ابن آدم نے مجھے جھٹلا یا


 💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖


بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ،  عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:

’’ قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ : کَذَّبَنی ابْنُ آدَمَ،  وَلَمْ یَکُنْ لہٗ ذٰلِکَ،  وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ۔ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہٗ اِیَّایَ،  فَقَوْلُہٗ : لَنْ یُّعِیْدُنِیْ کَمَابَدَاَنِی،  وَلَیْسَ اَوَّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہِ۔  وَاَمَّاشَتْمُہٗ اِیَّایَ، فَقَوْلُہٗ : اتَّخَذَاﷲُ وَلَداً،  وَاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ،  وَلَمْ یَکُنْ لِی کُفُواً اَحَدٌ ‘‘۔

رواہ البخاری (وکذلک النسائی)

ترجمہ: حضر ت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے رو ایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرما یا :

’’اﷲ تعالیٰ ارشاد فر ما تے ہیں : ابن آدم نے مجھے جھٹلا یا حالانکہ اسے اس با ت کا حق نہیں پہنچتا تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ اسے اس بات کا بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔ اس کا مجھے جھٹلا نا تو یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکیں گے !جیساکہ مجھے پہلے پیدا کیا! حالانکہ پہلی مر تبہ پیدا کر لینا دوسر ی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں تھا! اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بے نیا ز ہوں۔  نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی میں کسی سے جنا گیا ہوں اور نہ ہی میرا کوئی ہمسر ہے!‘‘۔

(بخاری۔ نسائی)

تشریح: شکایت کا کیسا پیار بھرا انداز ہے۔آقا اپنے بند ے سے، خالق اپنی مخلو ق سے اور مالک اپنے مملوک سے محبوبانہ شکوہ کر رہا ہے۔ جس میں دلائل سے مطمئن کرنے کا انداز بھی ہے اور جذبات کو ابھار کر عار دلانے اور شرم کا احساس پیدا کرنے کا اسلوب بھی !۔ابن آد م کے لفظ سے انسان کو اس کی اصلیت یا د دلا ئی گئی ہے کہ تمہارے جد امجد کو میں نے مٹی سے پیدا کر کے شرف انسا نیت سے نوازا۔  عدم سے وجود بخشا۔  حسن و  خوبصورتی کا اعلیٰ نمو نہ بنا یا اور مسجو دِ ملائکہ بنا کر رفعت و بلندی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ گو یا یہ کچھ بھی نہیں تھا، میں نے اسے سب کچھ بنا د یا۔  تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا،میں نے صدر نشین محفل بنا دیا۔  میرے اسی نمک خوار کا بیٹا میر ے بارے میں اس قسم کی گفتگو کر رہا ہے!؟ اپنے اختیارات اور اپنی حیثیت سے تجاوز کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر یہ اپنے اوپر اور اپنے جدا مجد پر میرے احسانا ت ہی کو سوچ لے تو اسے ایسی حرکت سے باز رکھنے کے لئے یہی کافی ہے !۔ ’’جھٹلانے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کروں گا اور یہ حیات بعد الموت کا انکار کرتا ہے گویا میرے دعوے کو جھٹلا رہا ہے۔انسان اپنی حیثیت میں غور کرے تواسے اس قسم کی بات کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔  پھر یہ سوچے کہ جس اﷲ نے اسے پہلے بغیر کسی سابقہ نقشہ یا نمونے کے پیدا کر لیا بھلا اس کے لئے بنائی ہوئی چیز کو دوبارہ بنا لینا کون سا مشکل ہے ؟ اگراسے یہ مشکل نظر آتا ہے تو یہ غور کرے کہ پہلے پیدا کرنا کون سا آسان کام تھا؟ اور یہ مشکل اورآسان تو انسانی نکتہ نگاہ سے ہے، اﷲ تعالیٰ کے لئے تو سب برابر ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے : ماخلقکم ولابعثکم الا کنفس واحدۃ۔

’’گالی دینے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ صمد اور بے نیاز ہے، بے مثل اور بے مثال ہے۔نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے۔ مگر انسان کی ناسمجھی دیکھئے کہ کوئی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ عزیر علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں۔  فرمان باری تعالیٰ ہے : وقالت الیہود عزیر ابن اﷲ وقالت النصاری المسیح ابن اﷲ ( یہودیوں نے کہا کہ عزیر اﷲ کے بیٹے اور نصرانیوں نے کہا کہ مسیح ا ﷲ کے بیٹے )۔ عزیر علیہ السلام بھی انسان تھے اورمسیح علیہ السلام بھی انسان تھے اور اﷲ تعالیٰ غیر انسان ہیں۔ بھلا غیر انسان کے ہاں انسان کا پیدا ہونا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ واجب الوجود ہیں، ان کی جنس کا کوئی دوسرافرد ہوہی نہیں سکتالیکن اگر بالفرض والتقدیر ان کی اولاد ہو بھی تو وہ انہی کی جنس سے ہونی چاہیے تھی۔ ا ﷲ کے گھر میں انسان یعنی غیر جنس کا پیدا ہونا بہت بڑا عیب ہے۔ جس طرح انسان کے گھر میں غیر انسان یعنی ’’بھیڑ ‘‘یا ’’بکری ‘‘کا پیدا ہو جانا بہت بڑا عیب ہے بلکہ اگر کہیں اس قسم کا واقعہ پیش آ جائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا اور اگر کسی انسان کو اس کے گھر میں کسی دوسرے جانور کا بچہ پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو وہ اسے انتہائی معیوب اور اپنے لئے باعث ہتک اور باعث ننگ و عار سمجھے گا۔تو انسان نے اﷲ تعالیٰ کے ہاں انسان کی پیدائش کو کیسے ممکن سمجھ کر باور کر لیا؟؟یہ تو بہت بڑا عیب اور بہت بڑی گالی ہے۔قرآن کریم میں ہے : تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھداo ان دعواللرحمن ولدا o وماینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا o (آسمان اس سے پھٹنے لگا۔زمین میں شگاف پڑنے لگے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گرنے لگے ان کے رحمن کے لئے اولاد کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے۔ رحمن کی شان کے لائق ہی نہیں کہ وہ اولاد کو اپنے لئے بنائے )۔لہٰذا اﷲ تعالیٰ کے لئے اولاد کو ثابت کرنے کی کوشش دراصل اﷲ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ اور کائنات کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے اور اولاد ملکیت نہیں بن سکتی۔ اس طرح اس کی ملکیت میں بھی نقص لازم آئے گا بلکہ اگر اولاد ہو گی تو اس کی شریک کار بھی سمجھی جائے گی جبکہ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، وہ صمد اور  بے نیاز ہے،اس کا کوئی ہمسر نہیں۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی