فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 12═(شاہی لشکر)═


 فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  12═(شاہی لشکر)═

 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تدمیر نے ہر چند اسمٰعیل اور بلقیس کو تلاش کیا لیکن وہ دونوں ایسے غائب ہوئے کہ ان کا کہیں سراغ ہی نہ ملا-
جب یہ لوگ انہیں تلاش کرتے کرتے تھک گئے تب مجبور ہو کر روانہ ہوئے اور سیدھے قرطبہ کی طرف چل پڑے-
درمیانی میدان کو طے کر کے وہ دریا وادی الکبیر پر پہنچے.
اندلس میں دو ہی دریا بڑے ہیں ایک ٹیگس اور دوسرا وادی الکبیر، مگر یہ دونوں کچھ ایسے نشیب میں بہتے ہیں کہ ان سے آبپاشی نہیں کی جا سکتی ،اور اس کے لیے ان دریاؤں سے ملک کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہے - انہوں نے وادی الکبیر کو عبور کیا اور اب اب قرطبہ کی طرف بڑھے-
انہیں معلوم ہوا کہ رازرق نوے ہزار لشکر لے کر آ گیا ہے اور قرطبہ میں مقیم ہے، چونکہ دریائے الکبیر سے قرطبہ کچھ دور نہیں اس لئے یہ بھی جلد ہی وہاں پہنچ گئے-"
شاہی لشکر شہر سے باہر خیمے ڈالے پڑا تھا-
جہاں تک نظر جاتی خیموں کا ایک شہر آباد ہوا نظر آ رہا تھا - رازرق قرطبہ میں ٹھہرا ہوا تھا - تدمیر بھی لشکر کے کنارے جا ٹھہرا-
اس کے آنے کی اطلاع قریب قریب تمام سپاہیوں اور افسروں کو ہو گئی -
سب کو اس کی آمد سے خوشی ہوئی تھی - رازرق کو بھی معلوم ہو گیا - اسے اشتیاق تھا اس عربی کو دیکھنے کا جس کی بابت تدمیر نے اپنے عریضہ میں لکھا تھا کہ اس نے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا ہے مگر وہ سب سے زیادہ بلقیس کے دیدار کا اشتیاق رکھتا تھا -
تدمیر کے آنے کی اطلاع ملتے ہی وہ اٹھ کهڑا ہوا اور چند افسروں کو ساتھ لے کر شہر سے باہر نکلا-
اس کے باہر آتے ہی سارے لشکر میں ہلچل مچ گئی سب ہوشیار اور مستعد ہو گئے - چونکہ یہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ بادشاہ باہر کیوں آیا ہے اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ لشکر میں کس طرف آئے گا اور اس لیے تمام فضولیات چھوڑ چھاڑ کر استقبال کے لیے مستعد ہو گئے -
رازرق نے لشکر میں آتے ہی یہ دریافت کیا کہ تدمیر کہاں ہیں؟ ایک آفیسر نے اسے بتا دیا اور وہ اسی طرف روانہ ہو گیا -
کسی نے تدمیر سے جا کر کہا کہ بادشاہ اس طرف آ رہا ہے وہ جلدی سے جنگی لباس پہن کر خیمے سے باہر نکلا اور بادشاہ کی طرف چل پڑا -
لیکن اسے چلنے میں دیر ہو گئی اور ابهی وہ لشکر سے باہر ہی نکلا تھا کہ سامنے سے رازرق اور اس کے ساتھی گھوڑوں پر سوار ہوئے نظر آئے-"
تدمیر وہیں کهڑا ہو گیا اور جب بادشاہ اس کے پاس آیا تو اس نے گھوڑے کی زین پر سجدہ کی شان میں جھک کر سلام کیا-
رازرق نے رک کر کہا دریافت کیا-"
پھر تو تمہارا مقابلہ اس عجیب قوم سے نہیں ہوا جس کا تم نے اپنے عریضہ میں لکھا تھا - "
تدمیر : نہیں حضور
رازرق:آخر وہ لوگ آئے کہاں سے ہیں؟
تدمیر :حضور کوئی نہیں جانتا کہ وہ آسمان سے اترے ہیں یا زمین کے اندر سے نکلے ہیں-"
رازرق :کتنے لوگ ہیں وہ؟ "
تدمیر : میں نے صحیح اندازہ تو نہیں لگایا لیکن سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔
رازرق نے مسکرا کر کہا - " بس اسی قدر ہیں،
تدمیر : جی ہاں لیکن وہ اتنے بھی بہت کافی ہیں
رازرق: اس لیے کہ تم انہيں زیادہ بہادر سمجھتے ہو-
تدمیر : بہادر جہاں پناہ میں نے آج تک ان سے زیادہ بہادر اور شجاع لوگ دیکهے ہی نہیں-"
رازرق:خوب لڑتے ہیں،
تدمیر : ایسے لڑائی میں مشغول ہوتے ہیں جیسے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں-
رازرق:گویا لڑائی کو تفریح سمجھتے ہیں
تدمیر : یہی بات ہے حضور-
رازرق : وہ پیدل تهے یا سوار؟ "
تدمیر : جہاں پناہ پیدل تهے پر ہمارے گھوڑوں سے زرا نہ ڈرے-
رازرق: اس جنگ میں تمہارے کتنے آدمی مارے گئے؟
تدمیر : اس کا بھی حساب نہیں لگایا جا سکتا مگر خیال ہے کہ بارہ تیرہ سو عیسائی مارے گئے ہیں -
رازرق:اور ان کے کتنے مرے؟
تدمیر :حضور وہ مرنا کہاں جانتے ہیں وہ تو ایسی بلائیں ہیں کہ شاید موت بھی ان سے ڈرتی ہے میں نے تو ایک کو بھی مرتے نہیں دیکھا-"
رازرق: عجیب بات ہے -
تدمیر : ان کی تمام باتیں عجیب تر ہیں،
رازرق: تم نے ان کا ایک ہی آدمی گرفتار کیا تھا؟ "
تدمیر : وہ بھی بہت مشکل اور تدبیروں سے-
رازرق : شاید وہ تمہارے نرغے میں آن پھنسا تھا -
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
تدمیر : جی ہاں جب شکست ہوئی تو میں پچاس ساٹھ آدمیوں کو ساتھ لے کر بھاگا اور اپنے خیمے میں پہنچا تاکہ بلقیس کو لے کر بھاگ نکلوں-
رازرق: مگر اس عجیب قوم کے لوگوں نے تمہارا راستہ روک لیا.
تدمیر : نہیں حضور بلکہ ان کا ایک آدمی بلقیس کو لے کر خیمے سے باہر نکلا-
رازرق گویا وہ بلقیس کو لے جانا چاہتا تھا؟ -
تدمیر : جی ہاں!
رازرق :اور بلقیس___؟
تدمیر : وہ بھی اس کے ساتھ جانے پر آمادہ تهی -
رازرق :اچھا پھر کیا ہوا؟
تدمیر : جب ہم پہنچے تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو گیا -
رازرق :انتہائی حیرت سے وہ تنہا اتنے آدمیوں کے مقابلے پر آمادہ ہو گیا -؟
تدمیر : نہ صرف آمادہ ہو گیا بلکہ لڑنے لگا-
رازرق :تعجب کی بات ہے -
تدمیر : حضور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس نے اکیلے ہمارے اکیس آدمیوں کو مار دیا-
رازرق :جب تو وہ واقعی بہادر ہیں-
تدمیر : اور کمبخت خود زخمی تک نہ ہوا-
رازرق :پھر تم نے اسے کیسے گرفتار کیا؟ -
تدمیر : میں نے بلقیس کو جا پکڑا بلقیس نے چیخ ماری تو اس کی آواز سنتے ہی وہ بے قرار ہو گیا اور میری جانب لپکا اور جو لوگ حملہ کر رہے تھے ان کی طرف سے غافل ہو گیا پھر سپاہیوں نے اسے دبوچ لیا-
رازرق :بہت خوب تدبیر کی تم نے اچھا چلو میں اس کو دیکھنا چاہتا ہوں -
تدمیر : لیکن حضور وہ____"
رازرق :کیا تم نے اسے قتل کر ڈالا؟ "
تدمیر : نہیں جناب بلکہ وہ غائب ہو گیا ہے تدمیر نے سارا واقعہ سنایا لیکن ابھی بلقیس کی غائب ہونے کا نہیں بتایا.
رازرق :بلقیس کہاں ہے؟ "
تدمیر : جناب وہ اسے بھی ہمراہ لے گیا ہے-
رازرق کو یہ سن کر غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا -
اس نے درشت لہجے میں کہا-"تم نے حفاظت نہیں کی ضرور کوتاہی کی ہو گی جبھی وہ دونوں بھاگ نکلے ہیں-
تدمیر : حضور ان کم بختوں کی حفاظت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی اس کمبخت جن کو ہر وقت قید میں بندھا ہوا رکھا جاتا تھا لیکن پھر بھی آزاد ہو گیا خود بھی بھاگ گیا اور بلقیس کو بھی لے گیا-
رازرق :پھر تم نے تلاش نہیں کیا ان کو؟ "
تدمیر : تین روز سے برابر تلاش کرتے رہے مگر کہیں نہ پتا چلا-
رازرق :افسوس ایک بے نظیر حسینہ کو تم نے اپنے ہاتھوں سے کهو دیا.
تدمیر : میں بے حد نادم ہوں حضور.
رازرق :نے زرا جوش کے لہجہ میں کہا - "سنو تدمیر !ان جنوں یا انسانوں کی مہم سے فارغ ہو کر تمہارا سب سے پہلا کام ہے کہ تم اس رشک حور کو تلاش کرو-"
تدمیر :میں نے خود بھی یہی سوچ لیا ہے،
رازرق :اچھا کل ہی لشکر کو کوچ کا حکم دو.
تدمیر : بہتر ہے-
رازرق واپس چلا گیا - تدمیر نے اپنے آدمی لشکر کے تمام افسروں کے پاس بهیج دئیے مگر شاہی حکم کی اطلاع دے دی-
دوسرے روز زرا دن چڑھے رازرق تمام لشکر کے ساتھ دریائے وادی الکبیر کی طرف روانہ ہوا -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی