فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 16═(بلقیس کی گمشدگی)═


 فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  16═(بلقیس کی گمشدگی)═

 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسمٰعیل اور بلقیس دونوں پہاڑ کی سب سے اونچی چٹان پر چڑھے ہوئے تھے -
جب تک تدمیر کے ساتهی انہیں تلاش کرتے رہے وہ وہیں چھپے رہے-
جب وہ چلے گئے تب انہیں اطمینان ہوا اور اب وہ نیچے اترنے کی تدبیریں کرنے لگے لیکن جس چٹان پر وہ رات کے اندھیرے میں چڑھ گئے تھے وہ ایسی اونچی اور سیدھی تهی کہ اب اس سے اترنا مشکل ہو گیا بلکہ اس کے اوپر سے نیچے جھانکتے ہوئے بھی خوف معلوم ہوتا تھا-
بلقیس نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا - " اب نیچے کیسے اتریں گے ہم؟ ؟"
اسمٰعیل نے کہا-"جس طرح سے ہم اوپر چڑھے ہیں اس طرف سے نیچے اترنا ناممکن ہے-"
بلقیس :لیکن ہم چڑھ کیسے آئے؟ "
اسمٰعیل :دشمنوں کے خوف سے رات کی تاریکی میں چڑھے چلے آئے ہیں مگر!
بلقیس :مگر کیا؟
اسمٰعیل :میں چڑھ آیا یہ تو تعجب خیز بات نہیں لیکن؟
بلقیس :لیکن میرا چڑھ انا حیرت انگیز ہے!
اسمٰعیل :ہاں.
بلقیس نے مسکرا کر شوخ نظروں سے اسمٰعیل کو دیکھا اور کہا کیوں؟
اسمٰعیل :اس لیے کہ تم نازک اندام ہو تمہارا ایسی سیدھی چٹان پر اتنی بلندی پر چڑھ آنا بڑی حیرت کی بات ہے-
بلقیس شرما گئی جادو فگار آنکھیں جھک گئیں-
اسمٰعیل اس کے شرمیلے مگر چاند سے چہرےکی طرف دیکھ رہے تھے - اس وقت دونوں خاموش ہو گئے تھے بلقیس سر جھکائے پتهر اور پتهر پر آگے ہوئے سبزے کو دیکھ رہی تھی اور اسمٰعیل اس کے رخ انور کو.
کچھ وقفہ کے بعد اسمٰعیل نے آہستہ آہستہ اپنا سر اٹھایا جونہی نگاہیں چار ہوئیں تو وہ پهر جهنپ گئی.
اسمٰعیل نے کہا :ایسی نظروں سے نہ دیکهو جس سے میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاؤں.
اب بلقیس نے شرم آفریں نگاہوں سے اسمٰعیل کو دیکھتے ہوئے کہا : کیا آپ اس چٹان پر رہنا پسند کرتے ہیں؟ -
اسمٰعیل :یہ اونچی چٹان کا سبزہ سبزے کی دلکشی اور اس پر کھلے ہوئے خوش رنگ پھول پھولوں کی بھینی بھینی نگہت اور ان جملہ دل فریبیوں پر تمہاری موجودگی کیا اسے بہشت زار نہیں بنائے ہوئے ہے؟ -
بلقیس :یہ آپ میں شاعرانہ تعلی کہاں سے پیدا ہو گئی -
اسمٰعیل :ہر عرب پیدائشی شاعر ہے.
بلقیس نے مسکرا کر کہا :اچھا تو شاعر صاحب اب یہاں سے بچنے کی تدبیریں کریں مجھے ایسی جگہ بلکل پسند نہیں جہاں کوئی رہتا نہ ہو خواہ وہ بہشت سے بھی بڑھ کر ہو.
اسمٰعیل :اچھا تو قسمت آزمائی کرتے ہیں آو.
دونوں اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے عیسائیوں کو کوچ کرتے دیکھ لیا تھا اور اس لئے یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ مایوس ہو کر چلے گئے ہیں -
یہ چٹان جس پر وہ چڑھ آئے تھے دور تک پھیلی ہوئی تھی اور سبزہ سے ڈھکی ہوئی اور پھولوں سے لدی ہوئی تھی جس طرف نظر جاتی تھی سبزہ لہلہاتا اور پھول جھومتے نظر آتے.
سبزہ اور پھولوں سے پتهر تک ڈھکے ہوئے تھے -
یہ دونوں پھولوں اور سبزہ میں بڑھتے رہے اور جب تهک جاتے تو بیٹھ کر سستانے لگے.
قدرت نے اس چٹان پر اور چٹان پر ہی کیا پورے پہاڑ پر طرح طرح کے پھلوں پھولوں اور میووں کے درخت بھی آگا رکهے تهے -
کهانے کو پهل اور میوے تو وافر تهے پر پانی کا کہیں ناموں نشان نہ تھا کافی دیر سے انہیں پانی نصیب نہ ہوا.
وہ تو بعض پهل ایسے رسیلے تهے کہ ان سے تشنگی بجھ جاتی تھی ورنہ پانی کی کمی انہیں نڈھال کر دیتی اور وہ دو چار قدم بھی چلنے کے قابل نہ رہتے مگر انسان محض پھلوں اور میووں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا اس کے لیے پانی بھی ضروری تھا مگر پانی کا وہاں نام و نشان نہیں تھا -
اسمٰعیل عرب کے رہنے والے تھے اس ملک میں کئی منزل اور کئی کئی دن تک پانی نہیں ملتا.
وہ عادی تھے پھر مرد تهے -
پانی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں زیادہ تکلیف نہ تھی مگر بلقیس جو اس ملک کی رہنے والی تھی جس میں وہ اب بھی تهی اسے پانی کے بغیر تکلیف ہو رہی تھی نازک لب خشک ہو گئے تھے اور وہ مضمحل ہوتی جا رہی تھی.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسمٰعیل اس کی کیفیت دیکھ رہے تھے ، انہیں ان کی حالت دیکھ کر بہت رنج ہو رہا تھا وہ اسے رسیلے پهل کهلاتے تهے تسلی اور تشفی دیتے جاتے تھے -
بلقیس بھی اپنے آپ کو اسی لئے سنبھالے ہوئے تهی کہ اسمٰعیل اسے اس طرح دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے -
وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کی وجہ سے غمگین اور فکر مند رہیں اس لیے وہ جبراً مسکرا کر اپنی طبعیت کو بشاش رکھ رہی تھی -
چونکہ بلقیس ایک پری جمال نازک دوشیزہ تهی اس لئے اس سے زیادہ چلا نہیں جا رہا تھا - وہ تهک کر بیٹھ جاتی.
میدان اور ہموار زمین پر چلنے میں اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پہاڑ پر ہوا کرتی ہے اور پھر ایسے پہاڑ پر جہاں نہ کوئی پگڈنڈی ہو نہ راستہ صرف چٹانیں بکهری پڑی ہوں گھڑی میں اوپر چڑھنا اور گھڑی میں نیچے اترنا ہو تو تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے.
ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے طرہ یہ تھا کہ سارا دن چلنے پر بھی ان چٹان کی بھول بهلیوں میں ہی پھنسے ہوئے تھے -
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک ہی چٹان کے گرد چکر کاٹتے رہے.
وہ چٹان سے نیچے اترنا چاہتے تھے مگر راستہ نہ ملتا تھا اس لیے وہ وہیں بھٹک رہے تھے -
بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ چٹان جس پر وہ چڑھے ہوئے تھے کچھ زیادہ لمبی چوڑی نہ تهی.
مگر جب اسے طے کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہے اور اس قدر اونچی ہے کہ اس کے اوپر سے اترنا قریب قریب ناممکن تھا -
اگرچہ کئی روز ان دونوں کو چٹان پر چلتے ہوئے گزر گئے مگر اس پر بھی نیچے اترنے کی کوئی سبیل نہ ملی.
اس عرصہ میں بلقیس کی حالت اور بھی خراب ہو گئی اور پیاس نے اسے پریشان کر دیا وہ تهک کر ایک چٹان پر بیٹھ گئی.
آفتاب نکلا ہوا تھا اس کی زلفیں اس کے چاند سے چہرے پر بکهری ہوئی لہرا رہی تھیں _
بڑهی ہوئی خشکی کی وجہ سے اس کے نازک لبوں پر پپڑیاں جم گئیں تھیں.
وہ تهوڑی دیر بیٹھ کر گر پڑی اور گرتے ہی بے ہوش ہو گئی.
اسمٰعیل خوب جانتے تھے کہ اس کی یہ حالت پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہے.
انہوں نے اسے اسی حالت میں چھوڑا اور پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگا وہ بڑھتے جاتے اور پھر مڑ مڑ کر دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں وہ اٹهہ تو نہیں گئ
جب ان کے درمیان ایک چٹان حائل ہو گئی تو تیزی سے چلنے لگے چٹان پر کوئی ضرور چشمہ یا آبشار ہو گی.
جوں جوں وہ بڑھتے جاتے سبزے سے لدے ہوئے اور چٹانیں ملتی جاتیں ان سبزہ زاروں اور پتهروں کو دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ آس پاس ضرور پانی ہو گا. چلتے چلتے انہوں نے چٹانوں کو دیکھا جو پهٹ گئیں تھیں وہ ڈراڑ سے جھانکنے لگا انہیں اس کی تہہ میں چمک دار سنگ ریزے نظر آئے.
جو بے حد جگمگا رہے تھے وہ سمجھ گئے کہ قدرت نے انہیں انہی جواہرات کے خزانے تک پہنچانا تھا لیکن یہ خزانہ چٹان کی تہہ میں اتنی دور تھا کہ اس کا اندر اتر کر جانا اور واپس آنا ممکن نہیں تھا.
وہ اس شگاف سے آگے بڑھے کچھ دور چل کر انہوں نے پانی کی آبشار کی آواز سنی جو شاید کسی اونچی چٹان سے نیچے گر رہا تھا -
اس مقام پر پانی دنیا بھر کی دولت سے بیش قیمت تها. وہ اس آواز کو سنتے ہی جھپٹ کر چلنے لگے. چٹانوں پر چٹانیں آتی رہیں اور وہ انہیں طے کرتے رہے آخر جب چٹانوں کا سلسلہ ختم ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ قریب ایک اونچی چٹان سے پانی نیچے گر رہا تھا جو تهوڑی دور پتهروں پر بہہ کر نیچے کی طرف بہہ رہا تھا -
پانی بالکل قریب تها وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اگرچہ انہیں زیادہ پیاس معلوم ہو رہی تھی لیکن وہ جانتے تھے کہ بلقیس زیادہ پیاسی ہے انہیں شرم آئی کہ وہ پانی پی لے اس سے پہلے چنانچہ وہ فوراً لوٹے اور نہایت تیزی سے اس طرف چلے جس طرف بلقیس کو نیم بے ہوشی کی حالت میں چهوڑ گئے تھے -
تمام چٹانوں اور پتهروں کو پھلانگ کر وہ اس جگہ آئے جہاں بلقیس کو چهوڑ گئے تھے انہوں نے دیکھا وہ چٹان خالی پڑی ہے جہاں اسے لٹایا تھا -
اس کا دل انجانے خوف سے ڈهڑکنے لگا.
وہ ڈور ڈور کر ادھر ادھر دیکھنے لگے پتهروں اور چٹانوں کے پیچھے درختوں کے اوپر چڑھ کر ادھر ادھر جھانکا مگر وہ کہیں نظر نہ آئی اس کا دل ڈوبنے لگا.
غم و فکر نے آ دبایا.
اب وہ اور تیزی سے ڈورنے لگا مگر وہ کہیں نظر نہ آئی وہ اس کا نام لے لے کر پکارنے لگا مگر کسی طرف سے آواز نہ آئی.
خود ان کی آواز چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر باز گشت پیدا کرتی
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی