فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 10═(گنبد کا راز)═
🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس جماعت نے دروازے پر پہنچتے ہی کواڑ کھولے اور ایک طرف ہٹ گئے تا کہ گنبد کے اندر کی خراب و سموم ہوا خارج ہو جائے-
جب ذرا وقفہ گزر گیا تب رازرق انہیں اپنے ہمراہ لے کر اندر داخل ہوا-
یہ ایک وسیع کمرے میں پہنچے یہ کمرہ خالی تھا اور چونکہ ایک عرصہ سے بند پڑا تھا اس لیے گرد و غبار وغیرہ سے اٹا ہوا تھا -
یہ بڑھے اور سامنے والے دروازے سے نکل کر دوسرے کمرے میں پہنچے-
اس کمرے میں ایک پیتل کا بہت بڑا مہیب اور خوفناک بت کهڑا تھا - اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تهیں -
اس کے ہاتھوں میں ایک لوہے کا گرز تھا اور وہ اسے دم بدم مار رہا تھا -
بت اتنا لمبا تھا کہ اس کی ٹانگوں کے درمیان میں ایک محرابی دروازہ تھا جو کہ اتنا اونچا بنا ہوا تھا جس میں سے کہ بڑے سے قد کا آدمی بخوبی گزر سکتا تھا-
اس کے پیروں والے دروازے کے سامنے ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا جو کسی کمرے کا معلوم ہو رہا تھا مگر اس دروازے تک پہنچنا اس وجہ سے غیر ممکن تھا کہ وہ بت جو گزر مار رہا تھا کسی شخص کا ایک قدم بھی آگے بڑھانا اسے موت کو دعوت دینا تھا - "
کسی دوسری طرف سے کوئی راستہ نہ تھا.
ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سینے پر سرخ حروف میں لکھا تھا-"
میں اپنا فرض منصبی ادا کر رہا ہوں - "
رازرق نے اسے پڑھ کر کہا -
اے خوفناک بت میں طلسمی گنبد کا راز معلوم کرنے آیا ہوں اس سے میرا منشا اس گنبد کو گزند پہنچانا یا اس تخریب کرنا نہیں ہے - " لیکن بت دستور اپنے کام میں مصروف رہا اور رازرق نے ایک قدم بڑھایا-
اتفاق سے اس کا پاوں ایک ہک پر پڑ گیا اور اس کے دبتے ہی بت سیدھا کهڑا ہو گیا-
رازرق پیچھے ہٹا وہ دیکھنے لگا کہ آیا یہ بت حرکت کرتا ہے یا نہیں لیکن بت نے کوئی حرکت نہ کی-
وہ سیدھا کهڑا ہو گیا تھا اور آہنی گرز اپنے دونوں ہاتھوں میں اس انداز سے پکڑے ہوئے تھا جیسے کہ وہ حملہ کرنے والا ہے اس کی صورت نیز اس کی ڈول ڈیل وغیرہ سب خوف ناک معلوم ہو رہے تھے نیز آنکھیں اب بھی انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں _
رازرق اور اس کے ساتھی بڑھے مگر زرا ڈرتے ہوئے اس خیال سے کہ کہیں بت پهر نہ گرز مارنا شروع کر دے اور وہ سب کے سب گرز کے نیچے پس کر نہ رہ جائیں مگر بت نے حرکت نہ کی اور سب ان کے پیروں کے پیروں والے دروازے میں نکل کر دوسرے میں داخل ہوئے-
اس کے دوسری طرف ایک کمرہ تھا جس کی دیواریں سنگ مرمر کی اور چھت سفید گول اور ڈاٹ دار تهی -
اس کی دیواروں پر قد آدم سے اوپر عجیب عجیب نیز قسم قسم کے بیش قیمت پتھروں کے ٹکڑے نصب تھے -
کمرے کے عین وسط میں ایک میز رکهی تهی جو ہرقل اعظم کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی-
یہ پرانے زمانے کی صناعی کا نہایت بہترین نمونہ تھا -
نہایت خوب صورت اور سبک تهی. میز پر ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا تھا -
اس پر یہ عبارت کندہ تهی - اس گنبد کے تمام مخفیات اس بکس کے اندر محفوظ رہیں-"
رازرق نے کہا - "
واہ واہ اتنا چھوٹا سا صندوقچہ اور اس کے اندر تمام راز ہائے سر بستہ کا خزینہ ہے-"
وزیر نے کہا مگر حضور یہاں تو کوئی خزانہ نہیں ہے - "
رازرق نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا - "
ابهی یہ تم نے کیسے سمجھ لیا اس صندوقچہ کو کهولنے دو میرا خیال ہے کہ خزانہ کا راز ضرور اس کے اندر بند ہے-"یہ کہتے ہوئے اس نے پھر صندوقچہ کی طرف دیکھا-
اوپر والی تحریر کے نیچے اسے ایک اور عبارت نظر آئی جو زرا باریک تهی اس نے جھک کر پڑھا-
اس بکس کو کهولنے کی جرات صرف ایک بادشاہ کرے گا مگر اسے ہوشیار اور خبردار رہنا چاہئے کیونکہ اس کے اندر اسے ایسے واقعات نظر آئیں گے جو مرنے سے پہلے اسے پیش آنے والے ہیں-"
یہ پڑھ کر چہرہ زرد پڑ گیا اس کے پاس ہی وزیر کهڑا تھا - اس نے بھی یہ عبارت پڑهہ لی تھی-
اس نے دست بستہ ہوتے ہوئے کہا! !!
حضور بس کیجئے اب اس خطرناک صندوقچہ کو نہ کهولئیے! "
رازرق اب باقی رہ ہی گیا ہے؟ گنبد کهل چکا ہے اور صرف یہ صندوقچہ کھولنا باقی ہے.
وزیر اور اس کے اندر تمام مخفیات بند ہیں-
رازرق اور میں ان کو ہی معلوم کرنا چاہتا ہوں-
یہ کہتے ہوئے اس نے صندوقچہ کهول ڈالا-
وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صندوقچہ کے اندر ایک چمڑے کا لمبا فیتہ ہے جو کہ لوہے کی میخ پر لپٹا ہوا تھا -
اس کے دونوں طرف تانبے کی دو تختیاں لگی ہوئی تھیں-
چمڑے کے فیتے پر سواروں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں جو نیزوں تلواروں پیش قبضوں وغیرہ سے مسلح تھے -
ان کی صورتیں نورانی تهیں لیکن بڑی رعب دار فیتے کی پیشانی پر لکھا تھا -
بد قسمت اور بد اندیش بادشاہ دیکھ کر ان لوگوں کو جو تجھے سر پر حکومت سے نیچے گرا کر تیرے ملک پر قبضہ کر لیں گے-"
رازرق اس عبارت کو پڑھ کر دم بخود رہ گیا اور وزیر کی طرف دیکھنے لگا-
وزیر بھی اس عبارت کو پڑھ چکا تھا اور وہ بادشاہ کو تک رہا تھا - "
رازرق نے شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیں اور اب جو اس کی نگاہ فیتے پر پڑی تو وہ نہایت سرعت سے گھومنے لگا تھا-
سب حیرت بهری نظروں سے اسے دیکھنے لگے -
دیکھتے ہی دیکھتے ایک میدان نمودار ہوا اور اس کے ساتھ ہی شور و غل کی آوازیں بھی آنے لگیں-
میدان میں پہلے کچھ بادل سے اٹھے غبار چھایا اور جب وہ دور ہوا تو گھوڑا سوار آتے جاتے نظر آئے-
سب نہایت حیرت سے دیکھ رہے تھے -
فیتے کی تصویریں حرکت کر رہی تھیں اور خالی میدان میدان کارزار بن گیا تھا -
عجیب جان گداز واقعات پیش آنے لگے تھے جو بلترتیب ایک دوسرے کے بعد نظر آ آ کر نقش آب کی طرح سے مٹتے چلے جاتے تھے - "
انہوں نے دیکھا کہ میدان بہت زیادہ کشادہ ہو گیا ہے اور اس میں ایک طرف مسیح سوار اندلس کا علم اٹھائے صف بستہ ہیں اور دوسری طرف چوڑے چوڑے سوار اور کچھ پیدل کھڑے ہیں-
ان کی ڈاڑھیاں لمبی لمبی اور چہرے نورانی ہیں، کچھ لوگ نیزے اور پیش قبض لیے ہوئے تھے اور کچھ تلواریں-
دفعتاً طبل جنگ بجنے لگا-
نر سنگھے اور قرنے پھونکے جانے لگے اور ان کی مہیب آوازوں سے ان کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے-
ابهی یہ آوازیں گونج ہی ان کی مہیب آوازوں سے ان کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے-
ابهی یہ آوازیں گونج ہی رہی تھیں کہ اللہ اکبر کے پر زورنعرے کی آواز آئی اس آواز کو سن کر یہ سب دہل گئے-
وہ فیتے کی طرف دیکھ رہے تھے ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہر دو فریق نے حرکت شروع کی تلواریں اور نیزے بلند ہونے لگے اور خون کا دریا بہنے لگا-
آہ و فریاد کی آوازیں آنے لگیں-
خون آشام ہنگامہ آرائی دار و گیر بلند ہونے لگے.
مسیح بہت زیادہ تهے اور مسلمان بہت کم مگر اس کے باوجود عیسائی ہی زیادہ مر رہے تھے اور غنیم کا ایک آدمی بھی مرتا نظر نہیں تھا آ رہا-"
رازرق اور اس کے ساتھی ان لوگوں کو نہیں جانتے تھے وہ حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ گئے ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں تهوڑی ہی دیر بعد اس نے دیکھا کہ مسیحیوں کو شکست فاش ہو گئی ہے ان کا جھنڈا جس پر صلیب کا نشان بنا ہوا تھا زمین پر گر گیا -"
عیسائی لشکر میں سخت ابتری اور بد حواسی پھیلی ہوئی تھی وہ بھاگ رہے تھے اور ڈھیلی عباؤں والے ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر انہیں تہ تیغ کر رہے تھے - "
ہزیمت خوردہ عیسائی چیخ چلا رہے تھے -
قریب المرگ آہ زاری کر رہے تھے ان کی مختلف آوازوں سے میدان گونج رہا تھا - "
یہ لوگ اس خون آشام منظر کو دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے - "
وہ جو دیکھ رہے تھے اسے جادو کا کرشمہ سمجھ رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے-
انہوں نے پهر فیتے کی طرف دیکھا اس وقت ان کی نظر ایک سوار پر پڑی جو ریشمی لباس اور جواہرات کے زیورات پہنے ہوئے شاہی تاج اوڑھے ہوئے ایک سفید گھوڑے پر سوار کهڑا تھا - "
ان لوگوں کی طرف ان کی پشت تهی اور وہ مسیحی فوج میں سے تها اس کا لباس زیورات سب رازرق جیسے تهے اور گھوڑا بھی ایسا ہی تھا جیسا رازرق کا لڑائی والا گھوڑا تھا رازرق کے اس گھوڑے کا نام" اوریلیا" تها
یہ لوگ اور بھی حیران ہو کر اس سوار کی طرف دیکھنے لگے - "
ایک ڈهلی عبا والا آیا اور اس سے لڑنا شروع کر دیا -
مسیحی کے نیزہ لگا اور اس نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا -
اس کی صورت بالکل رازرق سے ملتی جلتی تهی -
تکلیف کی وجہ سے اس کا منہ بنا ہوا تھا اور اس کا چہرہ بگڑتا جا رہا تھا -
بالآخر وہ گھوڑے سے گر پڑا اور گرتے ہی اس کی لاش نظروں سے غائب ہو گئی -
اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر یہ سب پراگندہ اور حواس باختہ ہو گئے - "
انہوں نے دیکھا کہ تمام کمرہ اک عجیب سی روشنی سے بھر گیا ہے اور دم بدم روشنی بڑھنے لگی-
روشنی ایسی بڑی کہ آنکھیں چندھیا گئیں اسی وقت صندوقچہ میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور تمام صندوقچہ جلنے لگا-"
یہ لوگ بد حواس تو ہو ہی گئے تھے اور خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے بے تحاشا بھاگ کھڑے ہوئے-
ان کے بھاگتے وقت میز میں بھی آگ لگ گئی اور اس کے ساتھ ہی نہایت ہولناک کڑاکے کی آواز آئی جیسے کہیں بجلی گری ہو یا کوئی چٹان ہی پهٹ گئی ہو-"اس ہولناک آواز کو سن کر ان کے رہے سہے حواس بهی جاتے رہے اور وہ اور بھی تیزی سے بھاگے: جب وہ اس کمرے سے نکل کر اس کمرے میں آئے جہاں پیتل کا بت رکھا ہوا تھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بت غائب تھا اور جس جگہ بت رکھا ہوا تھا وہاں زمین پهٹ گئی تھی اور ایک غار نمودار ہوا تھا جب وہ جھپٹ کر اس غار کے کنارے پہنچے تو ان کی نظر غار کے اندر جا پڑی انہوں نے پیتل کا بت اس کے اندر پڑا ہوا دیکھا اس کی آنکھیں اس وقت مزید سرخ ہو چکیں تهی - "
ابهی یہ لوگ اسے دیکھ ہی رہے تھے کہ اس بت کا منہ کھلا ایک مہیب آواز اس کے منہ سے نکلی جو واضح طور پر ایسی تھی جیسے کوئی دیو قہقہے لگا رہا ہو یا طوفان آ گیا ہو یا بادل ہولناک آواز میں گرج رہا ہو،
اس گرج کے ساتھ ایک اور تڑاخے کی آواز آئی اس کمرے کی چھت ، جس میں وہ کھڑے تھے صندوقچہ اور میز تها ، گری اور گرتے ہی روشنی اور بھی زیادہ تیز ہو گئی ۔۔۔
یہ سب غار کو کود کر بھاگے اور پھاٹک کے قریب والے کمرے سے نکل کر دروازے کو پھلانگتے ہوئے باہر آئے انہوں نے باہر آ کر دیکھا کہ دونوں بوڑھے مرے پڑے ہیں-"
ان بے شمار غیبی آفات کے نظاروں نے ان کا دل دہلا دیا وہ بغیر ادھر ادھر دیکهے وہاں سے بھاگے اور قلعہ کوہ سے اتر کر اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے-
جس وقت وہ گھوڑے پر بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے پورے گنبد کو جلتے ہوئے دیکھا-
آگ کے شعلے نہایت اونچے اڑ رہے تھے دیوار کے پتهر پلاسٹر کا چونا اور دوسری چیزیں چٹخ چٹخ کر دور جا کر گر رہے تھے اور جس جگہ گرتے وہاں آگ لگا دیتے-
اس وقت رات ہو گئی تھی اور گنبد کی آگ کے شعلے تمام چٹانوں کو روشن کر رہے تھے - "
اب ان لوگوں کو وہاں ٹھہرنا دشوار ہو گیا تھا انہوں نے گھوڑوں کو مہمیزیں لگائیں اور نہایت تیزی سے روانہ ہوئے
ان پریشان کن اور ہولناک واقعات کو دیکھ کر رازرق اور اس کے ساتھی نہایت خوفزدہ ہو گئے -
جب انہوں نے گنبد کو جلتے اور اس کی دیواروں کو چٹختے ہوئے دیکھا تو وہ پہلے سے خوفزدہ بد حواس ہو گئے -
انہیں یہ اندیشہ ہو گیا کہ کہیں پتهر کا ٹکڑا ان میں سے کسی کے اوپر آ کر نہ پڑے اور وہ ان کو کو بھی خس و خاشاک کی طرح سے تباہ و برباد نہ کر دے-
اس لئے وہ نہایت تیزی سے گھوڑے ڈورا کر چل پڑے-"
رات کافی ہو چکی تھی اور ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا -
اس وجہ سے ان کے گھوڑے ٹھوکریں کھاتے چل رہے تھے -
ان لوگوں کے گھوڑے ان سے بھی زیادہ خوف زدہ اور ان سے زیادہ پریشان ٹھوکریں کھاتے ہوئے چل رہے تھے -
وہ بغیر کسی قسم کے اشارے کے خود ہی اپنی رفتار سے بھاگ رہے تھے -
آخر اللہ اللہ کر کے درہ ختم ہوا اور وہ نشیبی گھاٹی کی طرف چلے-
غرض کہ جوں توں کر کے وہ پہاڑ سے نیچے اترے اور سراسیمگی کے عالم میں طلیطلہ کی جانب روانہ ہوئے-
جب قلعہ قریب آ گیا اور انہیں اطمینان ہو گیا کہ اب کوئی اندیشہ باقی نہیں ہے تو انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا انہیں اس جگہ جہاں گنبد جل رہا تھا آسمان پر روشنی نظر آئی-
رازرق :کس قدر دہشت ناک منظر تهے؟
وزیر:وحشت ناک بھی اور عجیب و غریب بهی-
رازرق:دراصل میں نے اسے خزانہ سمجھا تھا -
وزیر: لیکن میں نے حضور سے عرض کیا تھا کہ خزانہ نہیں ہے وہاں-
رازرق: کاش اس منحوس گنبد کو میں نے کھولا ہی نہ ہوتا-
وزیر:مگر ہونا تو یہی تھا -
رازرق: یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ پتہ نہ چلا کہ یہ کون لوگ تھے جو کہ اس فیتے میں نظر آئے؟
وزیر: میرے خیال میں وہ عرب تهے -
رازرق :مسلمان عرب؟
وزیراعظم :جی ہاں!
رازرق نے افسوس ناک لہجے میں کہا-"تو کیا اندلس پر حملہ کریں گے مسلمان؟
وزیر :میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے آپ کے سپہ سالار کو ہزیمت دی ہے وہ مسلمان ہی ہیں-"
رازرق :اور یہ خیال صحیح ہے کیونکہ جس لباس اور صورت کے آدمی ہم نے دیکهے ہیں گنبد میں ایسے ہی تدمیر نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا -
وزیر :اور حضور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ کمبخت مسلمان جس علاقے پر حملہ کرتے ہیں اسے فتح کئے بغیر نہیں چھوڑتے-
رازرق :ہاں یہی بات سنی ہے،ان بد بختوں کو کونٹ جولین ہم پر چڑھا لایا ہے؟
وزیر :اس نے نہایت نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ نہیں جانتا کہ اگر انہوں نے اندلس کو فتح کر لیا تو سیوطا کو کیوں چھوڑ دیں گے -
رازرق :افسوس یہ ہے کہ اس نے عیسائی ہوتے ہوئے بھی ملک و قوم سے غداری کی ہے-
وزیر :لیکن جولین اس قماش کا آدمی نہیں تھا اسے ضرور کوئی ایسا رنج پہنچا ہے جس سے کہ وہ ایسی نازیبا حرکت کر بیٹھا ہے-
رازرق :رنج اسے بھی کیا کم ہے کہ اس کا خسر ڈنرا تخت سے محروم ہو گیا ہے-"
وزیر :بے شک ٹھیک فرمایا ہے آپ نے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معزول بادشاہ ڈنرا بھی اس کا شریک کار ہے-
رازرق :یقیناً لیکن ان دونوں بد بختوں نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مسلمان اندلس پر قبضہ کر کے کسی کو بھی تخت پر بیٹھنے دیں گے -
وزیر :یہ ان کی بڑی کم فہمی ہے-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
اب یہ سب قلعہ کے دروازے میں داخل ہوئے اور خاموش ہو گئے - رازرق چالاک تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو اصل حال معلوم نہ ہو کیونکہ اس میں اس کی بھی رسوائی تهی -
وہ سارا الزام ڈنرا اور جولین کے ذمہ اس لیے تھوپ رہا تھا تا کہ عوام الناس کے خیالات ان دونوں کی طرف سے خراب ہو جائیں گے اور وہ انہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگیں-
قلعے کے اندر پہنچتے ہی وہ شاہی قصر کی جانب چلے وہاں پہنچ کر رازرق گھوڑے سے اتر کر محل میں داخل ہو گیا اور باقی لوگ واپس چلے گئے-
جس وقت رازرق اپنے کمرے میں پہنچا تو نائلہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا-
وہ گنبد کے واقعات دیکھ کر کچھ ایسا خوف زدہ ہو گیا تھا کہ اب تک بھی پریشانی اور فکر کی علامات اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھیں
نائلہ نے اسے دیکھتے ہی کہا کہیے خزانہ دریافت ہوا؟
رازرق نے بیٹھتے ہوئے کہا وہاں خزانہ تها ہی نہیں.
نائلہ :اور کیا تھا؟
رازرق :کچھ بھی نہیں ۔ ایک شعبدہ بازی تهی جادو نگاری تهی -
اس کے بعد اس نے تمام وہ واقعات جو اس نے گنبد میں دیکهے تهے بیان کر دئیے نائلہ ان واقعات کو سن کر حیران ہو رہی تھی -
جب وہ سب کچھ سنا چکا تو نائلہ نے کہا :دیکھئے آپ نے ضد کر کے کیسی بڑی غلطی کر دی ہے-
رازرق :ہاں مجھے بھی افسوس ضرور ہے کہ ایک تاریخی عمارت جل کر راکھ ہو گئ-
نائلہ :اور یہ مطلق خیال نہیں ہے کہ جو کچھ وہاں دیکھا وہ سچ مچ پیش نہ آ جائے.
رازرق :اس کا میں قائل نہیں ہوں!
کمرے میں روشنی ہو رہی تھی - اس روشنی میں خود نائلہ کا چہرہ مہ کامل کی طرح چمک رہا تھا وہ بے حد حسین تهی. تیز روشنی کے عکس نے اسے پہلے سے زیادہ حسین بنا دیا تھا -
نائلہ :کیا تدمیر کو کسی دشمن کے مقابلہ میں شکست ہو گئی ہے؟
رازرق :ہاں عجیب بات ہے کہ جیسے لوگ میں نے گنبد میں دیکهے تهے ویسے ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے شکست دی ہے میں ان سے لڑنے کے لیے عنقریب جانے والا ہوں-
نائلہ :ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے
رازرق :وہ مسلمان ہیں اور ان سے جنگ کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے -
نائلہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا مسلمان ہیں؟
رازرق :ہاں! !!!
نائلہ :پھر تو ملک اور قوم کا اللہ ہی حافظ ہے آہ آپ نے ایسی غلطی کیوں کر دی-"
رازرق :میں نے غلطی کی؟
نائلہ :آپ نے کونٹ جولین کو ناراض کر دیا ہے
رازرق :میں بتا چکا ہوں کہ وہ سرا سر جھوٹا ہے بات کچھ اور تھی اور اس نے کچھ اور۔۔۔۔
نائلہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا بس معاف کیجئے اور ہاں میں اس گفتگو کو طول نہیں دینا چاہتی، اس وقت میں اس لئے آئی تھی کہ آپ سے دریافت کروں کہ خزانہ دستیاب ہوا کہ نہیں اب میں جا رہی ہوں-
نائلہ اٹهہ کر فوراً چلی گئی رازرق کو اسے روکنے کی جرات نہ ہوئی اس کی بے رخی دیکھ کر اسے لگا کہ اسے فلورنڈا کا صحیح واقعہ معلوم ہو گیا ہے-"
آج صبح ہوتے ہی وہ سخت پریشان تھا جو واقعات بھی آج رونما ہوئے وہ ایک سے ایک تکلیف دہ تهے -
اس نے کهانا بھی نہیں کھایا اور سیدھا اپنی خواب گاہ میں چلا گیا-
صبح بیدار ہوتے ہی اس نے اپنے سپہ سالار کو بلا کر کوچ کی تیاری کا حکم دیا سپہ سالار نے حکم سنتے ہی اسی روز سامان حرب نیز تھوڑا تھوڑا لشکر بھی بھیجنا شروع کر دیا -
چند روز کے بعد رازرق معہ اپنے مشیروں اور بہادروں کے روانہ ہوا اسے اس کی رعایا نے نہایت جوش و خروش کے ساتھ روانہ کیا اور پورے نوے ہزار لشکر لے کر شیران اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے قرطبہ کی طرف روانہ ہوا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔