کیا یہ "مقدس جنگ" نہیں ہے؟


 امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے اسماعیل ھنیہ کی شہادت کے بعد پیدا شدہ کشیدہ صورتحال میں اسرائیل کی بھرپور مدد کا اعلان کِیا ہے اور امریکہ نے طیارہ بردار کے بعد میزائل بردار بحری بیڑا بھی اسرائیل کی امداد کیلئے روانہ کر دیا ہے جو اب اسرائیل کی سمندری حدود میں داخل ہوچُکا ہے. فرانس اور برطانیہ نے اسرائیلی فضائی حدود کی ہر ممکنہ حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور اس سلسلے میں "تمام وسائل" بروئے کار لانے کا اعلان کیا ہے. اگر اِس جنگ کو تقدس حاصل نہ ہوتا تو یقین جانیں یہ اعلانات ہرگز نہ ہوتے کیونکہ نہ تو اِن ممالک سے اسرائیل کی سرحدیں ملتی ہیں، نہ اِن کی معیشت اسرائیل سے تجارت پہ منحصر ہے اور نہ ہی اسرائیل کے عدم دفاع کی صورت میں اِن ممالک کی "قومی سلامتی" کو کوئی خطرہ لاحق ہونا ہے. امریکہ برطانیہ اور فرانس 1948/49 میں تب بھی موجود تھے جب اسرائیل کا جنم ہو رہا تھا. یہ اسرائیل کو عملاً جنم دینے والے ممالک ہیں. لہذا عملاً اسرائیل کے عدم وجود سے اِن ممالک کے وجود پہ کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیئے. لیکن یہ ممالک بشمول نیٹو ممالک اِس جنگ میں اسی لئے پیش پیش ہیں کیونکہ یہ عام جنگ نہیں ہے، یہ مقدس جنگ ہے. یہ معاشی نہیں مذہبی مقاصد کی جنگ ہے. یہ شیطانیت اور رحمانیت کی جنگ ہے. یہ رومیوں اور ایوبیوں کی جنگ ہے. 


صیہونیت کا تعلق صرف یہودیت ہی سے نہیں عیسائیت سے بھی ہے. یہ بات ہم جیسے مسلم "حاملینِ سازشی نظریات" یعنی Conspiracy Theorists ہی نہیں کہتے بلکہ خود مغربی سکالرز بھی اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں.

عیسائی صیہونیت کیا ہے؟ what is Christian Zionism
عیسائی صیہونیت اس نظرئیے کا نام ہے جس میں عیسائی مذہب کے پیروکار یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ارضِ مقدس پہ یہودیوں کا حق ہے اور بائبل کی پیش گوئیوں کے مطابق یہود کا ارضِ مقدس میں آباد ہونا اور حکمرانی کرنا لازم ہے. جب تک یہاں یہود کی مستحکم حکومت قائم نہیں ہوتی تب تک "مسیحا" کی آمد نہیں ہوگی.

اس سلسلے میں درج ذیل کتب ملاحظہ کی جا سکتی ہیں.

1. A Discourse of the Glory to which God hath Called Believers by Jesus Christ.
By Thomas Briggtman (1615)
اِس کتاب نے عیسائی صہیونیت کی بنیاد رکھی. 
2. The world's Greatest Restoration by Sir Henry Finch (1621)

3. New Heavens and New Earth by Joseph Made (1642)

4. The Restoration of Jews: The History, Principles, and the Prospects of the Jews' Restoration to Palestine By Charles Henry Churchill (1841)

آخری کتاب جو چارلس ہنری چرچل کی تحریر کردہ ہے، اسرائیل کے قیام سے تقریباً 100 سال قبل کی ہے. جس میں یورپی معاشرے، خصوصاً عیسائی حکمران اشرافیہ پہ زور دیا گیا ہے کہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کا قیام عیسائیوں کا مذہبی فرض بھی ہے اور اخلاقی ذمہ داری بھی. یاد رہے تب تک ہولوکاسٹ رونما نہیں ہوا تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہٹلر سمیت پہلی و دوسری جنگِ عظیم اور سلطنتِ عثمانیہ کی عرب غداروں کے زریعے تقسیم سب ایک Staged Drama تھا، جسکا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام تھا. اِس سب کے ساتھ اگر آپ بالفور ڈیکلریشن کو ملا کر پڑھ لیں تو تمام حقائق واضح ہوتے چلے جاتے ہیں. 

عیسائی صیہونیت ایک حقیقت ہے اور اسکا جِیتا جاگتا ثبوت امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی کا اسرائیل سے تعلق ہے. آپ امریکہ اور برطانیہ کو چھوڑ دیجیئے کہ ایک موجودہ سپرپاور ہے اور ایک سابقہ لیکن آپ کبھی فرانس کے کردار پہ غور کیجیئے. لیبیا جنگ کو فرانس نے lead کِیا. افغانستان میں فرانس نے بڑھ چڑھ کر اپنے فوجی اور سازو سامان بھیجا. فرانس کیوں مشرقِ وسطیٰ میں دخل اندازی کرتا ہے؟ کیا فرانس کی معیشت اسرائیل پہ منحصر ہے؟ کیا فرانس کی کسی غالب اکثریت کی مذہبی پیشوائی اسرائیل کو حاصل ہے؟ ہرگز نہیں. لیکن فرانس اسرائیل کے دفاع میں ہمیشہ امریکہ کے شانہ بشانہ رہتا ہے.

فرانس دراصل "فری میسنری" کا مرکز ہے. یہ جدید فری میسنری کی جنم بھومی ہے. یہ عیسائی صیہونیت Christian Zionism کی جائے پیدائش ہے. جارج واشنگٹن اِسی فرینچ فری میسنری کا پروردہ تھا. آپ سب Statue of liberty 🗽 سے واقف ہیں. یہ مجسمہ جو نیویارک میں نصب ہے، دراصل فرانسیسی فری میسنز کا امریکی فری میسنز (حکمران اشرافیہ) کیلئے تحفہ تھا. یہ کوئی myth نہیں بلکہ یہ بات مذکورہ مجسمے کے نیچے نصب تختی پہ بھی واضح طور پہ درج ہے. (تصویر نیچے کمینٹ میں ملاحظہ کریں) آپ کو اِس وقت دنیا میں جتنے بھی شیطانی نظریات پڑھنے، سُننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں اِن کی غالب اکثریت دراصل فرانس ہی کے شیطان پرستوں کی ذہنی اختراعات ہیں. 

جدید جمہوریت سے لیکر جدید فیشن انڈسٹری تک، انسانی حقوق کے جدید فلسفے سے لیکر مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے نظرئیے تک، عورت کی آزادی کا نعرہ ہو یا گلوبلائزیشن کا فلسفہ --- سبھی کی بنیاد یا ترویج و اشاعت میں یا نفاذ کی اولیت میں آپ کو فرانس پیش پیش نظر آئے گا.

جدیدیت کا سب سے بڑا فلسفہ Enlightenment ہے. جسے اردو میں "روشن خیالی" کہا جاتا ہے. یہ فلسفہ جدید دور میں بدی کی طاقتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے. یہ مذہب سے دوری پیدا کرنے، مذہب سے متنفر کرنے اور جدید الحاد کے قیام میں سب سے موثر ہتھیار ہے. فرانس کے فلاسفہ نے اس نظریے کی ترویج و اشاعت میں اہم ترین کردار ادا کیا. جن میں والٹائر،  روسیو، مونٹیسکی اور ڈیٹروٹ شامل ہیں. 

سن 2007 میں فرانس کے صدر نیکولس سرکوزی نے کہا تھا: میں کسی ایسے عالمی رہنما سے ملنا پسند نہیں کرونگا جو اسرائیل کے حقِ قیام کا مخالف ہو. فرانس اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے اولین ممالک میں سے ہے. 50 کی دہائی میں فرانس نے میراج طیارے اسرائیل کو فراہم کئیے جنہوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اہم کردار ادا کیا. فرانس ہی نے پہلا ایٹمی پلانٹ اسرائیل کو تحفے میں دیا جو 1963 میں مکمل ہوا. جس سے اسرائیل ایٹمی طاقت بنا. معروف سویز کرائسز 1956 میں سویز کینال پہ قبضے کیلئے اسرائیل کے ساتھ فرانس نے بھی مصر پہ حملہ کیا تھا. غرض ایک طویل فہرست ہے اسرائیلی حمایت کے کارناموں کی. 

بظاہر یورپ کے تمام ممالک میں جمہوریت نافذ ہے لیکن حقیقتاً تمام ممالک عیسائی صیہونیت کے کنٹرول میں ہیں. نیٹو کا قیام اس کی عمدہ مثال ہے. نیٹو ایک عیسائی صیہونی فوجی الائنس ہے. جسکا سپہ سالار امریکہ ہے. آپ جدید عیسائی صیہونیت کو پڑھے اور سمجھے بنا عالمی طاقت کے کھیل کو، عالمی تعلقات کو اور یورپ کی اسرائیل نوازی کو نہیں سمجھ سکتے. 

تحریر: قاسم اقبال جلالی AHC

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی