ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی : آٹھواں اور آخری حصہ


تحریر: مرزا فرحت اللہ بیگ
☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
اس تیزی طبع کے ساتھ صاف گوئی بھی بلا کی تھی۔ جو کہنا ہوتا وہ کہے بغیر نہ رہتے تھے۔ اس میں کسی لفٹننٹ گورنر پر ہی حملہ کیوں نہ ہو جائے۔ 1904 میں لارڈ کرزن کا ایک لکچر ہوا، اور اس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک ہندوستانی یورپ والوں کی طرح سچ بولنے کی عادت نہ ڈالیں گے اس وقت تک ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ اخباروں میں لکچر پڑھ کر مولوی صاحب کو بہت غصہ آیا۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ اس کے چند ہی روز بعد ہمارے کالج میں سالانہ جلسہ ہوا، اور لارڈ لیفر اے، جو ہندوستان کے لاٹ پادری تھے، تشریف لائے۔ شامت اعمال سے انہوں نے بھی اپنے لکچر کا موضوع یہی قرار دیا۔ کالج کی کی طرف سے لاٹ صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مولوی صاحب تجویز کیے گئے۔ اب کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے۔ جو کچھ دل میں بخار بھرا تھا، خوب اچھی طرح نکال لیا۔ کالج والے حیران تھے کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے! مولوی صاحب شکریہ ادا کر رہے ہیں یا لاٹ صاحب پر اعتراضات مگر انہوں نے جب تک اپنے دل کی بھڑاس نہ نکال لی، خاموش نہیں ہوئے۔ 

سب سے پہلے انہوں نے ہندوستان کے مغربی اثر کو نہایت پر مذاق پہلو سے بیان کیا۔ فرمانے لگے، حضرات! پائجامہ اچھا ہے یا پتلون؟ ہم پرانے آدمی تو موسم کے لحاظ سے اٹھنے بیٹھنے کی سہولت و آرام کے لحاظ سے پائجامے ہی کو اچھا کہیں گے، مگر آج کل کے ہندوستانی صاحب پتلون کا ساتھ دیں گے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہم اچکن یا انگرکھے کو اچھا کہیں گے، اس سے ستر ڈھکتا ہے، آدمی بھاری بھر کم معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے یورپ کے دل دادہ بھائی کوٹ کو پسندکریں گے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ یہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہم بڈھے سلیم شاہی جوتی پر جان دیں گے کیوں کہ اس میں پیر کو آرام ملتا ہے، نرم اور سبک ہوتی ہے۔ ہمارے فیشن کے عاشق فل بوٹ کا انتخاب کریں گے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ یہ انگریزوں کا پہناوا ہے۔ ہمارے پاس اپنی پرانی ہر چیز کےاچھے ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ ان کے پاس صرف ایک جواب ہے کہ یورپ والے ایسا پہنتے ہیں۔ اور بھئی! ہے بھی یہی بات۔ قسمت نے ہم کو انگریزوں کے ماتحت کر دیا ہے، ان کی ہر چیز ہمارے لیے قابل تقلید ہے اور ان کا فعل ہمارے لیے چراغ ہدایت۔ 

اب افعال سے گزر کر اقوال پر نوبت آ گئی ہے۔ پادری کرزن، تھوڑے ہی دن ہوئے، فرما چکے ہیں کہ ہندوستانی سچ چھوڑو اور انگریزی سچ بولا کرو۔ آج ہمارے پادری لیفراے بھی ان کے ہم نوا ہوئے ہیں۔ یا تو انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں کے سچ اور یورپ کے سچ میں فرق ہے اور وقت آگیا ہے کہ پائجامے کی طرح ہندوستانی سچ کو اتار پھینک دیا جائے اور پتلون کی طرح ولایتی سچ پہن لیا جائے۔ یا ان کا یہ خیال ہے کہ ہندوستان کے کسی مذہب نے سچ کی تلقین ہی نہیں کی ہے اور یہ نیا مال دساور ہو کر ولایت سے آیا ہے۔ بہر حال کچھ بھی ہو، اب تمہارے پرانے سچ کی قدر نہیں رہی ہے۔ 

خدا کے لیے اپنا بھلا چاہتے ہو تو ان لاٹ صاحبوں کا حکم مانو۔ یہ بڑے لوگ ہیں۔ مولوی نذیر حسین یا پنڈت بانکے لال نہیں ہیں کہ انہوں نے ہندوستانی سچ بولنے کی ہدایت کی اور تم ہنس کر ٹال گئے۔ لاٹ صاحبوں کی بات نہ مانو گے اور ولایتی سچ نہ بولو گے اور یہ تازہ مال استعمال نہ کر وگے تو یاد رکھو نوکری ملنی مشکل ہو جائے گی اور نوکری نہ ملی تو روٹیوں کی محتاج ہو جائے گے، کیونکہ دونوں لاٹ صاحبوں نے یہ ہدایت نہیں کی ہے کہ نوکری کا خبط چھوڑو اور تجارت یا صنعت و حرفت اختیار کرو۔ اسی سے تمہارے دلدر دور ہوں گے۔ 

آخر میں مولوی صاحب نے تھوڑا بہت لارڈ لیفر اے کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ لاٹ صاحب اردو بہت اچھی جانتے تھے۔ مولوی صاحب کی اس پر مذاق تقریر پر مسکراتے رہے مگر دل کا خدا ہی مالک تھا۔ کالج کے منتظمین کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مگر یہاں ’’تیر از کمان جستہ‘‘ کی صورت تھی۔ کیا کر سکتے تھے البتہ دل میں انہوں نے ٹھان لی ہوگی کہ آئندہ مولوی صاحب کو شکریہ ادا کرنے کی تکلیف نہ دینا ہی مناسب ہوگا۔ 

اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد میں حیدر آباد چلا گیا۔ پھر دو دفعہ دہلی میں میرا مولوی صاحب سے ملنا ہوا۔ پہلی دفعہ جو ملا تو یہ وہ زمانہ تھا کہ ’’امہا ت الامہ‘‘ کی وجہ سے مولوی صاحب پر بڑی لے دے ہو رہی تھی۔ میں نے اس کا ذکر چھیڑا۔ کہنے لگے، بھئی مجھے تو اس کتاب میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے لوگ اس طرح بر انگیختہ ہو جائیں۔ تم نے بھی یہ کتاب دیکھی ہوگی۔ آخر تم ہی بتاؤ اس میں میں نے کون سی ایسی نئی بات لکھی ہے؟ میں نے خود ’امہات الامہ‘ نہیں دیکھی تھی مگر میں مولوی صاحب کے طرز تحریر سے واقف تھا۔ اس لیے میں نے یہی کہا کہ مولوی صاحب آپ کا طرز تحریر مذاق کا پہلو لیے ہوتا ہے۔ وہ کچھ قصے کہانیوں ہی میں مزا دیتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں اور خاص کر مذہبی معاملات میں وہ کسی طرح کھپ نہیں سکتا۔ اگر لوگوں کو اعتراض ہوگا تو آپ کے طرز تحریر ہی کے متعلق ہوگا۔ 

مولوی صاحب نے کہا، میرے کلام مجید کے ترجمے کے متعلق یہ اودھم کیوں نہیں مچا؟ میں نے کہا، اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہیں مگر اس میں آپ کا معاملہ اللہ میاں سے ہے اور یہاں انسانوں سے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’با خدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار۔‘‘ کچھ سوچتے رہے پھر کہنے لگے، کہتے تو سچ ہو۔ اس قسم کی تالیفات میرے دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔ انشاء اللہ دوسرے ایڈیشن میں نقص کو رفع کر دوں گا۔ 

جب میں چلنے لگا تو فرمایا، کہو بیٹا! پھر ملوگے؟ ابھی تو تمہارے جانے میں بہت دن ہیں۔ میں نے کہا، انشاء اللہ ضرور آؤں گا۔ ہنس کرکہنے لگے، انشا ء اللہ کہنے کے بعد تم ضرور آؤگے! مسلمانوں کو جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو ہزاروں قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ یہ کام میں ضرور کروں گا۔ مگر جب کام کرنے کو جی نہی چاہتا تو ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ انشاء اللہ ضرور کروں گا۔ ہم تو اس کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اس کام کے کرنے کا تو ارادہ نہیں ہے۔ ہاں اگر خدا نے چاہا اور زبردستی یہ کام کرا دیا، تو مجبوراً کر لیں گے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب آپ کو انشاء اللہ کے یہ معنی پہنانے مناسب نہیں۔ آپ مذاقیہ پہلو مذہبی معاملات میں بھی نہیں چھوڑتے۔ کہنے لگے، میاں! پہلے انشا ء اللہ کے معنی دوسرے تھے۔ آج کل مسلمان وہی معانی لیتے ہیں جو میں نے بیان کئے۔ 

خدا کی قدت دیکھو کہ اسی ر ات کو عین میرے پلنگ کے نیچے طاعون کا چوہا مرا اور صبح ہی کے میل سے میں ایسا دہلی سے بھاگا کہ حیدر آباد آ کر دم لیا۔ 

دوسری دفعہ جو میں ملا تو مولوی صاحب کی صحت جواب دے چکی تھی۔ چھت پر جو چھوٹا کمرا تھا اس میں آ رہے تھے۔ رعشے میں اضافہ ہو گیا تھا۔ آنکھوں سے بھی کم دکھائی دیتا تھا۔ پلنگ پر بیٹھے رہا کرتے تھے۔ میں نے کمرے کے دروازے میں قدم رکھتے ہی بڑے زور سے سلام کیا۔ کہنے لگے، ہیں یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے کہا، میں ہوں۔ پھر پوچھا، آخر ’’میں‘‘ کون صاحب ہوئے؟ نام کیوں نہیں بتاتے۔ ارے بھائی! اب مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا، ذرا قریب آؤ۔ میں نے کہا، واہ مولوی صاحب واہ! اگر آواز سے نہیں پہچانا، تو خوب پہچانا، دور سے پہچانیئے تو بات ہے۔ ایک دفعہ ہی ہنس پڑے اور کہنے لگے، اوہو، میاں فرحت ہیں! بھلا اور کون یہ بے تکی باتیں کرے گا۔ آؤ بیٹا آؤ۔ اب کے تو کئی برس کے بعد آئے۔ 

میں پاس گیا، گلے لگایا، حالات پوچھتے رہے۔ باتیں کرتے کرتے کہا، ذرا دیکھنا بھی گھڑی میں کیا بجا ہے؟ میں نے گھڑی دیکھ کر کہا کہ ساڑھے نو میں پانچ منٹ ہیں۔ کہنے لگے، او ہو دیر ہو گئی! ذرا میرا جوتا اور جرابیں تو لے آؤ۔ میں نے لاکر جرابیں پہنائیں۔ جوتا سوکھ کر لکڑی ہو گیا تھا وہ زبر دستی پاؤں میں ٹھونسا۔ جوتا پہن کر کھڑے ہوگئے۔ میں نے کھونٹی پر سے اتار کر شیروانی اور ٹوپی دی۔ وہ پہن کر کہنے لگے، چلو بھئی چلو وقت تنگ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، مولوی صاحب آخر کہاں جانا ہے؟ کہنے لگے، بیٹا! آج ایک مقدمے کی پیشی ہے، وہاں جا رہا ہوں۔ ذرا مجھ کو کشمیری دروازے تک تو لے چل۔ 

میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے اترے۔ باہر دیکھوں تو کوئی سواری نہیں۔ میں نے کہا مولوی صاحب! خدا کے لیے اب اس عمر میں تو اس طرح پیدل نہ پھرا کیجئے! خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے، آخر یہ کس دن کے لیے ہے؟ روپیہ اسی لیے ہوتا ہے کہ خرچ کیا جائے۔ بال بچوں کی طرف سے بھی بے فکری ہے۔ کیوں اس بڑھاپے میں آپ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ ذرا اپنی حالت کو دیکھئے اور کشمیری دروازے کو دیکھئے! یہ دو میل آنا جانا آپ کو مضمحل کر دے گا، ذرا ٹھہر جائیے۔ میں گاڑی لے آتا ہوں۔ بہت بگڑے اور کہنے لگے، تجھ کو میرے معاملے میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے! اب چلتا ہے تو چل نہیں میں کسی اور کو بلاتا ہوں، ابھی میرے ہاتھ پاؤں نے ایسا جواب نہیں دیا ہے کہ کشمیری دروازے تک نہ جا سکوں۔ 

میں نے کہا، مولوی صاحب! خدا کے لیے اب تو گاڑی رکھ لیجئے۔ اگر آپ خرچ نہیں اٹھاتے میں اٹھاؤں گا۔ ہنس کر کہنے لگے، کیوں نہ ہو، روپیہ اچھلنے لگا ہے۔ کیا میرے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ گاڑی نہ رکھ سکوں۔ بیٹا! بات یہ ہے کہ پہلے تو میں اس لیے گاڑی گھوڑ ا نہیں رکھا کہ سائیسوں سے ڈر لگتا تھا۔ ایک تو دانہ گھاس چراتے ہیں، دوسرے گھوڑے کی مالش نہیں کرتے، تیسرے گاڑی کا آج یہ توڑا، کل وہ توڑا، کون بیٹھے بٹھائے اپنی بھلی چنگی جان کو یہ عذاب لگائے اور دن رات کا فکر مول لے۔ رفتہ رفتہ پیدل پھرنے کی عادت ہو گئی۔ اب آخری عمر میں گاڑی کی ضرورت ہوئی تو گاڑی رکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ تمام عمر تو مولوی صاحب جوتیاں چٹخاتے پھرے، اب بڑھاپے میں گاڑی پر سوار ہو کر پھرتے ہیں۔ 

نا بھئی نا! اب گاڑی رکھنا وضع داری کے خلاف ہے۔ میں نے کہا، تو کمیشن ہی جاری کرا لیا ہوتا۔ کہنے لگے، وہ بھی میری وضع داری کے خلاف ہے۔ بہر حال یہی حجتیں کرتے کرتے کچہری پہنچ گئے۔ ڈپٹی صاحب کو اطلاع ہوئی۔ انہوں نے مولوی صاحب کو اپنے کمرے میں بٹھایا اور سب سے پہلے ان کا مقدمہ لے کر ان کی شہادت قلم بند کی اور یہ جس طرح گئے تھے اسی طرح ہانپتے کانپتے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر آ گئے۔ 

حیدر آباد آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس چہکتے ہوئے بلبل نے گلشن دنیا سے کوچ کیا۔ جب کبھی دہلی جاتا ہوں تو مولوی صاحب کے مکان پر ضرور جاتا ہوں۔ اندر قدم نہیں رکھتا مگر باہر ہی بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے دیکھا کرتا ہوں۔ اور رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر زبان پر آتا ہے، 

یہ چمن یوں ہی رہے گا، اور سارے جانور 

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے 

اللہ بس، باقی ہوس
✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ

𑁔𑁔★ ختم شُد۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔  

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی