ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی : ساتواں حصہ


 تحریر: مرزا فرحت اللہ بیگ


☰☲☷ گذشتہ سے پیوستہ ۔ ۔ ۔ ☷☲☰
کتابیں تو کتابیں، میں نے مولوی صاحب کی ایل ایل ڈی کی گون پر قبضہ کرنے کا فکر کیا تھا۔ ہوا یہ کہ جب میں اور دانی بی اے میں پاس ہوئے تو جلسہ تقسیم اسناد کے لیے لاہور جانا پڑا۔ گون بنوانا بے ضرورت سمجھا گیا۔ اب خیال ہوا کہ گون کس کی چھینیں۔ دانی کو تو گون مل گئی۔ میں نے مولوی صاحب کی گون تاکی۔ ہم دونوں مل کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا۔ کہنے لگے، بیٹا! میری گون بڑی قیمتی ہے۔ ساڑھے چھ سو روپے میں دو گونیں پڑی ہیں۔ بھلا میں کیا خریدتا، یہ میاں مشرف نے میری سرمنڈھ دیں۔ و ہ ایڈمبرا میں پڑھتے تھے، مجھے لکھا کہ اپنی تمام تصنیفات و تالیفات کی نہایت عمدہ جلدیں بندھوا کر بھجوا دیجئے، سر ولیم میور دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

سر ولیم میور پہلے ممالک مغربی و شمالی کے لیفٹیننٹ گورنر تھے، مجھ پر بھی بہت مہربان تھے۔ میں نے مشرف کے لکھے کو سچ جانا، کتابوں کی جلدیں بندھوا ایڈمبرا روانہ کر دیں۔ ان کتابوں میں میرا کلام مجید کا ترجمہ بھی تھا۔ وہ بہت پسند کیا گیا۔ سر ولیم میور نے یہ کتابیں ایڈمبرا یونیورسٹی میں پیش کر دیں اور ہمیں گھر بیٹھے ایل ایل ڈی کی ڈگری مل گئی۔ مگر اس ڈگری کی اطلاع میرے پاس بعد میں آئی پہلے ایک درزی کا خط اور بل آیا کہ مسٹر مشرف کی فرمائش کے بہ موجب ایل ایل ڈی کی ایک سیاہ اور ایک سرخ گون مع ٹوپی کے روانہ کی گئی ہے، براہ کرم جس قدر جلد ممکن ہو ساڑھے چھ سو روپے روانہ فرمائیے۔ 

میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ الہی یہ کیا مراجرا ہے! یا تو مشرف دیوانہ ہوگیا ہے یا یہ درزی پاگل ہے کہ بیٹھے بٹھائے بل روانہ کر رہا ہے۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گون کا پلندا بھی آ گیا۔ غرض اسی شش و پنج میں ایک ہفتہ گزر گیا۔ دوسری ڈاک سے ایل ایل ڈی کی ڈگری ملنے کا مراسلہ اور میاں مشرف کا خط ملا۔ قہر درویش پر جان درویش، درزی صاحب کو رقم روانہ کی، مشرف کو برا بھلا کہا کہ وہاں سے یہ تھیلے بنوا کر بھجوانے کی کیا ضرورت تھی، میں یہاں اپنے ناپ کی گون بنوا لیتا۔ بہر حال یہ گونیں ساڑھے چھ سو روپے کی ہیں، معاف کیجئے میں نہیں دے سکتا۔ جا کسی پروفیسر کی گون چھین کر کیوں نہیں لے جاتا جو میرے پیچھے پڑا ہے۔ 

میں یہ قصہ بیٹھا سنتا رہا۔ اس کے بعد بغیر کچھ کہے سنے اٹھا اور مولوی صاحب کے سامان کی کوٹھری کا رخ کیا۔ وہ ’’ہاں ہاں ہاں‘‘ کہتے رہی رہے، میں نے کنڈی کھول، اندر گھس، الماری سے کالی گون نکال ہی لی۔ جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ پانی سر سے گزرگیا تو سنبھل سنبھل کر اٹھے۔ میں اتنی دیر میں دروازہ بند کر، گون بغل میں مار، پھر اپنی جگہ پر آ گیا۔ مولوی صاحب بھی بیٹھ گئے اور اب انہوں گون کی قیمت، میری لا پروائی، ریل میں چوری کے خطرات، بی اے اور ایل ایل ڈی کی گون کے اختلاف، غرض اسی طرح کی بیسیوں چیزوں پر لیکچر دے ڈالے، میں بیٹھا سنتا رہا۔ 

جب وہ کہتے کہتے تھک گئے تو میں نے لکچر دینا شروع کیا۔ استادوں کی محبت، اپنی غربت، گون کی صرف ایک روز کی ضرورت، وقت کی قلت، غرض دس بارہ پہلوؤں پر میں نے بھی اسپیچ دے دی اور آخر میں صاف صاف کہہ دیا کہ یہ گون میں لے کر جاؤں گا اور ضرور لے کر جاؤں گا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کچھ نرم پڑے، کہنے لگے، واپس کب کروگے؟ میں نے کہا، آپ سرخ گون پہنتے ہیں، کالی گون مجھے دے دیجئے۔ آپ کا کچھ نقصان نہ ہوگا اور ایک غریب کا فائدہ ہو جائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا، نہیں بیٹا! لاہور سے آ کر دے دیجیو، مجھے در بار وغیرہ میں یہ گون پہننی پڑتی ہے۔ یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے لہجے میں کہے کہ مجھے بھی وعدہ کرتے ہی بن پڑی۔ 

آخر میں گون لے کر گیا اور لاہور سے آکر واپس کر دی۔ جب مولوی صاحب نے گون پر قبضہ کر لیا، اس وقت بہت خفا ہوئے، کہنے لگے، اب کے تو اگر میری کوٹھری میں گھسا تو اچھا ہی نہ ہوگا۔ کل کو میرا کیش بکس اٹھا کرلے جائے گا۔ خیر دانی گون لے جاتا تو کچھ ہرج نہ تھا کیوں کہ واپسی کی تو امید رہتی۔ مجھے کب امید تھی کہ آپ بزرگ واپس بھی کر دیں گے۔ وہ تو کہو میرا حلال کا مال تھا جو واپس آ گیا۔ میں نے کہا، مولوی صاحب! اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ آپ کو گون کی واپسی کی توقع نہیں ہے تو آپ اس کی تمام عمر شکل بھی نہ دیکھتے۔ ہنس کر کہنے لگے، چلو ’’مشتے بعد از جنگ‘‘ کی صورت ہے۔ آئندہ میں دینے میں احتیاط کروں گا اور تم واپسی میں احتیاط کرنا۔ 

اس وقت تو یہ باتیں ہنسی میں ہوئیں، مگر اب افسوس ہوتا ہے۔ گون اگر میرے پاس رہ جاتی تو، مولوی صاحب کی یاد گار ہوتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ گون میرے پاس بھیج دے کیونکہ اس میں میرا بھی حق ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ گون مولوی صاحب نے مجھ کو دی تو نہ تھی لیکن وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ میرے ہاتھ سے گئی۔ میری غلطی تھی کہ جو اس کو لے جا کر واپس کیا۔ اگر مل گئی توکبھی ایسی غلطی نہ کروں گا۔ 

جس طرح مسٹر مشرف نے یہ گونیں مولوی صاحب کے گلے منڈھی تھیں، اسی طرح نواب محسن الملک نے حیدر آباد میں فرنیچر ان کے سر چیپک دیا تھا۔ اس زمانے میں حیدر آباد میں نواب محسن الملک کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی تجویز اور سر سید کی تحریک پر مولوی صاحب حیدر آباد آئے۔ پہلے نواب محسن الملک ہی کے ہاں قیام کیا۔ اس کے بعد علاحدہ کوٹھی میں جا رہے۔ ہندوستانی وضع کا سامان، تخت، چوکیاں وغیرہ خرید لیں۔ بھلا محسن الملک یہ کیوں کر دیکھ سکتے تھے کہ ان کا دوست پرانی وضع کے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرے، ایک روز سکندر آباد جا، ایلن اینڈ کمپنی کوکئی ہزار کے فرنیچر کا آر ڈر دے دیا اور کہہ دیا کہ مولوی صاحب کے ہاں پہنچا دو اور بل بنا کر بھیج دو۔ 

ایک روز جو مولوی صاحب اٹھتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ چھکڑے پر چھکڑا فرنیچر کا لدا کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔ بہت چکرائے، لینے سے انکار کیا مگر وہ نواب محسن الملک کا پڑھایا ہوا شیطان تھا۔ وہ کب ماننے والا تھا۔ آخر لاچار گھر چھوڑ باہر آ بیٹھے اور دن بھر میں مولوی صاحب کا مکان صاحب بہادر کی کوٹھی ہو گیا۔ مگر یہ بھی نذیر احمد تھے کچھ ایسی چال چلے کہ جب ان کا تقرر پٹنچرو کی صدر تعلقے داری پر ہوا تو وہ سب کا سب سامان بہت تھوڑی کمی پر ایلن ہی کے سر مارا اور پٹنچرو، وہی اپنے پرانے تخت وغیرہ لے گئے۔ نواب محسن الملک کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ 

اب آگے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ نوام محسن الملک دورے پر نکلے، پٹنچرو قیام کیا۔ مولوی صاحب خود کہیں دورے پر گئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب نے گھر میں کہلا بھیجا کہ میں آیا ہوں، میرے قیام کا انتظام کر دو۔ ایک کمرا جس میں دو تین کرسیاں اور ایک دو میزیں تھیں، کھول دیا گیا۔ وہ ایلن والے فرنیچر کی تلاش میں تھے، سمجھے مولوی صاحب نے اپنے کمر ے میں سجا رکھا ہوگا، اندر کہلا بھجوایا کہ میں مولوی صاحب کے کمرے میں ٹھہروں گا۔ پہلے تو جواب ملا کہ وہاں آپ کو تکلیف ہوگی، مگر جب ادھر سے اصرار ہوا تو وہ کمرا بھی کھول دیا گیا۔ اندر جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں صفا چٹ میدان ہے۔ نہ دری ہے نہ چادر۔ نہ چاندنی ہے، نہ میز ہے نہ کرسی۔ کمرے کے بیچ میں ایک چھوٹا سا تخت ہے، اس پر ایک کمبل پڑا ہوا ہے۔ بازو میں ایک چوکی پر رحل اور جانماز رکھی ہے، کھونٹی پرکلام مجید لٹک رہا ہے۔ یہ بہت چکرائے، لوگوں سے پوچھا، وہ فرنیچر کہاں گیا۔ معلوم ہوا کہ آتے آتے مولوی صاحب اس کے کوڑے کر آئے۔ بچارے ایک رات ٹھہرے اور صبح ہی کوچ بول دیا۔ 

کچھ عرصے تک تو نواب محسن الملک اور ان کی بنی رہی، بعد میں اتنی کھنچی کہ ٹوٹ گئی۔ مولوی صاحب کو یہ شکایت تھی کہ محسن املک مجھ پر دباؤ ڈال کر کام نکالنا چاہتے ہیں۔ محسن ا لملک کو یہ شکایت تھی کہ مولوی صاحب میرے مخالف ہو کر میرے اکھاڑنے کی فکر میں ہیں۔ غرض جب عماد السلطنت بہادر کا زمانہ آیا اور محسن الملک بہادر کی کمان چڑھی تو مولوی صاحب کو میدان سے ہٹ جانا ہی مناسب معلوم ہوا۔ دوسرے حیدر آباد میں صحبت کا جو رنگ تھا وہ ایسا نہ تھا جس میں مولوی صاحب کا رنگ جم سکتا۔ اس زمانے کے جو حالات مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے ان کا زبان قلم پر نہ آنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ 

بعد میں دونوں بہ ظاہر ملتے جلتے تھے، لیکن موقع پڑا تو ایک دوسرے کو پردے ہی پردے میں سنائے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک واقعہ تو خود میری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے۔ 1903 کے دربار کے موقع پر کانفرنس کا اجلاس دہلی میں اجمیری دروازے کے باہر ہوا۔ اس زمانے میں نواب محسن الملک، علی گڑھ کالج کے سکریٹری تھے۔ کانفرنس کے صدر ہزہائی نس سر آغا خاں تھے۔ آدمیوں کی یہ کثرت تھی کہ بیٹھنے کو پنڈال میں جگہ نہ ملتی تھی۔ ہر جلسے میں کئی کئی رئیس آ جاتے تھے۔ ایک پورا دن خاص مولوی صاحب کے لکچر کے لیے مقرر ہوا۔ مدت ہوئی تھی کہ مولوی صاحب نے پبلک میں لکچر دینا چھوڑ دیا تھا۔ اس روز جو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب لکچر دیں گے، خلقت ٹوٹ پڑی۔ 

لکچر شروع ہی ہوا تھا کہ لارڈ کچنر نے کہلا بھیجا کہ آ ج میں بھی آؤں گا۔ نواب محسن الملک نے ایسے با وقعت و ذی جاہ مہمان کے استقبال کی تیاریاں شروع کیں، مولوی صاحب لکچر میں اس گڑ بڑ سے کھنڈت پڑ تی تھی۔ پنڈال کے باہر ذرا گڑ بڑ ہوئی اور نواب محسن الملک سمجھے کہ لارڈ کچنر آ ئے، اٹھ کر باہر گئے اور پھر آ کر بیٹھے۔ اس طرح وہ کوئی دس پندرہ دفعہ باہر گئے اور اند آئے۔ مولوی صاحب بہت جز بز ہوئے، خفا بھی ہوئے مگر ان کی کون سنتا تھا۔ 

قصہ مختصر آخر لارڈ کچنر آ ہی گئے۔ نواب محسن الملک نے سب کا تعارف کرایا۔ مولوی صاحب نے خود اپنا تعارف کر لیا۔ لارڈ کچنر کہنے لگے، مولوی صاحب ہم نے کورس میں آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، آج آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ مولوی صاحب نے کہا، لاٹ صاحب مجھے بھی آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی، اور سب سے بڑی یہ خوشی ہوئی کہ آپ کی وجہ سے ایک معمہ حل ہو گیا۔ لارڈ کچنر نے کہا، وہ کیا معمہ تھا؟ 

مولوی صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں قیامت کی نشانیوں میں لکھا ہے کہ اس وقت ایسا تہلکہ ہوگا کہ حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ ایسی کیا مصیبت ہوگی کہ حمل گرا دے گی مگر آج یقین آ گیا جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔ جب آپ کی آمد نے بڑے بڑے پیٹ والے بڈھوں کے حمل گرا دیے تو کیا تعجب ہے کہ قیامت کی آمد عورتوں کے حمل گرا دے۔ تمام پنڈال میں سناٹا ہو گیا مگر مولوی صاحب کو جو کہنا تھا کہہ گئے اور اس طرح اپنے دل کا بخار نکال لیا۔ بات یہ ہے کہ مولوی صاحب کو وقت پر ایسی سوجھتی ھی کہ باید و شاید، چنانچہ امیر حبیب اللہ خاں ہی کے دربار کا واقعہ دیکھ لو۔ 

امیر حبیب اللہ خاں بقر عید کے دن دہلی میں تھے، اس روز جمعہ تھا۔ صبح بقر عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھی اور جمعہ کی نماز جامع مسجد میں، شام کو سرکٹ ہاؤس میں دربار کیا۔ اس دربار میں آٹھ یا نو دہلی کے ہندو امیر اور اسی قدر مسلمان مشاہیر بلائے گئے، ان میں ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ سر ہنری میک موہن نے ان لوگوں کا تعارف امیر صاحب سے کرایا۔ جب مولوی صاحب کی باری آئی اور ان کی تعریف سر ہنری نے کی، تو امیر صاحب نے کہا، آ پ کو ان کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں خود ان کی تصانیف بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور تقریباً سب کا ترجمہ بھی کرا چکا ہوں۔ دیکھنے کا اشتیاق تھا، وہ آج پورا ہو گیا۔ 

اس کے بعد باتوں ہی باتوں میں پوچھا، آپ شعر بھی کہتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا، جی ہاں کہتا ہوں لیکن آج آپ کی تعریف میں اپنا نہیں دوسروں کا شعر سناؤں گا۔ یہ کہہ کر متنبی کا یہ شعر پڑھا۔ 

عید و عید و عید جاء مجتمعا 

وجہ الحبیب و یوم العید والجمعا 

موقع کے لحاظ سے یہ شعر ایسا بر محل ہو گیا کہ متنبی کو نصیب بھی نہ ہوا ہوگا۔ واقعات اور خاص کر ’’حبیب‘‘ کے لفظ نے شعر میں جان ڈال دی۔ تمام دربار چمک اٹھا۔ امیر حبیب اللہ خاں نے اٹھ کر مولوی صاحب کو گلے سے لگا لیا اور اتنے بوسے دیے کہ مولوی صاحب گھبرا گئے۔ 

دوسرے روز جو انہوں نے اس واقعے کا ذکر ہم سے کیا، اس کو انہی کے الفاظ میں دہرانا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ کہنے لگے، بھئی میں تو شعر پڑھ کر مصیبت میں پھنس گیا۔ شعر پڑھنا تھا کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شیر نے آ کر مجھے دبوچ لیا۔ اس میرے شیر کا کوئی سوا گز چوڑا سینہ، میں ٹھہرا چھوٹے قد کا آدمی، اس نے جو پکڑ کر بھینچا، تو ادھر تو ہڈیاں پلپلی ہو گئیں، ادھر دم گھٹنے لگا۔ اس کی گرفت سے نکلنے کی ہزار کوشش کرتا ہوں، جنبش تک نہیں ہوتی۔ قسم خدا کی اس وقت تک ہڈیوں میں درد ہو رہا ہے۔ بارے خدا خدا کر کے گرفت ڈھیلی ہوئی تو میں ذرا علاحدہ ہوا۔ ابھی پوری طرح سانس بھی نہ لینے پایا تھا کہ اس نے میری گلے میں بانہیں ڈال، بوسے پر بوسہ لینا شروع کیا۔ بھلا مجھ بڈھے کو دیکھو اور امیر صاحب کی اس حرکت کو دیکھو! کچھ تعریف کا یہ طریقہ افغانستان ہی میں اچھا معلوم ہوتا ہوگا۔ مجھے تو مارے شرم کے پیسنے چھوٹ گئے۔ 

وہ اللہ کا بندہ ذرا دم لیتا اور سبحان اللہ کہہ کر پھر لپٹ جاتا۔ لپٹتا اور لپٹتے ہی بوسے پر بوسہ لینا شروع کر دیتا۔ بچارے دوسرے بھلے آدمی بیٹھے ہوئے کیا کہتے ہوں گے۔ جب میں نے اس مصیبت سے رہائی پائی، تو میری ناک سے پسینا اس طرح بہہ رہا تھا جس طرح کسی ٹوٹی صراحی میں سے پانی بہتا ہے۔ نا بھائی نا! ایسے دربار کو میرا دور ہی سے سلام ہے۔ کون شعر پڑھ کر اپنی ہڈیاں تڑوائے۔ مولوی صاحب اپنی ہڈیاں سہلاتے جاتے اور یہ قصہ بیان کرتے جاتے تھے۔ مگر ان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ خوشی کے مارے دل کھلا جا رہا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ شعر کی داد اس طرح اور اس رنگ میں آج تک نہ کسی شاعر کو ملی ہے اور نہ ملے گی۔ 

𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی