*ایک ضروری دعاء*
اللہ تعالیٰ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے میری اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے…آمین
حیران نہ ہوں
بہت سے مسلمان…سوشل میڈیا پر اپنے گمان میں… صرف خیر کے لئے جاتے ہیں… خیر پڑھتے ہیں، خیر پھیلاتے ہیں…وہ حیران ہوں گے کہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے شر سے پناہ کی دعاء ہی آج کے کالم کا نکتہ آغاز کیسے بنی؟
جواب یہ ہے کہ ہم روزانہ دن اور رات کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… چاند پر نظر پڑے تو اس کے شر سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… بلکہ مسنون دعاؤں کی برکت سے ہم ساری مخلوق کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں… معلوم ہوا کہ ’’قانون الہٰی‘‘ کے مطابق ہر مخلوق میں ہمارے لئے شر ہو سکتا ہے…اور ہمیں اس شر سے… صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتے ہیں…گھوڑے کی پیشانی میں ’’قیامت‘‘ تک کے لئے خیر رکھ دی گئی ہے… یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے… مگر ہمارے دل میں موجود شر کی وجہ سے گھوڑا بھی ہمارے لئے شر کا باعث بن جاتا ہے…جب ہم اسے فخر،ریاکاری اور حرام شرطوں کے لئے پالیں …ایک مقبول مجاہد میں خیر ہی خیر ہوتی ہے …لیکن ہمارے نفس کے شر سے مجاہد بھی ہمارے لئے شر کا ذریعہ بن سکتا ہے… مثلاً اس طرح کہ… ہمارے سامنے اس کے برے عیب کھل کر ایسے سامنے آ جائیں کہ… ہم نعوذ باللہ جہاد سے ہی دور ہو جائیں… عیب اور کمزوریاں حضرات انبیاء علیہم السلام کے علاوہ ہر انسان میں ہوتی ہیں… اگر وہ ہم سے پوشیدہ رہیں تو ہم… کتنا فیض پا لیتے ہیں … لیکن اگر وہ کھل جائیں تو ہم اس شخصیت سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے… اس لئے ’’اللہ والوں ‘‘ کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہیے… اُن کے عیب نہیں ڈھونڈنے چاہئیں…اگر عیب نظر بھی آ جائیں تو ہم سچے دل سے استغفار کریں… اپنا دل پاک ہو گا تو اللہ والوں کے عیب بھی اس سے مٹ جائیں گے … بہرحال خیر اور شر کا سلسلہ جاری ہے… اور سوشل میڈیا تو آیا ہی ’’ اہل شر ‘‘ کی طرف سے ہے… اور اس میں شر بہت غالب ہے…اچھا تو یہ ہے کہ اہل ایمان اس’’ بیت الخلاء‘‘ کی سیر سے خود کو بچائیں… لیکن اگر نہیں بچ پا رہے تو کم از کم یہ دعاء تو دل کی توجہ سے مانگا کریں کہ… یا اللہ اس کے شر سے ہماری حفاظت فرما…
خود اندازہ لگا لیں
سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے کے بعد… آپ کے دل میں سکون آتا ہے یا بے چینی بڑھتی ہے؟ دل میں نور محسوس ہوتا ہے یا میل کچیل کا احساس ہوتا ہے؟… دل میں خشوع ، خوف الہٰی اور گداز پیدا ہوتاہے یا… تکبر، کج بحثی ، فخر اور پریشانی کے جذبات اُبھرتے ہیں، دل کا ’’میٹر‘‘ ہر شخص کے سینے میں لگا ہوا ہے… اسی پر دیکھ لیں کہ کیا نتیجہ نکل رہا ہے… ایک صاحب رو رہے تھے کہ… میرے فلاں بیان پر مجھے سوشل میڈیا پر ایسی گالیاں پڑی ہیں جو میں نے پوری زندگی میں نہیں سنی تھیں… اور جو میرے ’’فین‘‘ تھے وہ بھی مجھے گالیاں دے رہے ہیں… اُن سے کوئی پوچھے کہ… جناب آپ وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟ آخر کیا مجبوری ہے؟ … اور اگر جاتے ہیں تو پھر یہ بات یاد رکھیں کہ… وہاں جو عزت دی جاتی ہے … اس کی بہت خوفناک قیمت وصول کی جاتی ہے… بہرحال آج صرف یہ گذارش ہے کہ… دیندار مسلمان سوشل میڈیا سے باز تو نہیں آ رہے… کم از کم اس دعاء کو تو اپنا معمول بنا لیں کہ… یا اللہ سوشل میڈیا کے شر سے ہماری حفاظت فرما… اگر یہ دعاء اخلاص کے ساتھ اور مسلسل مانگی گئی تو بہت امید ہے کہ… کسی نہ کسی دن… زمانے کے اس ’’دجالی فتنے‘‘ سے ہمیں آزادی مل جائے گی… اور جب ہم اپنے سارے اکاؤنٹ ختم کر کے… کسی مسجد کے کونے میں بیٹھے ہوں گے تو شکر ادا کرتے ہوئے… آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے گی کہ… یا اللہ کیسی غلاظت سے نجات عطاء فرمائی… کیسی غلامی سے آزاد فرمایا… اب گویا کہ وہ ناپاک دنیا ہے ہی نہیں… جہاں ہمارا وقت، ہمارا دین اور ہماری عزت ذبح ہوتی تھی… اور ہر فضول شخص کی ہر بات پڑھنا اور اس کا جواب دینا ہم پر لازم تھا… کئی افراد سے عرض کیا کہ… غفلت کے خاتمے کے لئے چالیس دن تک روز… چار ہزار بار استغفار کریں… انہوں نے شروع کیا اور پھر جو حالات لکھے وہ قابل رشک ہیں… کاش انتظام ہوتا تو ان تاثرات کو شائع کرتے… بتایا کہ زندگی ہی بدل گئی… عجیب نور، عجیب سرور، عجیب گداز… اور عجیب لذتیں ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوشل میڈیا کے شر سے بچائے … اور اپنے ذکر کی حلاوت نصیب فرمائے…
دل کا فیصلہ
اوپر عرض کیا کہ… ہر سینے میں دل کا میٹر لگا ہوا ہے… یہ واقعی سچ ہے کہ دل جب تک زنگ اور میل سے سیاہ مردہ نہ ہو جائے وہ…ہمیں ہر بات کی خیر اور شر سمجھا دیتا ہے… آپ کسی کی صحبت میں بیٹھیں اور آپ کے اُس دن کے معمولات میں برکت ہو جائے اور کسی اور کی صحبت میں بیٹھیں تو … سارے معمولات درہم برہم ہو جائیں… یہ سب دل کے فیصلے ہیں… دل روشنی والوں سے روشنی… اور تاریکی والوں سے تاریکی پکڑتا ہے …دل کے خفیہ تار کسی سے جڑ جائیں تو بہت دور سے بھی… اس کا فیض حاصل کر لیتا ہے… دل کی دنیا بہت عجیب، طاقتور اور وسیع ہے… نیوروسرجن اور ڈاکٹر کہتے ہ
یں کہ… دماغ اصل ہے… اور دل اس کا تابع … وہ درست نہیں کہتے… دماغ تو دل کا چھوٹا سا خادم اور مرید ہے… دل کی سلطنت بہت وسیع ہے… مراقبے میں جو لوگ دماغ پر محنت کرتے ہیں… اُن کا کام نہیں بنتا… مگر جو دل پر محنت کرتے ہیں… وہ صدیاں کما لیتے ہیں… یوگا، آسن اور بدھ مت کے سارے مجاہدے دماغ تک محدود ہیں… جبکہ مسلمان کا مراقبہ… دل کی طاقت اور یکسوئی کے لئے ہوتا ہے… دل بن گیا تو سب کچھ بن گیا… اگر یہ بات آپ کو سمجھ آ گئی ہے تو بہت اچھا، نہیں سمجھ آئی تو… دعاء کردیں کہ… اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو زندگی عطاء فرمائے اور ہمیں اور ہماری اولاد کو سوشل میڈیا کے شر سے بچائے…
حضرت بابا فریدؒ کی خدمت میں
دل کے ذریعہ ہی… اللہ والوں کا فیض حاصل کیا جا سکتا ہے… عقل کے ذریعہ بالکل نہیں… ابھی آپ ’’راحت القلوب ‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں… بہت سی باتیں مروّجہ علمی معیار پر پوری نہیں اُترتیں …لیکن اگردل اُن باتوں کی تہہ تک پہنچ جائے تو … بڑا فائدہ پا لیتا ہے… ویسے مسائل اور روایات میں بزرگوں کی باتوں سے … علمی اختلاف کی کھلی اجازت ہے…مگر دو شرطوں کے ساتھ… پہلی یہ کہ اختلاف کرنے والے اہل علم ہوں… اور دوسری یہ کہ اس اختلاف سے ادب میں کوئی فرق نہ آئے… ہم الحمد للہ حضرت امام بخاریؒ ، حضرت امام مسلم ؒ اور حضرت امام ترمذی ؒ سے والہانہ محبت رکھتے ہیں مگر ساتھ اختلاف بھی چلتا رہتا ہے… اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل جیسے حضرات کی محبت اور ادب سے دل معمور رہتا ہے … مگر فقہی مسائل میں ہم حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھڑے ہو کر… اُن حضرات سے اختلاف کرتے ہیں… یہ سب ہمارے دین کا حسن اور ہماری شریعت کی وسعت ہے کہ… اس میں اختلاف کی یہ قسم رحمت ہی رحمت ہے… اب آپ راحت القلوب کی ایک عبارت دیکھیں… حضرت بابا جی فرید رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ ایک بزرگ تھے کہ جس شخص کو حدیث شریف میں کوئی مشکل درپیش ہوتی یہ اسے حل کر دیتے… ایک روز کنگھی کرنے کی نسبت گفتگو ہو رہی تھی انہوں نے فرمایا کہ… کنگھی کرنا ہمارے حضور ﷺ اور دیگر پیغمبران علیہم السلام کی سنت ہے، جو شخص رات کے وقت داڑھی میں کنگھی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو فقر کی آفت میں مبتلا نہ کرے گا ( یعنی وہ شخص مالی تنگی اور محتاجی میں مبتلا نہ ہو گا)
داڑھی میں جس قدر بال ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کے بدلے ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اسی قدر گناہ دور کرے گا ( راحت القلوب)
اب اگر اس عبارت کو آپ سوشل میڈیا پر بحث کے لئے ڈال دیں تو… ہر طرف سے تیر اندازی شروع ہو جائے گی… کوئی اس پر شیخ البانی کا ٹھپہ مانگے گا تو کوئی شیخ بن باز کی مہر طلب کرے گا… بحث بڑھتی جائے گی…داڑھی اور کنگھی ایک طرف رہ جائے گی جبکہ معاملہ کفر ، اسلام کی بحث تک پہنچ جائے گا…یہاں یہ بات عرض کر دوں کہ… حضرت شیخ البانی اور شیخ بن باز سے بہت سے اختلافات کے باوجود بندہ کے دل میں اُن کے لئے عقیدت و محبت ہے…یہ بات ممکن ہے ہمارے کئی قریبی احباب کو اچھی نہ لگے … مگر حقیقت یہی ہے کہ… مجھے حضرت شیخ البانی اور شیخ بن باز سے عقیدت ہے… حضرت شیخ البانی نے واقعی بہت کام کیا ہے… یہ الگ بات ہے کہ… علم و تحقیق سے محروم عرب طبقے نے اُن کے کام کو ہی’’ حرف آخر‘‘ قرار دے کر بڑی غلطی اور جہالت کا ثبوت دیا ہے… ایسا دعویٰ تو خود شیخ البانیؒ نے بھی کبھی نہیں کیا کہ… اُن کی تحقیق کو حرف آخر سمجھا جائے اور بخاری و مسلم کی روایات کی بھی اُن سے توثیق لی جائے… حضرت شیخ البانیؒ کا سب سے ناقابل فراموش کارنامہ …اُن کا ’’جہادی فتویٰ ‘‘ ہے… انہوں نے افغانستان پر سوویت حملہ کے بعد… افغان جہاد کے شرعی ہونے کا فتویٰ دیا… اُن کے اہل حاشیہ نے اُن کو مغالطے میں ڈالنے کی بہت کوشش کی… سخت گیر سلفی تحریک نے اُن پر بہت دباؤ ڈالا کہ… افغان مجاہدین بدعتی ہیں… مقلد ہیں وغیرہ وغیرہ… مگر شیخ ڈٹے رہے اور انہوں نے اس جہاد کے حق میں اس وقت فتویٰ دیا جب عالم اسلام پر عمومی غفلت کی سیاہ رات طاری تھی…
یہ حضرت شیخ البانیؒ کے دل کی روشنی تھی … اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اُن کی قبر کو روشن فرمائے … اس مبارک فتوے نے افغانستان کے جہاد کو بہت تقویت دی… اسی طرح شیخ بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی جہاد اور مجاہدین کی بھرپور سرپرستی فرمائی… وہ جہاد فلسطین اور جہاد افغانستان کے مکمل حامی تھے… اسی سلسلے میں بندہ نے بھی ایک بار اُن کی زیارت کی اور اُن کے ہاں کھانا کھایا… عرض یہ کر رہا تھا کہ … حضرت بابا فریدؒ کی مذکورہ بالا عبارت کو سمجھنے کے لئے… اسلام میں داڑھی کے عظیم اور ضروری مقام… اور کئی احادیث مبارکہ کی روشنی لی جائے تو اس عبارت پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا… مگر یہ روش’’سوشل میڈیا‘‘ پر دستیاب نہیں ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نور اور روشنی عطاء فرمائے اور سوشل میڈیا کے شر سے ہماری اور تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
منقول ۔۔۔
زمرے
معاشرت و طرزِ زندگی