کہتے ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ الله علیہ کو انکے جاسوسوں نے بتایا کہ ایک عالمِ دین ہیں جو بہت اچھا خطاب کرتے ہیں لوگوں میں بہت مقبول ہو گئے ہیں۔
سلطان نے کہا آگے کہو جاسوس بولے "کچھ غلط ہے جسے ہم محسوس کر رہے ہیں مگر لفظوں میں بیان نہیں کرپا رہے"
سلطان نے کہا "جو بھی دیکھا اور سنا ہے بیان کرو" جاسوس بولے کہ وہ کہتے ہیں کہ "نفس کا جہاد افضل ہے، بچوں کو تعلیم دینا ایک بہترین جہاد ہے، گھر کی زمہ داریوں کیلئے جد وجہد کرنا بھی ایک جہاد ہے۔
سلطان نے کہا تو اس میں کوئی شک ہے؟؟
جاسوس نے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں لیکن اس عالم کا کہنا ہے کہ: "جنگوں سے کیا ملا؟؟ صرف قتل وغارت گری صرف لاشیں، جنگوں نے تمہیں یا تو قاتل بنایا یا مقتول " ۔
سلطان بے چین ہو کر اٹھے، اسی وقت عالم سے ملنے کی ٹھانی، ملاقات بھیس بدل کر کی اور جاتے ہی سوال کر دیا کہ "جناب ایسی کوئی ترکیب بتائیے کہ بیت المقدس کو آزاد اور مسلمانوں کے خلاف مظالم کو بغیر جنگ کے ختم کرایا جاسکے؟؟"، عالم نے کہا دعا کریں سلطان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا، وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ عالِم پوری صلیبی فوج سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
سلطان نے سب سے پہلے اپنے خنجر سے اُس عالم کی انگلی کاٹ دی، وہ بری طرح چیخنے لگا۔
اب سلطان نے کہا کہ اصلیت بتاتے ہو یا گردن بھی کاٹ دوں پتہ چلا کہ وہ سفید پوش عالم ایک یہودی تھا، یہودیوں کو عربی بخوبی آتی تھی، جس کا اس نے فائدہ اٹھایا سلطان نے پایا کہ اس کے جیسا درس اب خطبوں میں عام ہو چلا تھا، بڑی مشکل سے یہ فتنہ روکا جاسکا۔
فتنہ اس وقت بھی پوری آب وتاب سے رواں دواں ہے اب بھی *فلسطین دعاوں سے آزاد کرانے کی مہم زور وشور سے جاری ہے* ۔۔۔۔
اپنے حصے کا کام کیجئے۔۔اصل ہے جہاد بالقتال۔۔۔ اگر خود کرنے کے مواقع میسر نہ ہوں تو جو کر رہے ہیں ان کی اعانت۔۔وگرنہ جہاد بالنفس دوسرا درجہ ہے اس پہ عمل کیجئے وہ ہے معاشی بائیکاٹ۔۔جو اہل یہود کی دکھتی رگ ہے۔۔۔
خدارا بائیکاٹ کی اہمیت کو سمجھیں اور
بائیکاٹ کیجئے، بائیکاٹ کیجئے، بائیکاٹ کیجئے۔۔۔