جب بات تندرستی کے ٹوٹکوں سے متعلق کتابوں کی ہو تو آپ شاید سوچتے ہوں کہ جتنی زیادہ نئی کتاب ہو تو اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن سنہ 1620 میں لکھی جانے والی ایک کتاب 'دی اناٹومی آف میلنکولی' اگر آپ کی نظر سے گزرے تو آپ کی یہ سوچ تبدیل ہو جائے گی۔ اس غیر معمولی کتاب نے انسانی فطرت کو سمجھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور یہ کتاب آج بھی حیرت انگیز طور پر جدید ہے.
دی ’اناٹومی آف میلنکولی‘ یا ’اداسی کا علم‘ کے مصنف روبرٹ برٹن ہیں جنھوں نے یہ کتاب سنہ 1621 میں لکھی تھی۔ انسانی فطرت اور حالات کے بارے میں ان کی سمجھ اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل اور جدید ہے۔
برٹن ایک برطانوی راہب اور سکالر تھے۔ انھوں نے قدیم یونانی فلسفے اور 17ویں صدی میں علم طب پر ہونے والے کام کو اپنی کتاب میں سمو دیا۔ ان کی کتاب میں دو ہزار سال کے علمی کام سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔
وہ اس موضوع کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کیونکہ وہ خود بھی اداسی کا شکار رہے تھے، اداسی جو مایوسی اور ڈپریشن پیدا کرتی ہے اور زندگی سے دور کر دیتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ برٹن کی غیر معمولی تحقیق موجود دور میں ڈپریشن اور مزاج کی خرابیوں پر کتنی قابل عمل ہے؟
سکاٹ لینڈ کی صحافی ایمی لپٹروٹ نے برٹن کے کام کا دوبارہ جائزہ لیا ہے اور ’دا نیو اناٹومی آف میلنکولی‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں 21ویں صدی کے لحاظ سے اسی موضوع کو آگے بڑھایا ہے۔
ایمی لپٹروٹ کا کہنا ہے سنہ 1620 کی دہائی میں انسان کی ذہنی صحت کے بارے میں جو مشورے دیے گئے تھے وہ آج بھی موثر اور قابلِ عمل ہیں۔
1: اپنے موڈ پر غور کریں اور اس کے رجحانات پر نظر رکھیں
ڈپریشن میں مبتلا افراد شاید یہ محسوس کرتے ہوں کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن موڈ یا مزاج اکثر کسی خاص رجحان سے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
برٹن کے خیال میں اداسی ایک موروثی بیماری ہے۔ انھوں نے مختلف خاندانوں اور نسل در نسل ذہنی بیماریوں کے رجحانات کا جائزہ لیا۔
ان کا یہ طریقہ کار بڑی حد درست تھا، آج جینیاتی منتقلی اور ماحول ڈپریشن کی بڑی وجوہات مانی جاتی ہیں۔
ڈپریشن سے متعلق مسائل کے شکار خاندانوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر فرانسس رائس کہتے ہیں ’جہاں والدین میں سے کسی کو شدید ڈپریشن ہے وہاں میں چاہتا ہوں کہ ان کی دیکھ بھال میں ان کے بچے اور خاندان کے دوسرے افراد بھی شامل ہوں اور وہاں ان کو ڈپریشن سے متعلق خود اپنے علاج کی بھی سہولت میسر ہو۔‘
تاہم جینیاتی رجحانات کے علاوہ مزاج اور برتاؤ کے رجحانات پر نظر رکھ کر بھی ذہنی بیماریوں کی قبل از وقت تشخص میں مدد مل سکتی ہے۔
اداسی کے بارے میں برٹن کی تحقیق صرف منفی رجحانات تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کی تحریر پڑھنے والے کو ان کے جذبات کی چکرا دینے والی انتہاوں تک لے جاتی ہے۔
موڈ یا مزاج کی بیماریوں کے بارے میں ہماری سمجھ میں اضافہ ہوا ہے اور آج ماہرین کا خیال ہے کہ برٹن کے مزاج میں انتہائی اتار چڑھاو دراصل ان کی ذہنی بیماری (بائی پولر ڈس آرڈر) کی علامات تھیں۔
ان کی خود اپنے ہر وقت تبدیل ہوتے ہوئے موڈ اور ان حالات پر بہت گہری نظر تھی جو ان کے موڈ پر اثر انداز ہوتے تھے۔
آج یہی آگہی اس ذہنی بیماری کے علاج اور اسے سنبھالنے کا ایک بہت اہم ذریعہ ہے۔
2: ٹھنڈے پانی کے فوائد
اپنی کتاب میں برٹن نے بڑی تعداد میں ایسے خیالات اور مشوروں کو جمع کیا ہے جو دوسروں نے لکھے تھے۔
گھر سے باہر جا کر دریا اور ٹھنڈے پانی میں نہانا بھی ایسے ٹوٹکوں میں شامل ہے۔ یہ بھی لمبی عمر کے لیے دیے جانے والے مشوروں میں شامل ہے۔
ان کے ذہن میں کچھ تھا جو وہ یہ مشورہ دے رہے تھے۔
یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں انتہائی شدید موسموں کی لیباریٹری میں ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر مائک ٹپٹن کہتے ہیں ’جب آپ ٹھنڈے پانی کو برداشت کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور جسمانی طور پر اس کا مقابلہ کر لیتے ہیں تو ڈپریشن جیسے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی آپ کا ردعمل بہتر ہو جاتا ہے۔
3: فطرت کے قریب رہیے
برٹن کے نزدیک اداسی کی علامات کو ختم کرنے میں فطرت کا کلیدی کردار ہے۔
انھوں نے ذہن پر چھائی ہوئی دھند کو صاف کرنے کے لیے اپنی کتاب میں جڑی بوٹیوں اور پھولوں کے فوائد بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بوراج اور ہیلیبور جیسے پودے اداسی کو دور دل کو خوش کرتے ہیں۔
برطانیہ کے آکسفورڈ بوٹینک گارڈن کے ڈائریکٹر پروفیسر سائمن ہسکوک کہتے ہیں کہ بوراج جیسے پودے قدیم زمانوں سے اداسی، پریشانی اور ڈپریشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ’اس پودے کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اس سے نہ صرف مسرت حاصل ہوتی تھی بلکہ یہ رومن سپاہیوں کو شراب میں ملا کر پلایا جاتا تھا تا کہ جنگ کے دوران ان میں ہمت پیدا ہو۔‘
برٹن کے خیال میں فطرت کے اچھے اثرات صرف ایسے پودوں تک محدود نہیں ہیں جنھیں کھایا جا سکتا ہے۔ وہ باغبانی، کھدائی اور ہل چلانے کاموں کے جسم پر اچھے اثرات کے بھی قائل تھے۔
برطانوی براڈکاسٹر اور باغبان مونٹی ڈان شدید ڈپریشن کا شکار رہے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر پودوں سے منسلک ہونے، مٹی کی دیکھ بھال کرنے اور اپنے لگائے ہوئے پودوں کو پھلتے پھولتے دیکھنے کو ڈپریشن کے خلاف ایک طاقت ور دوا کے طور پر بتاتے ہیں۔
’میرے خیال میں بہترین ورزش وہ ہے جو کسی وجہ اور مقصد سے جڑی ہو۔ مثال کے طور پر اپنے کتے کے ساتھ چہل قدمی پر جانے سے آپ کو ورزش، ایک وجہ اور فطرت کے ساتھ ایک تعلق میسر آتا ہے۔‘
گھر سے باہر جانے کے اچھے اثرات کے بارے میں برٹن کے خیالات برطانیہ کے صحتِ عامہ ادارے این ایچ ایس کی جانب سے باقاعدہ طور پر تسلیم کیے جا چکے ہیں اور ذہنی امراض کے علاج میں شامل ہیں۔
4: اپنا مسئلہ دوسروں کو بتانے سے آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے
برٹن نے 400 سال قبل کہا تھا کہ اپنی مشکل کو اپنے دل میں پالنے کے بجائے بہتر ہے کہ اسے اپنے کسی دوست کو بتایا جائے۔
ڈپریشن میں مبتلا افراد میں اپنے اندر گم رہنے اور دوسروں سے الگ ہو جانے والا رویہ بہت عام ہے۔ ایسا کرنے سے مریض کو کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا لیکن ایسی ذہنی کیفیت سے باہر آنے کے لیے دوسروں سے ملنا جلنا بھی اسے ناممکن لگتا ہے۔
ڈپریشن کو سمجھنے کے لیے پورے پورے خاندانوں کے ساتھ وقت گزارنے والے ڈاکٹر رائس کے خیال میں تفریح والی سرگرمیوں کو علاج کا حصہ بنانا چاہیے چاہے یہ سرگرمیوں اس کا بالکل الٹ ہی کیوں نہ ہوں جو مریض کرنے کا سوچ رہے ہوں۔
برٹن کے ذہن میں بھی کچھ تھا جب انھوں نے ’اپنے دوستوں کے پاس جانے‘ کا مشورہ دیا تھا۔
اگر آپ ڈاکٹر کو اپنے خراب موڈ کے بارے میں بتائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو اینٹی ڈپریسنٹس تجویز کریں۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈنمارک، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں ڈاکٹر اب آپ کو آرٹ کلاسز، میوزیم جانا اور گروپ بنا کر چہل قدمی جیسے سوشل علاج تجویز کرتے ہیں.
5: کام اور زندگی میں توازن
یہ درست ہے کہ برٹن نے ورک - لائف بیلنس یا کام اور زندگی میں توازن جیسی اصطلاح نہیں استعمال کی تھی لیکن اس کے بجائے انھوں نے ’سیکھنے سے پیار بمقابلہ ضرورت سے زیادہ مطالعہ‘ پر تبصرہ ضرور کیا تھا۔
ان کا نظریہ یہ تھا کہ مطالعے اور لکھنے پر ضرورت سے زیادہ وقت لگانے کا مطلب ہے ورزش، مناسب نیند اور سماجی میل ملاپ جیسے کاموں کے لیے کم وقت رہ جائے گا جو ذہنی صحت کے لیے ضروری ہیں۔
زندگی میں توازن ضروری ہے۔ جب ہمارے ذہن تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور ہم جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں تو مطالعہ ہمیں اس کیفیت سے باہر نکالتا ہے، ہمیں ایک مثبت سمت اور مقصد دیتا ہے۔ لیکن ضرورت سے زیادہ مطالعہ سست اور تنہا کرتا ہے اور ہم دیگر ایسی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں جو ایک صحت مند ذہن کے لیے ضروری ہیں۔
برٹن کے الفاظ چاہے ماضی کے کیوں نہ ہوں لیکن اداسی کی علامات اور علاج کے بارے میں ان کا کام آج بھی کارآمد اور قابل عمل ہے۔
یقیناً انسانی جسم کے بارے میں ان کی سمجھ بہت فرسودہ تھی۔ ان کی طبی معلومات قدیم یونان کی ہیومرل تھیوری پر ہی مبنی تھیں۔ یہ تھیوری سنہ 1850 کی دہائی تک رائج تھی لیکن اس کے بعد پیتھوجنز یعنی بیکٹیریا اور وائرس کی دریافت نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ سائنسدان لوئس پیسچیور کی جراثیم تھیوری منظرِ عام پر آئی اور علم میں طب میں ایک انقلاب آ گیا۔
لیکن اس کے باوجود برٹن کو ایک طرح سے فطری اور جبلی طور پر ہماری اداسی کی علامات کو ختم کرنے کے بارے میں آگہی تھی۔
اگر اپنے بارے میں آگہی، تیراکی، فطرت، سماجی میل ملاپ اور مطالعہ آج سے 400 سال قبل لوگوں کے لیے فائدے مند تھا تو یہ سب آج ہمارے لیے کیوں نہیں ہو سکتا؟
زمرے
صحت و تندرستی