑی پھرتی سے جھپٹ جھپٹ کر حملے کر کے دشمنوں کو مار رہے تھے -
ان کے سپاہی بھی اسی شان سے لڑ رہے تھے انہوں نے پچاس پچاس آدمیوں کا گروہ بنا لیے تهے اور ہر گرہ موت کی لڑائی لڑ رہا تھا انہوں نے دوپہر تک پانچ سو گھوڑے پکڑ لئے تهے اور اس طرح سے پانچ سو پیدل سوار بن گئے تھے -
ان میں تقریباً ایک سو سوار طارق کے ساتھ ہو گئے - اور جس طرح جھکتے تهے پرے کے پرے صاف کر کے آگے بڑھ جاتے تھے.
ان کا ہر قدم رازرق کی طرف بڑھ رہا تھا وہ صفوں پر صفیں الٹتے ہوئے ان کے قریب ہوتے جاتے تھے -
رازرق بگهی میں بیٹھا تھا
وہ زربفت کے سائبان کے نیچے کے آرام اور اطمینان سے نیم دراز ہو کر لڑائی کا تماشا دیکھ رہا تھا.
جوں جوں عیسائی قتل ہو ہو کر گر تے تھے اسے افسوس ہوتا جاتا تھا -
اسے رہ رہ کر عیسائیوں کی دون ہمتی اور مسلمانوں کی دلیری پر حصہ آ رہا تھا -
دفعتاً اس نے قریب ہی شور و غل سنا وہ چونک کر دیکھنے لگا - اسے طارق اور ان کے ساتهی ایک سو اسلامی شیر عیسائیوں کو مارتے کاٹتے اور اس کی طرف بڑھتے نظر آئے.
وہ گھبرا گیا اور اس نے فوراً اپنا گھوڑا طلب کیا بگهی کے پیچھے ہی اس کا زین کسا ہوا گھوڑا موجود تھا. گھوڑے کے آتے ہی رازرق بگهی سے نیچے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے تلوار میان سے کھینچ لی مگر جونہی اس نے تلوار کھینچ کر اٹھائی فورا طلسمی گنبد کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا.
اس وقت اس کا دل ڈوب گیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے موت کے اندھیرے چهانے لگے.
اس کا دل کانپ گیا اور وہ حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن جب اس کی نظر سامنے پڑی تو اسے طارق اپنے سامنے کھڑے نظر آئے انہیں دیکھتے ہی اس کا بند بند لرزنے لگا طارق نے کہا - "
بدکار بادشاہ ہمت اور جرت سے مقابلہ پر آ.
رازرق نے اپنے رسالے کی طرف دیکھا کہ وہ اس کی مدد کرے گا لیکن وہ اسے لڑتے دیکھ کر اور پریشان ہو گیا -
ادھر طارق نے تلوار بلند کی رازرق کچھ کہنا چاہتا تھا کہ تلوار اس کے سر پر پڑی اور وہ زخمی ہو گیا اور ایک خوفناک چیخ مار کر گر پڑا.
اس کے گرتے ہی طارق نے اس کے رسالے پر نہایت جوش سے حملہ کر دیا -
عیسائی اس حملہ کی تاب نہ لا کر پسپا ہوئے.
مسلمانوں نے بڑهہ کر کر دو سرا حملہ کیا اور عیسائیوں کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹنا شروع کر دیا -
تهوڑی دیر بعد ہی ان کے ہزاروں آدمی مار ڈالے.
یہ دیکھ کر عیسائیوں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور وہ ہر محاذ سے شکست کها کر بھاگے مسلمانوں نے ان کا تعاقب شروع کیا اور دور تک انہیں مارتے چلے گئے.
عیسائی کچھ ایسے بد حواس ہو گئے تھے کہ انہوں نے بھاگتے یہ بھی نہ دیکھا کہ کس قدر مسلمان ان کا تعاقب کر رہے ہیں اور یہ ان کا مقابلہ کر کے اپنی جانیں بچا سکتے ہیں یا نہیں-
تهوڑی دیر میں میدان جنگ میں ایک بهی عیسائی باقی نہ رہا.
سب یا تو بھاگ گئے یا مارے گئے.
اس معرکہ میں عیسائی اس قدر قتل ہوئے کہ انہیں شمار ہی نہ کیا جا سکتا تھا البتہ ایک عرصہ تک تمام میدان ان کی لاشوں سے بھرا رہا، جب کہ مسلمان فقط دو سو کے قریب مسلمان شہید ہوئے-
اندلس میں داخل ہو کر مسلمانوں کو یہ عظیم الشان فتح حاصل ہوئی جس سے ان کے حوصلے بڑهہ گئے اور عیسائیوں پر ان کی دھاک بیٹھ گئی-
یہ وہ خون ریز جنگ تھی جس پر آج تک عیسائی ماتم کرتے ہیں اور اسلامی دنیا ناز کرتی ہے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی