فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 11═(فرار)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تدمیر قاصد کوروانہ کر کے وہاں سے شیڈونہ کی طرف چل پڑا-
اسے خوف لاحق تھا نیز وہ دروں میں چھپ چھپ کر چل رہا تھا -
اس کے لشکر کی زیادہ تعداد تو میدان جنگ میں ہی کام آ گئی تھی اور بچے کھچے سپاہی ادھر ادھر بھاگ گئے تھے -
کچھ اس کے ساتھ بھی رہ گئے تھے اور اسے ان کی ہی وجہ سے بڑی ڈھارس تهی - جہاں اسے شکست کا افسوس اور غم تھا وہاں اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے عرب کو گرفتار کر لیا ہے، وہ چاہتا تھا کہ بادشاہ کے سامنے اسے پیش کر کے اس سے اپنی شجاعت کی داد لے-
جوں جوں وہ شیڈونہ کی طرف بڑھتا گیا اس کا شکست خوردہ لشکر آ آ کر اس سے ملتا رہا-
یہاں تک کہ کچھ دنوں میں پانچ سو سپاہی اکٹھے ہو گئے اس نے اپنے لشکر کی جمعیت بڑھانے اور مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بڑهکانے کا ایک طریقہ ایجاد کیا کہ جس گاؤں سے گزرتا جس قصبے میں پہنچتا وہاں مسلمانوں کی بہادری کی داستان اس انداز سے سناتا کہ مسلمان اندلس کا صلیبی جھنڈا سرنگوں کرنا چاہتے ہیں-
گرجے گرانا اور عیسائیوں کو مسلمان کرنا چاہتے ہیں ان کی طاقت کا مقابلہ سب نے مل کر پوری طاقت سے نہیں کیا تو وہ پورے اندلس کو فتح کر لیں گے -
عیسائی مردوں کو مار ڈالیں گے اور عورتوں کو اپنی لونڈیاں اور بیویاں بنا لیں گے-"
اس کی تقریر کا لوگوں پر یہ اثر ہوتا کہ وہ ڈر کر گاؤں خالی کر کے تدمیر کے آگے بڑھتے ہی قرطبہ روانہ ہو جاتے تھے -
اس طرح سے ملک اندلس کا جنوبی حصہ ویران و برباد ہوتا جا رہا تھا -
کچھ ایسے لوگ جو تنہا تھے تدمیر کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے اور اس طرح اس کے لشکر کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا تھا اور اب اس کے سپاہیوں کی تعداد کم و بیش ایک ہزار ہو گئی تھی -
کیونکہ ان لوگوں نے دیہات اور قصبات میں رسد کوچیں اور دوسری اشیاء بھی برآمد کر لی تھیں اس لیے اب وہ آرام سے سفر کر رہے تھے -
تدمیر نے بلقیس کے لیے اس کے آرام کا سامان مہیا کر دیا تھا اور اس کی بندشیں بھی کهول دیں تهیں -
اب وہ محض نظر بند رہتی تھی مگر تدمیر اسمٰعیل سے قدرے خائف تھا -
اسے خدشہ تھا کہ یا تو وہ بھاگ جائے گا یا ہتھیا چرا کر لڑنے پر آمادہ ہو جائے گا اور عجب نہیں کہ انہیں مار کاٹ کر فرار ہو جائے-
اس لیے وہ ان کی نگرانی سخت طور پر کر رہا تھا -
دراصل وہ مسلمانوں کو انسانوں سے بالاتر سمجھنے لگا تھا کہ عام انسانوں سے زیادہ جوش و قوت سے کیوں لڑتے ہیں، گویا کہ اس کے دل پر شیران اسلام کا رعب طاری ہو گیا تھا - "
وہ یا اس کا کوئی سپاہی عربی زبان نہیں جانتا تھا اور اس لیے جو گفتگو ہوتی بلقیس اور اسمٰعیل میں ہوتی تھی اس کا ایک بھی لفظ وہ نہیں سمجھتے تھے-
اسے اندیشہ تھا کہ کہیں بلقیس اسمٰعیل کو بھگا نہ دے اس لئے ان دونوں کے خیمے الگ الگ کر دئے تھے -
اسے ایک ایسی جگہ سے کئی خیمے مل گئے تھے اور ایک خیمے میں تو وہ خود رہنے لگا تھا اور ایک بلقیس کو دے دیا تھا -
بقایا خیمے دوسرے افسروں کو دیئے گئے تھے -
اب وہ بلقیس کی زیادہ خاطر مدارات کرنے لگا تھا - ایک تو وہ تهی ہی اس قابل دوسرا وہ جانتا تھا کہ اسے رازرق کے پاس بھیجنا ہے، سو اگر اس کی خاطر نہ کی جاتی تو وہ کہیں رازرق سے شکایت نہ کر دے -
وہ جو یہ بھی جانتا تھا کہ رازرق جو کم عمر عورتوں اور نوخیز لڑکیوں کا متوالا ہے اس کے مقابلے میں اس کا کوئی حیلہ و عذر نہ سنے گا اور اس لئے بلقیس کے شکایت کرتے ہی اسے سزا دے دے گا-
جب بلقیس آرام سے رہنے لگی تو وہ اس کی فکر میں ہو گئی کہ کس طرح وہ اسمٰعیل کو بھی اپنے خیمے میں رکھے یا کم سے کم اس کی جملہ تکالیف کا ازالہ ہو جائے اور وہ بھی آزاد ہو جائے-
اس نے ایک دو مرتبہ تدمیر سے بھی ہو گا اس نے کوئی توجہ نہ کی -
بلقیس کو یہ بھی خیال تھا کہ اسمٰعیل اسے بے مروت سمجھتا ہو گا اب اسے اس سے باتیں کرنے کا موقع نہ ملتا تھا
ہر وقت تدمیر اس کے ساتھ رہتا تھا اور اسمٰعیل سپاہیوں کے نرغے میں.
ایک روز یہ مختصر لشکر کسی پہاڑ کی گھاٹیوں اور دروں سے گزر رہا تھا -
پہاڑ کا یہ حصہ نہایت سر سبز و شاداب تھا ہرے بھرے چھوٹے بڑے درخت لہلہا رہے تھے -
پھول دار پودے اپنے دامن پھولوں کی مہک سے بھرے ہوئے تھے -
ان کی بهینی بهینی خوشبو سے ہر درہ ہر گھاٹی ہر چٹان مہک رہی تھی -
آفتاب کچھ مغرب کی طرف جھک گیا تھا اور اس کی سنہری کرنیں سبز سبز پتوں پر لوٹ رہی تھیں _
تدمیر اور بلقیس دونوں برابر برابر گھوڑوں پر سوار چلے جا رہے تھے،
اسمٰعیل لشکر سے آگے گھوڑے پر سوار بندھے ہوئے چل رہے تھے -
کچھ دیر چل کر وہ ایک کھلی وادی میں پہنچ گئے اور گھوڑوں کو آرام دینے کے لیے رک گئے-
تدمیر یہ چاہتا تھا کہ دن ہی دن میں پہاڑ کو عبور کر کے دامن میں جا پہنچے-
اس نے کہا - " سپاہیوں کچھ دیر آرام کر لو اور گھوڑوں کو بھی سستاتے دو آج شاید ہم کو رات تک سفر کرنا پڑے -
یہ سنتے ہی سپاہی گھوڑوں سے نیچے اتر آئے اور ان کی باگیں پکڑ پکڑ کر چٹانوں کے پتهروں پر بیٹھ گئے-
اس وقت سامنے سے سوار آتا دکھائی دیا وہ عیسائیوں جیسی پوشاک پہنے ہوئے تھا -
تدمیر یہ خیال کر کے کہ آنے والا شاید کوئی قاصد ہے اس کی طرف چل پڑا-
سوار ابهی دور ایک تنگ گھاٹی میں تها جونہی تدمیر اس گھاٹی کی طرف روانہ ہوا بلقیس اپنے گھوڑے سے اتر پڑی-
ایک سپاہی نے جلدی سے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
وہ چٹانوں کے برابر پھولوں کو دیکھتی ہوئی اس طرح آگے بڑهی گویا پھولوں کا انتخاب کر رہی ہے-
کبھی خوش نما پھول کو توڑ لیتی اور دیدہ زیب نظروں سے اسمٰعیل کو دیکھتی جاتی-
اسمٰعیل تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑے اس حسن کی ملکہ کو دیکھ رہے تھے -
بلقیس پھولوں سے شغل کرتی اس سے آگے نکل گئی لیکن فورا ہی لوٹی اور ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی اس نے شرمیلی نظروں سے انہیں دیکھ کر ایک پھول ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کیا آپ اس پھول کو لینا پسند کریں گے؟ "
اسمٰعیل اس کے رخ روشن کی طرف دیکھ رہا تھا انہوں نے بڑی خوشی ہے کیا میں اسے محبت کی یادگار سمجھوں؟
بلقیس نے شرما کر نظریں جھکا تے ہوئے کہا اگر آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں تو"
اسمٰعیل نے پھول لیتے ہوئے کہا شکریہ-"
بلقیس نے اپنی حسین آنکھوں کو اٹھاتے ہوئے کہا آپ مجھے بے مروت سمجھتے ہیں؟
اسمٰعیل : نہیں یہ تو آپ جیسی پری جمال لڑکیوں کا شیوہ ہے،
بلقیس:مگر آپ میری مشکلات کو نہیں سمجھتے-
اسمٰعیل : جانتا ہوں! !!
بلقیس : پھر یہ الزام کیوں لگا رہے ہیں؟
اسمٰعیل : مجھے الزام لگانے کا حق ہی کیا ہے؟
بلقیس : مگر یہ شکوہ سے لبریز لہجہ کیسا ہے؟
اسمٰعیل : بات یہ ہے بلقیس کہ"
بلقیس : قطع کلام کرتے ہوئے دیکهو تدمیر واپس آ رہا ہے وہ میری نگرانی کرتا ہے کہ میں آپ سے بات نہ کروں
نہ معلوم اسے کیا شبہ ہے خیر میں یہ کہنے آئی تھی کہ آج شب کو ذرا ہوشیار ہو کر سونا"
اسمٰعیل: چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کیوں کیا میرے لیے کوئی خطرہ ہے؟ "
بلقیس بے اختیار ہنس پڑی اور ہنسنے سے اس کا چہرہ اور بھی دل فریب ہو گیا -
اس نے کہا مجھے بات کرنا نہیں آتی میں نے کیا کہا اور آپ نے کیا سمجھا-
میرا مطلب ہے شاید میں آج رات آپ کے پاس آنے کی کوشش کروں-
اسمٰعیل : کس لئے؟
بلقیس : یہ اسی وقت بتاؤں گی اچھا اب اجازت میں جا رہی ہوں -
وہ فوراً بڑھ گئی اس نے جواب کا بھی انتظار نہ کیا-
اسمٰعیل نے اس کا دیا ہوا پھول اپنی عبا میں سینے کے قریب چھپا لیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا -
بلقیس وہاں سے چل کر اپنے گھوڑے کے پاس آ گئی تدمیر بھی اس سوار سے مل کر اپنے سپاہیوں کے پاس آیا اور کہا بہادرو ہمارا شہنشاہ خود عظیم الشان لشکر کے ساتھ آ رہا ہے آؤ اب چلیں دن بہت تھوڑا باقی رہ گیا ہے-"
فوراً سپاہی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور یہ مختصر لشکر روانہ ہوا-
کچھ دور چل کر یہ اسی تنگ گھاٹی میں پہنچے جس
میں قاصد آیا تھا یہ گھاٹی اس قدر تنگ تهی کہ صرف چار سوار برابر برابر اس میں چل سکتے تھے -
چنانچہ سپاہیوں نے چار چار کی قطاریں بنا لیں اور اسے طے کرنے لگے.
کچھ دور چل کر وہ پہاڑ کے آخری کنارے پر پہنچے اور نیچے اترنے لگے جب تمام لشکر میدان میں آ گیا تب انہوں نے وہیں قیام کر دیا -
رات کو کهانا کها کر سوئے اور صبح سویرے بیدار ہوئے جب تمام لشکر کوچ کے لیے روانہ ہوا تو دیکھا کہ اسمٰعیل غائب تھے فوراً تدمیر کو اطلاع دی گئی وہ گھبرا گیا اس نے تحقیقات شروع کر دیں-
پتہ چلا کہ رات سوتے وقت موجود تھے صبح ان کا پتہ نہیں کہاں غائب.
تدمیر اور سارے سپاہی حیران رہ گئے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنے آدمیوں میں اسمٰعیل کیسے غائب ہو گئے.
ابهی اسمٰعیل کی تلاش جاری تھی کہ وہ سپاہی بھاگتے ہوئے آئے جو بلقیس کے خیمے کا پہرہ دے رہے تھے - "
اور آ کر تدمیر کو بتایا کہ بلقیس غائب ہے وہ ڈور کر خیمے میں گیا خیمہ خالی تھا.
اب اسے اور بھی فکر ہوئی اور اس نے کہا آفسوس وہ کمبخت اس پری جمال دوشیزہ کو بھی ساتھ لے گیا ہے،
اس نے تمام سپاہیوں کو پہاڑ پر چڑھا دیا اور انہیں تلاش کرنے کو کہا-"
تمام سپاہی سارا دن پہاڑوں کا چپہ چپہ چھان آئے مگر ان دونوں کا کہیں پتا نہیں چلا-
جب رات ہو گئی تو سب واپس آ گئے اور رات بھر آرام کرنے کے بعد صبح پهر تلاش کرنے لگے غرض یہ دو دن متواتر انہوں نے ڈھونڈا مگر ان کا کہیں سراغ نہ ملا-"
لہذا مجبوراً اگلے دن وہ آگے روانہ ہوئے۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔