سالِ نو کا آغاز جب بھی ہو تو عرب و عجم میں کہیں بھی آباد مسلمان ہو، تو انہیں ہجری سال کے آغاز میں خوشی ہوتی ہے،
کیوں کہ تاریخ اسلام کا تمام تر سرمایہ انہی قمری مہینوں اور ہجری تاریخوں سے وابستہ ہے،
ارکان اسلام، حج و عمرے، نماز و روزے، اور عید و قربانی جیسے شعار اسلام کا تعلق اسی کے ساتھ تقویم ہے،
پچھلے محرم الحرام سے آج تک ہر دن اور تاریخ کے ساتھ ۱۴۴۵ لکھتے تھے، لیکن یہ سال بھی آج تک ہمارے بیچ مہمان رہ کر ہم سے رخصت ہوگیا،
یہی معلوم ہوتا ہے، کہ زندگی کے روز و شب کا سلسلہ ایک اور بیت گیا۔ زندگی کی بائیس سے زیادہ کھلتی بہاریں دیکھنے والا مسافر اپنے پس پشت اور ماضی کے طرف نظر دوڑا تاہے، تو بچپن کی شرارتوں، لڑکپن کی شوخیوں، معصومانہ شرارتوں کے یادوں بھرے لمحات اور جوانی کی شادمانیوں۔ گزرتی عمر کی کہانیوں۔ عنفوان شباب کی کامیابیوں اور نا کامیوں کا ایک نقشہ چلنے لگتاہے۔
کہیں اجڑی اجڑی سی منزل۔ کہیں سرد موسموں کی ٹھنڈی ہوائیں۔ کہیں زرد پتوں کے اداس شجر۔ نہ جانے کون کہاں بچھڑ گیا۔ کہیں خوشیوں کی رونقیں۔ کہیں غموں کی محفلیں۔ کبھی صبح کی خوبصورت زندگی۔ کبھی ڈوبتی شام کے زخمی منظر۔ اسی چند روز کا نام زندگی ہے۔ جو فنا ہورہی ہے۔ جس نے لا تعداد انسانوں کو کل نفس ذائقة الموت کے حوالے کردیا۔ اور کیے جا رہی ہے،
رب کریم سے یہی دعا کہ وہ اس نئے سال کو ہمارے لیے انفرادی و اجتماعی مسرتوں اور قومی و ملی خوشیوں کا پیامبر بنائے،
اور سب کا خاتمہ بالخیر اور ایمان پر فرمائے،
آمین ثم آمین۔
منقول۔۔۔