مری تقدیر شکوہ سنج دور آسماں کیوں ہو
ملے جب درد میں لذت تلاش مہرباں کیوں ہو
شریک لذت آزاد کوئی ہم زباں کیوں ہو
تمہیں بتلاؤ معنی خیز میری داستاں کیوں ہو
وہی دل ہے وہی خواہش وہی تم ہو وہی میں ہوں
مری دنیا میں آخر انقلاب آسماں کیوں ہو
وہ میرے بعد روتے ہیں اب ان سے کوئی کیا پوچھے
کہ پہلے کس لئے ناراض تھے اب مہرباں کیوں ہو
بگولوں میں اڑے جب خاک میرے آشیانے کی
قفس کی سمت ہی یا رب ہوائے گلستاں کیوں ہو
تمہیں فریاد رس کہتے ہیں میں فریاد کرتا ہوں
تمہیں آخر بتاؤ پھر یہ کوشش رائیگاں کیوں ہو
ستانا ہی اگر منظور ہے کہہ دو ستاتے ہیں
مری تقدیر کے پردہ میں میرا امتحاں کیوں ہو
ہمیں معلوم ہے طالبؔ حقیقت راز ہستی کی
مگر اس بے حقیقت کی حقیقت ہی عیاں کیوں ہو
شاعر: طالب باغپتی