📿 بیوہ کو نکاحِ ثانی پر میراث سے محروم کرنے کا حکم:
آجکل بعض قوموں اور علاقوں میں یہ غیر شرعی طرزِ عمل عام ہے کہ جب کوئی بیوہ عورت دوسرا نکاح کرلے خصوصًا جب یہ نکاح اپنے خاندان سے باہر کسی مرد کے ساتھ ہو تو ایسی صورت میں اس بیوہ کو اپنے ہی فوت شدہ شوہر کی میراث میں سے اس کا مقررہ حصہ نہیں دیا جاتا، حتی کہ بیوہ کو اس دوسرے نکاح سے پہلے اس کے میراث والے حصے سے محروم کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ مجبور ہوکر دوسرا نکاح نہ کرسکے۔
لوگوں کے اس غلط طرزِ عمل کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوہ کا دوسرا نکاح کرنا ہی جرم ہے، اس لیے اس جرم کی پاداش میں وہ میراث کی مستحق نہیں رہے گی۔ دوم یہ کہ خصوصًا خاندان سے باہر کسی مرد کے ساتھ دوسرا نکاح کرنے کی صورت میں یہ میراث کا مال کسی اور کے گھر چلا جائے گا اور یوں دوسرے خاوند کو اس کا فائدہ ملے گا اور یہ بات قابلِ برداشت نہیں کہ ہمارے مرحوم عزیز کا مال کسی اور کے پاس چلا جائے اور وہ اس سے مفت میں فائدہ اُٹھائے۔
ایسے میں یہ صورتحال بھی دلچسپ ہوتی ہے کہ مرحوم شوہر کے بھائی اور عزیز رشتہ دار اٹھ کھڑے ہوکر یہ کہتے ہیں کہ یہ مال ہمارے بھائی اور عزیز رشتہ دار نے اپنی محنت سے کمایا تھا، آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھائیں، اس لیے یہ بیوہ عورت اگر کسی دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنا حصہ اپنے ساتھ دوسرے گھر نہیں لے جاسکتی، گویا یا تو وہ بیوہ عورت دوسری شادی ہی نہ کرے اور اگر شادی کرے بھی تو اپنا حصہ ہمارے پاس چھوڑ کر جائے۔
⬅️ یاد رہے کہ یہ بات واضح طور پر شریعت کے خلاف اور سنگین گناہ ہے، اس لیے اس بری رسم اور غلط طرزِ عمل سے اجتناب کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ ذیل میں اس کی اصلاح کے لیے چند بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
1⃣ شریعت کی نظر میں کوئی بیوہ عورت دوسرے نکاح کی وجہ سے اپنے مرحوم شوہر کی میراث سے ہرگز محروم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی کسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کو دوسرے نکاح کی وجہ سے اپنے مرحوم شوہر کی میراث سے محروم کرے، بلکہ بیوہ عورت اپنے شوہر کی میراث سے ملنے والے مقررہ حصے کی بہر صورت مالک رہتی ہے، یہ حصہ اس کو بہر صورت مل کر رہے گا۔ اس کو اپنے مقررہ حصے سے محروم کرنا ظلم ہے اور ایسے لوگ ظالم کہلائے جانے کے مستحق ہیں، اور ظلم کی وعیدوں سے تقریبًا ہر شخص ہی واقف ہے۔
2️⃣ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بیوہ عورت کی میراث کا حصہ بیان فرمایا ہے کہ بیوہ عورت کو اس کے مرحوم شوہر کی میراث میں سے اتنا حصہ ملے گا، اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ عورت کو دوسرے نکاح کی وجہ سے اس مرحوم شوہر کے میراث سے ملنے والے مقررہ حصے سے محروم کرنا قرآنی حکم کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بلا دلیل حرکت بھی ہے کہ قرآن وسنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں، اس لیے ایسی غیر شرعی اور بلا دلیل حرکت سے باز رہنا چاہیے۔
3⃣ کوئی وارث اپنے مورِث یعنی میت کی میراث سے جن وجوہات کی وجہ سے محروم ہوسکتا ہے وہ شریعت کی روشنی میں حضرات فقہائے امت نے بیان فرمادی ہیں، اُن وجوہات میں یہ وجہ ہرگز مذکور نہیں کہ جب بیوہ دوسرا نکاح کرے تو اس کو اپنے مرحوم شوہر کی میراث سے محروم کردیا جائے۔ معلوم ہوا کہ بیوہ کے نکاحِ ثانی کو میراث سے محروم کرنے کی وجہ قرار دینا بے بنیاد، بلا دلیل اور خود ساختہ بات ہے۔
4️⃣ شریعت کی نظر میں بیوہ کا دوسرا نکاح کرنا چاہے اپنے خاندان میں ہو یا خاندان سے باہر ہو؛ بالکل درست اور جائز ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ ضروری بھی ہوجاتا ہے، اس لیے اول تو بیوہ کے لیے دوسرے نکاح کو معیوب اور غلط سمجھنا شریعت کے خلاف ہے، دوم یہ کہ دوسرے نکاح کی وجہ سے اس کو اپنے میراث کے حصے سے محروم کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے۔
5️⃣ بیوہ عورت اپنے فوت شدہ شوہر کی میراث میں سے ملنے والے حصے کی مالک بن جاتی ہے، کسی شرعی وجہ کے بغیر کوئی بھی اس بیوہ عورت کو اس کے حصے سے محروم نہیں کرسکتا اور نہ ہی جبرًا اس سے اس کا حصہ لے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ دوسرا نکاح کرے بھی تب بھی وہ دوسرا شوہر اس عورت سے اس کا مال جبرًا نہیں لے سکتا۔ البتہ یہ واضح رہے کہ اس بیوہ عورت کو اپنی ملکیت میں موجود مال میں ہر جائز تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ دوسرے نکاح کے بعد اپنے دوسرے شوہر کو اپنی کامل رضامندی سے اپنے حصے کا سارا یا بعض مال دینا چاہے تو اس کو مکمل اختیار حاصل ہے، اس پر کسی کو بھی اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں۔
⬅️ حاصلِ کلام یہ کہ بیوہ کو نکاحِ ثانی کی وجہ سے اس کے مرحوم شوہر کی میراث سے ملنے والے مقررہ حصے سے محروم کرنا بالکل ہی غلط، ناجائز اور غیر شرعی عمل ہے، اور اس کے لیے جتنی بھی تاویلات کی جاتی ہیں وہ سب کی سب خود ساختہ، بے دلیل اور منگھڑت ہیں۔
📿 مشہور ومستند کتاب ’’احکامِ میت‘‘ میں ہے:
’’بعض جگہ دستور ہے کہ اگر بیوہ دوسرا نکاح کرے تو اسے مرحوم شوہر کی میراث سے محروم کردیتے ہیں، اس لیے وہ بیچاری حصہ میراث محفوظ رکھنے کی خاطر دوسرا نکاح نہیں کرتی اور عمر بھر بیوگی کے مصائب برداشت کرنے کے ساتھ مرحوم شوہر کے اعزا واقرباء کے شب وروز طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنی رہتی ہے۔ یاد رکھیے، یہ بھی سراسر ظلم اور حرام ہے، نکاحِ ثانی کرنے کے باوجود از روئے شرع بیوہ بدستور اپنے حصہ میراث کی مالک رہتی ہے۔‘‘ (بابِ ہفتم صفحہ 319، تخریج شدہ از جامعہ فاروقیہ کراچی)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی