💖💘💞 درسِ حدیث 💞💘💖
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمَ
عَنْ زَیْدِبْنِ خَالِدٍالْجُہْنِی رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ:۔
صَلّیٰ لَنَارَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، صَلاَ ۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ، عَلیٰ اِثْرِ سَمَائٍ(۱)کَانَتْ مِنَ اللَّیْلَۃِ۔ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، اَقْبَلَ عَلیَ النَّاسِ، فَقَالَ لَہُمْ : ’’ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ، قَالَ : اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُومِنٌ بِی وَکَافِرٌ، فَاَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِہِ، فَذٰلِکَ مُومِنٌ بِی، کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ۔ وَاَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئٍ (۲) کَذَا وَکَذَا، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِی، مُومِنٌ بِالْکَوْکَبِ‘‘۔
رواہ البخاری (وکذلک مالک والنسائی)۔
(۱) عصب مطر
(۲) النوء : الکوکب: ربطوا نزول المطر بہ۔ واﷲ خالق الکوکب ومسبر لکل الظواھر الطبعیۃ
ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :۔ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر فجر کی نماز پڑھا ئی۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا !’’تم جانتے بھی ہو کہ ہمارے پروردگار نے کیا فر ما دیا؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا کہ ’’اﷲاوراس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ ’’میرے بعض بندے مجھ پر ایمان لانے والے ہو گئے اور بعض کفر کرنے والے ہو گئے۔ جس نے کہا کہ اﷲ کے فضل اوراس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جس نے کہا کہ فلا ں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرا انکار کر نے والا ہے۔ ‘‘
(بخاری۔ موطا۔ نسا ئی )
تشریح : اس مبارک حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سفروحضر میں اصلاح وتر بیت کے کسی بھی موقع کو ہا تھ سے نہیں جا نے دیتے تھے اور صحابہ کرام کی بر وقت رہنما ئی کر کے اپنے فرض منصبی کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتے تھے۔
زمانہ جا ہلیت میں لوگوں میں یہ نظر یہ پایا جا تا تھا کہ ہر نئے پیش آمدہ واقعہ کو آسما نی ستاروں کا کر شمہ سمجھا جا تا اور یہ خیال کیا جا تا کہ فلاں ستارہ مہر با ن ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین والوں کو یہ فائدہ پہنچا ہے اور فلاں ستارہ ناراض ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ نقصان پہنچا ہے۔چنانچہ بارش کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر اسی قسم کا تھا کہ مخصوص قسم کے ستا رے کی مہربانی سے اہل زمین سیراب کئے جاتے ہیں۔
چونکہ اس قسم کے نظریات اور عقائد معاشرہ کے افراد میں سستی، کاہلی اور بے عملی کے خطرناک جراثیم پیدا کر دیتے ہیں جو قوموں کی قوت عمل کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں اور سفر کے موقع پر انسان میں مہم جوئی اور نئے حقائق کو اپنے اندر سمولینے کا ایک فطری جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ اس لئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ﷺ نے وحی الٰہی کی روشنی میں صحابہ کرام کی رہنمائی فرمائی اور رات بھرکی بارش کے بعد فجر کے وقت اس تازہ پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں صحیح حقائق اور اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے کے لئے گفتگو کا انوکھا انداز اختیار کیا کہ ’’ جانتے بھی ہو! آج رات اﷲ تعالیٰ نے کیا فرما دیا؟‘‘ اس سوال سے نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا کے ان میں تلاش وجستجو کا مادہ ابھارنا چاہتے تھے جو بدرجہ اتم حاصل ہو گیا۔
چنانچہ وہ ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا ’’اﷲ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں ‘‘ صحابہ کرام کے اس جواب سے ان کی خود سپردگی، حصول علم کا جذبہ اور نئی بات جاننے کا شوق و ولولہ صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ اس بارش پر تبصرہ کے نتیجے میں میرے بندے دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ (۱) مومن (۲) کافر۔ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ موثر حقیقی ذات خداوندی ہے اور اسی کے فضل و کرم سے باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تویہ میرے حق میں مومن اورستاروں کے حق میں کافر ہیں۔ اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ فلاں آسمانی ستارے کی تاثیر سے بارش برستی ہے۔ تو وہ ستاروں کے حق میں مومن اور میرے حق میں کافر ہیں۔
فاعل اور موثر حقیقی ذات باری تعالیٰ ہے۔ وہی مسبب الاسباب ہے۔ اس کے حکم کے بغیر بارش کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرسکتا۔وہ چاہے تو ’’مون سون ‘‘ یا بادلوں کو بطور اسباب استعمال کر لے اور ان کے ذریعہ بارش برسادے اور چاہے تو ان کے بغیر بارش برسادے۔ایسابھی ہوسکتا ہے کہ ’’مون سون‘‘ کاسارا موسم گزر جائے اور آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی رہیں اور بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے اورایسابھی ہوسکتا ہے کہ نہ ’’مون سون‘‘ ہو اور نہ ہی بادل مگر بارش سے جل تھل ہو جائے۔
اگر فاعل اور موثر حقیقی ذات باری تعالیٰ کو جانتے ہوئے کسی دوسرے سبب کی طرف بارش کو منسوب کرتا ہے تو یہ کفر نہیں کہلائے گا۔