تفرد کسی بھی فقیہ و عالم کی اس رائے کو کہتے ہیں ''جس میں وہ شخص جمہور امت سے منفرد الگ موقف پر قائم ہو اور جمہور علماء نے اس کو قبول عام نہ بخشا ہو''. بہر صورت اس طرح کے تفردات تقریبا ہر فقیہ سے متعلق مل جاتے ہیں ؛ لیکن مسائل میں تفرد کے باوجود سلف صالحین کی جانب سے اس پر اصرار دکھائی نہیں دیتا، انہوں نے ان شذوذ کو عوام میں انتشار کا ذریعہ نہیں بنایا ؛ بلکہ ہمیشہ جمہور کی پیروی پر آمادہ کیا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سے ابلاغ و ترسیل کے ذرائع عام ہوئے اور سوشل میڈیا کی شکل میں ہر بندر کے ہاتھ ماچس تھما دی گئ، تب سے آزادیٔ اظہار خیال کے خوشنما خول و دلفریب نعروں کی گونج میں ہر کہہ و مہہ مختلف شیطانی ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے عوام کو گمراہی کے دہانے پر پہنچانے کی تاک میں بیٹھا ہے، انہی نادیدہ دانشور حضرات کے شذوذ و تفرد سے احتیاط برتنے سے متعلق ''معاویہ بن قرّہؒ '' فرماتے ہیں :
" إيّاكَ والشّاذَّ من العلمِ!" علمی تفردات سے خود کو بچاؤ!
(شرح علل الترمذی، لابن رجب الحنبلی، 2/ 625، مكتبة المنار)
چنانچہ حافظ ابن حجرؒ " التلخیص الحبیر" میں بحوالہ "معمرؒ " لکھتے ہیں:
لو أنّ رجلاً يأخد بقول أهل المدينة في استماع الغنيٰ،وإتيان النساء في أدبارهن، وبقول اهل الكوفة في المُسْكِرِ، كان شَرَّ عبادِ اللّٰهِ.
( التلخيص الحبير، 3/ 398، رقم الحديث: 1543، طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان)
ترجمہ: "اگر کوئی شخص اہل مدینہ کی وجہ سے گانےاور بیوی کے قریب غیر فطری راستے سے جانے کے جواز کا قول اختیار کرے اور اہل کوفہ کی وجہ مسکر کو حلال پیش کرے تو وہ مخلوق خدا میں بدترین شخص ہے"۔
*ذوقِ تفرد کے نقصانات*
جمہور امت کی رائے کے برعکس راہِ تفردات اختیار کرنا ایک بڑے خطرے اور فتنے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے اور اس پُرخار وادی میں قدم رکھنا ہی نہایت نقصان دہ عمل ہے، چنانچہ بسا اوقات ذوق انفرادیت کا یہ بڑھتا رجحان ہوائے نفس کے داؤ پیچ میں الجہاکر علمی زَلّت و لغزش کا باعث واقع ہوتا ہے، جس کی شر انگیزی اور نقصان کا ذکر ''ابوالحسن کرابیسیؒ '' نے سوال و جواب کی صورت اختیار کرکے یوں ذکر کی ہے:-
فإن قال قائل: هؤلاء من اهل العلم! قيل له: إنما يهدم الإسلامَ زلةُ عالمٍ، ولا يهدم زلةُ ألفِ جاهلٍ.
(طبقات الشافعية، 2/ 125، دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع)
" اگر کوئی معترض یوں کہے: کہ (یہ شاذ رائے پیش کرنے والے ) یہ سب تو اہل علم ہیں ( جس کا نقصان بھلا کیسے متعدی ہوسکتا ہے ؟) جواب دیا جائے گا:- کہ اسلام کی قائم شدہ عمارت کو منہدم کرنے کا مؤثر سبب عالم دین کی لغزش ہی ہوسکتی ہے ؛ باقی جاہل شخص کی ہزار لغزش سے بھی اس کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
اسی نقطۂ نظر کی حساسیت کو حسی مثال سمیت پیش کرتے ہوئے ''حؔافظ ابن عبد البرؒ '' لکہتے ہیں:
"شبَّهَ العلماءُ زلةَ العلم بانكسار السفينة ؛ لأنها إذا غرقت، غرقت معها خلق كثير ".
( جامع بيان العلم وفضله، 2/982 دار ابن الجوزي، رقم: 1873)
" عالم کی لغزش و زلّت کو حکماء نے کشتی کے ٹوٹنے سے تشبیہ دی ہے ؛ اس لیے کہ کشتی کا ٹوٹنا بہت سے انسانوں کو ڈبو دیتا ہے" ۔
( *ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہ: مئی / جون، سنہ: 2024، صفحہ: 42، طبع:مختار پرنٹنگ پریس، دیوبند*)