🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم بیان کر چکے ہیں کہ بلقیس کو تدمیر نے آزاد کر دیا تھا اور وہ لشکر میں جہاں چاہتی جا سکتی تھی وہ اپنے خیمے سے باہر نہ نکلتی تھی، بلکہ ہر وقت اندر ہی رہتی تھی - جب لشکر کوچ کرتا تو وہ بھی سپاہیوں کے ساتھ چل پڑتی مگر وہ خوب جانتی تھی کہ اسے رازرق کے پاس لے جایا جا رہا ہے اور وہ اس سے شدید نفرت کرتی تھی، اتنی نفرت کہ وہ اس کے پاس جانے کی بجائے موت کی آغوش میں جانا پسند کرتی تھی-
اس لیے وہ اس تاک میں تهی کہ کہیں کوئی موقع ملے تو وہ اور اسمٰعیل اس کی دسترس سے بھاگ نکلیں.
چنانچہ اس نے ایک مرتبہ پہاڑ کے اوپر اسمٰعیل کو متنبہ کر دیا تھا -
جس روز روز رات کو عیسائیوں کا لشکر دامن کوہ میں جا کر ٹهہر اس نے تہیہ کر لیا کہ آج ضرور بھاگ نکلے گے چنانچہ وہ کهانا کها کر جلدی ہی سو گئی تھی - اس کے خیمے کے سپاہیوں نے جھانک جھانک کر دیکھا-
انہیں اطمینان ہو گیا اور وہ بھی خیمے کے سامنے ہی پڑ کر سو گئے-
ٹھیک آدھی رات کے وقت بلقیس کی آنکھ کھل گئی اور وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی اس کے خیمے کے اندر اندھیرا ہو رہا تھا -
وہ آہستہ سے اٹھی اور بے آواز قدموں سے باہر نکل آئی چاند نکل رہا تھا اور چاندنی چٹک رہی تھی -
اس نے دیکھا کہ اس کے محافظ غفلت کی نیند سو رہے تھے -
اور ان کی تلواریں ان کے پہلوؤں میں پڑی تھیں، چونکہ آدھی رات کا وقت تھا اس لیے ہر طرف سکوت مرگ چھایا ہوا تھا اور ہر ذی روح آرام کر رہا تھا -
ہوا بند تهی نیز درخت اپنی شاخیں سمیٹے محو خواب تهے - اس وقت کائنات کے ذرے ذرے پر مہر خاموشی لگ چکی تھی -
چاند آسمان کے دریچوں سے جھانک رہا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ دنیا والے تمام کاموں اور ساری باتوں سے بے نیاز ہو کر گہری نیند میں پڑے سو رہے تھے -
بلقیس واپس لوٹی اس نے شب خوابی کے کپڑوں کے اوپر اپنی پوشاک پہنی اور پنجوں کے بل چل کر دروازہ پر آئی-
محافظ ابهی تک پڑے خراٹے لے رہے تھے - وہ ایک قدم نہایت ہوشیاری سے تهم تهم کر رکھتی کچھ جھکی ہوئی خوفزدہ نگاہوں سے محافظ کو دیکھتی خیمہ سے باہر نکل آئی-
چند منٹ کا فاصلہ اس نے کئی منٹ میں طے کیا چونکہ محافظ عین دروازے کے سامنے پڑے سو رہے تھے اس لیے وہ اپنی قبا کے دامن سمیٹ کر ان کے پاس سے گزرنے لگی جب وہ ان سے دو قدم آگے بڑهی تو دفعتاً اسے خیال آیا وہ پھر واپس لوٹی اور ایک سپاہی کی تلوار اٹها لی اور نہایت آہستگی اور ہوشیاری سے چلی.
وہ بخریت محافظوں کے درمیان سے گزر گئی اور اب خیموں کی آڑ لے کر اس کی طرف چلنے لگی جس طرف اسمٰعیل تهے - اس نے دن میں ہی دیکھ لیا تھا کہ اسمٰعیل کو کس طرف رکھا ہے وہ اسی طرف چلی گئی جب اس جگہ پہنچی تو اس نے دیکھا کہ محافظ اور اسمٰعیل سب غافل پڑے سو رہے ہیں -
اس نے دن میں اسمٰعیل سے کہہ دیا تھا کہ وہ رات کو ہوشیار ہو کر سوئیں لیکن وہ غفلت میں تهے اسے بڑا افسوس ہوا ۔
عیسائی قیدی کی حفاظت بھی عجیب طریقہ پر کرتے تھے، وہ ان کے ہاتھوں میں سوتی رسے باندھ کر اپنی کمر کے گرد لپیٹ لیتے تھے تاکہ اسمٰعیل اگر زرا بھی حرکت کریں تو ان کی آنکھ کهل جائے حسب دستور آج بھی وہ اسی طرح سے بندھے پڑے تھے -
بلقیس نے قریب جا کر نہایت آہستہ سے کها نسا ان کے سرہانے بیٹھ گئی اور جھک کر تلوار سے رسے کاٹنے لگی.
مگر جھک کر اتنا قریب ہو گئی کہ اسے اپنے رخساروں پر اس کا سانس محسوس ہوا.
ایک ہی منٹ میں بلقیس نے دونوں رسے کاٹ دیے اور اسمٰعیل کو اٹھنے کا اشارہ کیا اسمٰعیل خوب جانتے تھے کہ زرا بھی بے احتیاطی ہوئی تو پہرے دار جاگ جائیں گے.
اس لئے وہ نہایت احتیاط سے اس طرح اٹھے جس طرح کوئی ماں اپنے بچے کے اُٹھ جانے کے خوف سے نہایت آہستگی اور بڑی احتیاط سے اٹها کرتی ہے
وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور خوش قسمتی سے پہرے داروں کی آنکھ نہ کھلی.
انہوں نے مسرت سے خوش ہو کر بےخودی میں اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر دباتے ہوئے کہا
شکریہ رشک حور.
بلقیس نے انگشت شہادت سے اپنے نازک لبو ں پر انگلی رکھ کر اسے خاموشی کا اشارہ کیا اور کہا برائے مہربانی یہاں سے چلیے.
وہ چپ چاپ وہاں سے نکل آئے اور دبے قدموں چاندنی اور سپاہیوں بچتے ہوئے پہاڑ کی طرف جانے لگے.
چونکہ تمام سپاہی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اس لیے اس قدر سکون تھا کہ زرا سے کھٹکے کی آواز بھی دور تک سنائی دیتی.
یہ دونوں خاموشی سے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کچھ دور چل کر اسمٰعیل نے اپنا ہاتھ بلقیس کے شانے پر رکھا اور اسے روکا وہ رک گئی.
انہوں نے اس کان میں کہا تم یہ تلوار مجھے دے دو
بلقیس نے بھی اسی کے لہجے میں کہا تم اس کا کیا کرو گے؟
اسمٰعیل :اگر کوئی اجل رسیدہ بیدار ہو گیا تو میں اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دوں گا بلقیس مگر ممکن ہے اس سے اور لوگ جاگ جائیں.
اسمٰعیل :تم فکر نہ کرو میں اس کا استعمال صرف اس وقت کروں گا جب کوئی چارہ نہیں ہو گا.
بلقیس : ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں.
اس نے تلوار دے دی اسمٰعیل نے اسے لے کر تولا بلقیس نے جلدی سے کہا یہ کیا کرنے لگے ہیں آپ؟
اسمٰعیل :گھبرا و نہیں میں تلوار کو جانچ رہا تھا -
بلقیس :مہربانی کر کے اس وقت جانچنا بھی بند کر دیجئے.
اسمٰعیل :بہتر ہے تمہارے حکم کی تعمیل کرنا ہی پڑے گی-
بلقیس :نے ہوش ربا نگاہوں سے اسمٰعیل کو دیکھا اور مسکرانے لگی-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
اب اسمٰعیل آگے ہو گئے اور بلقیس پیچھے مگر صرف ایک قدم کے فاصلے سے دونوں آگے پیچھے چل کر خیریت سے لشکر کے کنارے پر نکل آئے.
دونوں کو اس سے بڑی مسرت ہوئی اب انہوں نے اپنی رفتار زرا تیز کر دی اور اس احتیاط کا خیال نہ رکھا جو کہ خیموں میں کرتے رہے تھے چند قدم ہی چلے تھے کہ اسمٰعیل کا پیر ایک سپاہی کے اوپر جا پڑا وہ گھبرا کر اٹھا اور بڑبڑاتے ہوئے بولا کون بیوقوف ہے.
اس کے بولتے ہی اسمٰعیل نے تلوار اٹھائی وہ تلوار کی چمک دیکھ کر گهگهیا گیا اور ہاتھ جوڑتے ہوئے اسمٰعیل کی طرف دیکھنے لگا -
پہلے تو وہ کچھ نہیں سمجھا تھا کہ نیند سے بیدار ہوا تھا مگر اب جو اس کی نظروں ان کے لباس اور چہرے پر پڑی تو وہ کانپ گیا.
اس نے کہا رحم کیجئے آہ رحم. اسمٰعیل خوب جانتے تھے کہ نہ وہ اس کی بات سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کی اس لئے گفتگو کرنا دوسروں کو بیدار کرنا ہے-
انہوں نے اشارہ سے اسے خاموش رہنے کو کہا چپ اور وہ چپ ہو گیا.
یہ دونوں بڑهہ کر خیموں سے باہر نکل آئے مگر سپاہی اس قدر خوفزدہ تھا کہ پهر بھی شور کرنے کی جرات نہ ہوئی اور وہ نہایت سکون سے پڑا رہا.
یہاں تک کہ پھر سو گیا.
صبح ہوتے ہی اس نے اس واقعہ کا ذکر کسی سے اس لئے نہیں کیا کہ تدمیر اس کی بزدلی پر اس قتل کر ڈالے گا -
اسمٰعیل اور بلقیس دونوں میدان کو طے کر کے پہاڑ پر چڑھنے لگے چونکہ وہ اب لشکر سے کافی فاصلے پر آ گئے تھے - اس لئے انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اب اسمٰعیل نے کہا پری جمال دوشیزہ اب تو میں تمہارا شکریہ ادا کر سکتا ہوں.
بلقیس نے شوخی سے مسکراتے ہوئے کہا جی نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
اسمٰعیل سمجھ گئے کہ بلقیس اتنی سیدھی سادی بھولی بھالی معصوم نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس نہایت شوخ اور پرلے درجے کی شریر ہے.
چونکہ وہ گرفتار تهی اس لیے بھولی اور سیدھی نظر آتی تھی.
انہوں نے کہا مگر مجھے شکریہ تو ادا کرنا ہی چاہیے.
بلقیس نے دلربا انداز میں کہا مگر آپ شکریہ ادا ہی کیوں کریں.
اسمٰعیل :کیا تم نے قابل تعریف کام نہیں کیا؟
بلقیس :بالکل نہیں
اسمٰعیل :مگر____؟
بلقیس :بس خاموش رہیے اسمٰعیل نے اس کے چہرے پر نظریں جما کر کہا بہت شوخ ہو تم.
اسی طرح ہلکی پھلکی تکرار کرتے ہوئے اب یہ دونوں پہاڑ کی اونچی چٹان پر چڑھنے لگے تھے -
اگرچہ چاندنی نے سارے پہاڑ پر سفید چادر بچھائی ہوئی تھی مگر یہ دونوں آپس میں اس قدر مگن ہو کر باتیں کرتے آ رہے تھے - نہ انہوں نے درے کو دیکھا نہ گھاٹی ک درے کو دیکها اور نہ گھاٹی کو بلکہ سیدھی چٹان پر چڑھنے لگے اس چٹان پر جو سب سے زیادہ اونچی اور سیدھی تهی کہ دن میں بھی کوئی اس پر چڑھنے کی جرات نہ کرتا.
اسمٰعیل آگے تهے اور بلقیس پیچھے سہارا لئے چلی جا رہی تھی -
جب وہ اس کی چوٹی پر پہنچے تو چاند چھپنے لگا تھا اور صبح صادق کے آثار نکل آئے تھے.
اسمٰعیل نے کہا اب صبح ہو رہی ہے غالباً عیسائی ہمیں نہ پا کر ہمارے تلاش میں نکلیں گے مگر یہ ہم کہاں چڑھ آئے ہیں زرا جھانک کر دیکھیں.
اسمٰعیل نے چونک کر دیکھا اور حیران ہو گیا اور چٹان سے کئی سو فٹ نیچے انہوں نے حیران ہو کر کہا یہ ہم کہاں آ گئے ہیں؟
بلقیس خیر اب آ گئے ہیں تو مگر اتریں گے کیسے؟
اسمٰعیل جو اللہ ہمیں یہاں لایا ہے وہی ہمیں نیچے بھی لے جائے گا.
دیکهو آفتاب مشرق سے جھانکنے لگا ہے اور عیسائی اٹھنے لگے ہیں چلو پیچھے ہٹ جائیں.
اس وقت آفتاب طلوع ہونے لگا تھا عیسائی اُٹھ کر ادھر ادھر پهر نے لگے.
یہ دونوں پیچھے ہٹ گئے اور ایک اونچے پتهر کے پیچھے چلے گئے چونکہ پہاڑ کی چوٹی سب سے اونچی تهی اس لئے کسی کو خیال بھی نہ ہوا کہ وہ دونوں وہاں ہو سکتے ہیں عیسائی انہیں تلاش کر کر کے وہاں سے چلے گئے اور انہوں نے اس چوٹی کو نہ دیکھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔