فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 15═(خون ریز معرکہ)═

 

فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  15═(خون ریز معرکہ)═
 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رازرق نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر آ گیا ہے اور اب ان کی تعداد قریب قریب دگنا ہو گئی ہے تو اسے بہت افسوس ہوا کہ اس نے آتے ہی کیوں نہ حملہ کر کے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا -
دراصل وہ لڑائی کو اس لئے طول دینا چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو رسد نہ ملے تو وہ کهانے پینے کی تکلیف سے عاجز ہو کر وہ واپس لوٹ جائیں گے - ایک وجہ اور بھی تهی اور وہ یہ کہ شب خون مارنے کی فکر میں بھی تها اور چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو غافل پا کر اچانک ہی ان پر حملہ کر دے مگر مسلمان رات بھر پہرہ دیتے رہے اس لئے وہ شب خون مارنا آسان نہیں تھا -
مسلمانوں کے امدادی لشکر کے آنے سے اسے خوف ہوا کہ اگر جنگ کو طول دیتا رہا تو مسلمانوں کا لشکر برابر آتا رہے گا اس لیے اس نے 2شوال 92 ہجری کی صبح ہی لشکر کو میدان جنگ میں بھیجنا شروع کر دیا -
دونوں لشکر آمنے سامنے درمیان میں تین چار میل کے فاصلے پر تھے -
اس لئے میدان میں سینکڑوں ٹیلے اور پچاسوں نشیبی میدان موجود تھے -
اگرچہ درخت بھی کافی بڑے تھے لیکن ان کی باقاعدہ کوئی قطار نہ تھی ،بلکہ ایک ایک دو دو کر کے مختلف جگہوں پر کھڑے تھے -
عیسائی لشکر کے نقل و حرکت کرتے ہی طبل جنگ زور زور سے بجایا جانے لگا اور سواروں کے دستے صلیبی علم لہراتے قومی نعروں سے آسمان سر پر اٹھاتے میدان میں آ کر صف بستہ ہونے لگے.
مجاہدین اسلام نے بھی صبح نماز فجر سے فارغ ہوتے ہی مسلح ہو کر میدان کارزار میں پہنچنا شروع کیا نیز صفیں قائم کرنے لگے.
مسلمانوں کے پاس فقط سات سو گھوڑے تهے جو کہ تدمیر کے لشکر کو شکست دے کر پکڑے گئے تھے -
ان پر طارق، مغیث الرومی اور دیگر افسران اور وہ سپاہی سوار تھے ۔
پھر ان کے مقابلے پر عیسائیوں کا لشکر زرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں ایک ہزار کے پاس زرہ بھی نہیں تهیں -
عیسائی ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح تھے اور اور مسلمانوں میں سے کسی ایک مسلمان کے بهی پورے ہتھیار موجود نہ تھے -
جو نیا لشکر آیا تھا ان میں سے اکثر و بیشتر مجاہدین ایک خاص قسم کی لاٹھیاں لئے ہوئے تھے 
مسلمان کل بارہ ہزار ہی تهے اور عیسائیوں کی تعداد نوے ہزار سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی.
گویا ایک اور آٹھ کا فرق تھا - ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں برابر کا مقابلہ کسی طرح بھی نہ تھا اور ہر بات میں عیسائیوں کا پلہ بھاری تها لیکن مجاہدین اسلام کو چونکہ اللہ پاک پر اعتماد بھروسہ تھا لہذا وہ اللہ سے فتح کی توقع رکھتے تھے -
جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف بستہ ہو گئے تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک خوش نما بگهی عیسائیوں کے خیمے سے چلی جس میں چار گھوڑے جتے ہوئے تھے اور جو کہ خالص چاندی کی بنی ہوئی تھی حتی کہ پہیے بھی ٹھوس چاندی کے بنے ہوئے تھے -
بگهی پر جو چھتر تھا وہ سونے چاندی کا گنگا جمنی تھا -
اس بگهی میں رازرق سوار تھا اور ریشمی گدیلے پر بیٹھا تھا.
طارق نے صفوں سے باہر نکل کر مسلمانوں سے خطاب کیا -
دلیرو مسلمانوں تم اس بات کا خیال نہ کرو کہ تم کم اور بے سروسامان ہو اور دشمن زیادہ ہونے کے باوجود مسلح بھی ہے.
مسلمانوں کی شان ہی یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ غنیم کے مقابلے میں کم اور بے سروسامان رہے ہیں مگر اللہ نے انہیں ہمیشہ فتح یاب کیا ہے.
پروردگار عالم نے مسلمانوں سے ان کی جانیں مال جنت کے عوض مول لے لئے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے
سورت التوبہ ) ترجمہ : یہ اچھا اور سستا سودا ہے مسلمان خوب جانتے ہیں کہ زندگی عارضی ہے مرنا ضروری ہے پھر شریک جہاد ہو کر کیوں نہ شہید ہوں؟
شہداء کے جنت ہے اور جنت سے زیادہ اچھی چیز کیا ہو سکتی ہے؟ دنیا کی تاریخ مسلمانوں کے کارناموں سے لبریز ہیں -
مسلمان ہر جنگ میں تھوڑے ہوتے ہوئے بھی کامیاب ہوئے اور یہ اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے.
ترجمہ : وہ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے.
سوچو جن کی مدد اللہ کرے وہ کیوں فتح یاب نہ ہوں اللہ تعالٰی اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں : ترجمہ سورت الروم : اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی -
جب اللہ کا یہ صاف اور کهلا ارشاد ہے کہ تو کیوں ہمیں فتح نہ ہو گی؟ ان شاءاللہ ضرور ہو گی-
تم شیروں کی اولاد ہو لڑو اور ان ٹڈی دل بھیڑوں کو ہلاک کر ڈالو -
طارق کی یہ مختصر سی تقریر ختم ہوئی تو عیسائیوں کا لشکر سمندر کے طوفان کی لہروں کی طرح آگے بڑھا ان کوہ پیکر گھوڑوں کی رفتار سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کہ وہ آتے ہی مسلمانوں پر حملہ کر کے انہیں کچل ڈالیں گے -
عیسائی لشکر کی صفیں شرق سے غرب تک حد نگاہ تک پھیلی ہوئی تھیں.
مسلمانوں نے بھی اپنے لشکر کی صفوں کو دور تک پھیلا دیا تھا - طارق نے دائیں طرف مغیث الرومی کو اور بائیں طرف طاہر کو مقرر کیا اور خود درمیان میں رہے.
عیسائی شور و غل کرتے طبل جنگ بجاتے بڑے جوش و خروش سے بڑھتے چلے آ رہے تھے -
طارق نے بھی لشکر کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور مجاہدین نے بھی حرکت شروع کر دی -
دونوں لشکر لشکر طوفان خیر موجوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگے آفتاب کافی بلند ہو گیا تھا اور دھوپ تمام میدان میں پھیل گئی تھی -
مسیحی صفیں بہت زیادہ لمبی تهیں کہ بائیں دستے کو دایاں دستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا - مسلمانوں کی صفیں اتنی لمبی لمبی نہ تهیں -
خیال تھا کہ شاید عیسائی جنگ کی ابتدا نیزوں سے کریں گے -
ان کے حملہ کی شان بتا رہی تھی کہ وہ نیزے تول لئے.
عیسائی پہلے ہی سے نیزے تانے آ رہے تھے -
آخر بڑھتے بڑھتے دونوں لشکروں کا تصادم ہو گیا -
نہایت جوش اور پوری قوت سے نیزے کھینچ کھینچ کر مارے جانے لگے -
عیسائی پہلے ہی سے شور کرتے طبل جنگ بجاتے اور طرح طرح نعرے لگاتے آ رہے تھے -
طارق نے حملہ نے سے تین مرتبہ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تیسرے نعرے کی تکرار تمام لشکر نے کی اور نہایت جوش سے حملہ کر دیا -
نیزے کهٹا کهٹ چلنے لگے جنگ شروع ہوئی.
عیسائیوں نے اندازہ لگایا لیا تھا کہ مسلمان ان سے بہت ہی کم ہیں اتنے کم کہ ان کے سامنے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تهی -
انہوں نے اپنی پوری قوت سے حملہ کیا مگر مسلمان سنگی چٹان کی طرح ڈٹ گئے اور انہوں نے نہایت صبر و استقامت سے ان کے کوہ شکن حملے کو روکا.
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عیسائیوں نے ایک اور حملہ کیا.
مسلمانوں نے اسے بھی روکا اور خود بھی غصہ سے بھر پور جوابی حملہ کر دیا -
اس حملہ میں انہوں نے بہت سے عیسائیوں کو چھید ڈالا.
عیسائی تلملائے اور آہ و فریاد کرتے گھوڑوں کے نیچے گرے-
یہ کیفیت دیکھ کر عیسائیوں کے قدم رک گئے اور انہوں نے غضبناک ہو کر حملے کرنا شروع کر دئے مگر مسلمانوں پر نہ ان کے غصے کا اثر ہوا نہ کہ جوش و خروش کا.
وہ جس استقلال سے لڑتے رہے چونکہ صفیں لمبی لمبی اور دور تک پھیلی ہوئی تھیں. اس لئے لڑائی بھی دور تک پھیلی ہوئی تھی مگر ہنوز فریقین کی پہلی صفیں ہی مصروف جنگ تهیں اور بقیہ صفیں ان کے پیچھے لڑائی کے لیے مستعد کھڑی تهیں - اگرچہ کچھ عیسائی مارے جا چکے تھے کہ اول تو وہ ان کی پہلی صف کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے -
دوسرے ان کے پیچھے پیادوں کی صفیں تهیں اور ان کی خواہش یہ تهی کہ عیسائی سواروں کو پیدل مسلمانوں تک نہ جانے دیا جائے.
چونکہ نیزوں کی لڑائی کچھ زیادہ سود مند نظر نہ آئی اس لئے فریقین نے نیزے پهینک کر تلواریں نکال لیں.
صاف و شفاف تلواریں آفتاب کی روشنی میں جگمگاتی ہوئی اٹھیں اور سروتن کے فیصلے کرنے کے لیے انسانوں کے اوپر جھکیں.
ان خون فشاں تلواروں سے بچنے کے لیے سیاہ ڈھالیں بلند ہوئیں.
اب جنگ نہایت زور و شور سے شروع ہو گئی -
بہادر سر فروش کٹ کٹ کر گرنے لگے.
ہاتھوں پیروں اور سروں کے انبار لگنے لگے اور خون کا دریا بہنے لگا -
جوں جوں آفتاب بلند ہوتا جارہا تھا جنگ کی آگ بھڑکتی جاتی تھی -
عیسائی مسلمانوں پر اور مسلمان عیسائیوں پر جوش و خروش سے اور قوت سے حملے کر رہے تھے -
مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کا قریب قریب صفایا کر دیا تھا - پہلی صف کے سواروں کے مرتے ہی ان کے گھوڑے بے قابو ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے پہلی صف کے سواروں نے پکڑنا اور ان پر سوار ہو کر لڑنا شروع کر دیا -
اب کوئی باقاعدہ نظام یا ضابطہ باقی نہ رہا تھا -
مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائی مسلمانوں گھس گئے تھے نہایت خون آشام جنگ ہو نے لگی.
تلواروں کے جلد جلد اٹھنے سے دور تک تلواروں کا کھیت آگا ہوا نظر آتا تھا -
خون آلود تلواریں خون کے چھینٹے اڑاتی بلند ہو ہو کر جھک رہیں تھیں اور بڑی پھرتی سے انسانی زندگی کو تاراج کر رہی تھیں. مسیحی برابر غل مچا رہے تھے اور زود زور سے طبل جنگ بجا رہے تھے -
ساتھ ہی زخمی آہ و فغاں کر رہے تھے -
ان کی مختلف آوازوں سے نہ صرف میدان جنگ گونج رہا تھا بلکہ میدان سے باہر دور دور تک شور سنائی دے رہا تھا.
عیسائی جوش و خروش و غضب سے بھرے ہوئے نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے چاہتے تھے کہ جلد از جلد مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں.
مگر مسلمان گویا لوہے کے بن گئے تھے وہ نہ مرتے تهے اور نہ ہی پیچهے ہٹتے تهے بلکہ نہایت استقلال اور بڑی جوانمردی سے لڑ رہے تھے -
ان میں سے ہر شخص جس عیسائی پر حملہ کرتا اسے قتل کئے بغیر نہ چهوڑتا.
اِن کی تلواریں اُن کی ڈھالوں کو پھاڑ کر ان کے سروں کو کاٹ ڈالتی تهیں -
ہر مجاہد خون خوار شیر بن گیا تھا اور عیسائی بھیڑوں کو چیر ہهاڑ رہا تھا -
ایک طرف مغیث الرومی اور دوسری طرف طاہر تهے - دونوں بڑی پھرتی سے لڑ رہے تھے -
وہ جس طرف حملہ کرتے تھے عیسائیوں کو مار مار کر بچها دیتے تھے. انہوں نے کثیر تعداد دشمنوں کو موت کی نیند سلا دیا. مگر سب سے زیادہ جوش سے طارق لڑ رہے تھے -
ان کے ہاتھ میں اسلامی علم تھا اور دوسرے میں تلوار. وہ علم سنبھالے ہوئے خونخوار حملے کر رہے تھے -
اور کسی شخص کو مارے بغیر پیچهے نہ ہٹتے تهے. چشم زدن میں صفوں کو الٹ دیتے اور جس پر حملہ کرتے اسے ڈھیر کئے بنا دم نہ لیتے.
وہ کچھ اس شان سے لڑ رہے تھے کہ عیسائیوں کے دلوں پر ان رعب ان کی طاری ہو گیا وہ ان کے سامنے جاتے ہوئے ڈرنے لگے تھے -
اب دوپہر ڈھلنے لگی تھی -
آسیائے جنگ اور بھی تیزی سے گھومنے لگی تھی اور سر فرش اس میں پسنے لگے تھے - چونکہ اکثر صفیں ٹوٹ کر مخلوط ہو گئ تهیں اور عیسائی مسلمان آپس میں گھس گئے تھے، اس لیے مسلم پیدل پلٹنیں بھی حملہ آور ہوگئی تھیں 
عیسائیوں کا خیال تھا کہ پیدل مسلمانوں کو گھوڑوں سے ہی کچل دیں گے مگر جب حملہ کیا تو مسلمان پیادوں نے نیزے مار مار کر سواروں اور گھوڑوں کو زخمی کرنا شروع کر دیا -
مسیحی سمجھ گئے کہ پیدل کا مارنا سواروں سے بھی زیادہ دشوار ہے،
پیدل مسلمان نیزوں سے لڑ رہے تھے -
وہ جس گھوڑے کو کو نیزہ مارتے وہ جس سوار پر حملہ کرتے اس کی زرہ پھاڑ کر نیزوں کی انیاں پسلیوں کو توڑ کر پار ہو جاتیں اور وہ چیخیں مار مار کر گر جاتے تھے -
عیسائی کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے - جگہ جگہ انسانی اعضاء اور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے -
یہاں تہاں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں _
عیسائی دیکھ رہے تھے کہ مسلمان خونخوار شیروں کی طرح حملہ کر کے ان کو ٹھکانے لگا رہے تھے اور خود اس قدر کم مرتے ہوئے بھی معلوم نہیں ہو رہے تھے کہ اگر کبھی ایک آدھ مسلمان شہید بهی ہو جاتا تھا تو کم سے کم پندرہ بیس عیسائیوں کو جہنم واصل کر چکنے کے بعد! !!!شام تک اسی جوش و خروش کے ساتھ جنگ ہوتی رہی سر فروش لڑ لڑ مرتے رہے اگرچہ فریقین اس کوشش میں رہے کہ جنگ کا فیصلہ آج ہی ہو جائے گا - لیکن نہ ہو سکا اور آفتاب غروب ہو گیا -
مجبور ہو کر ہر دو فریق الگ الگ ہوئے اور رات بسر کرنے کے لیے اپنے خیمے کی طرف لوٹ گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی