اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ یہ لاتعداد اقسام اور ذائقوں میں دنیا کے کئی ممالک میں کاشت کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں کسی کام کے سلسلے میں سندھ کے شہر ہالا جانا ہوا تو منفرد، خوش شکل، اور ذائقے میں چونسا آم کے قریب، ایک نئی قسم کا آم کھانے کا موقع ملا۔ میرا خیال تھا کہ یہ لال چونسا ہے لیکن مجھے بتایا گیا یہ ’سینسیشن آم‘ ہے۔
کیا ذائقہ تھا! نہ زیادہ تُرش ہے اور نہ بہت میٹھا۔ جب سینسیشن آم پک جاتا ہے تو اس کی جلد کا رنگ سرخ، گلابی اور پیلا ہوجاتا ہے۔ جلد پر سرخ اور پیلا رنگ، آم کو ایک دلکش اور دیدہ زیب شکل دیتا ہے۔ اس کا گودا گہرا پیلا یا سنہرے رنگ کا ہوتا ہے جو رس سے بھرپور اور نرم ہوتا ہے۔ اس آم کی شکل لمبوتری ہوتی ہے جبکہ توانا درخت میں اس کا وزن عموماً 300 سے 500 گرام کے درمیان ہوتا ہے۔
درخت پر لٹکتے آموں کی خوبصورتی بھی لاجواب تھی۔ میرا بیٹا تو آم کے ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف دوڑ میں لگا رہا۔ ویسے بھی کھیت کھلیان، جنگل جانے کا موقع، کراچی میں رہنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ ہم توکنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں ٹریفک کا شور، دھواں، آلودگی ہی آلودگی ہوتی ہے جس سے اس کی فضا ہی مٹیالی ہوگئی ہے۔
واپس ہالا منصورہ کی جانب چلتے ہیں جہاں بہت بڑا دینی مدرسہ بھی قائم ہے۔ ہالا پہلے سے زیادہ سر سبز اور خوب صورت ہوچکا ہے۔ یہاں ایک ٹیوب ویل اور ایک چھوٹا سا حوض بنایا گیا ہے جو سوئمنگ پول کے متبادل کا کام کرتا ہے۔ اس میں نہا کر جولائی کی سخت گرمی میں بہت سکون ملا۔ اگر یہاں باقاعدہ فارم ہاؤس بنا دیا جائے تو میرا خیال ہے کراچی سے لوگ بھاگ بھاگ کر خوشی خوشی یہاں آئیں گے اور یہ مدرسے کی آمدنی کا ایک ذریعہ بھی بن جائے گا۔
سینسیشن آم کی کاشت کی ابتدا
سینسیشن آم کی تاریخ یہ ہے کہ یہ لال آم ایک مشہور اور اعلیٰ معیار کا آم ہے۔ یہ ہرگز کوئی معمولی قسم نہیں جو اپنی منفرد خوشبو، ذائقے اور شکل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
سینسیشن آم کی ابتدا امریکا کی ریاست فلوریڈا میں ہوئی تھی۔ یہ 1920ء کی دہائی تھی کہ جب یہ آم اپنی خوبصورتی اور لذیذ ذائقے کی بنا پر جلد ہی مقبول ہوتا چلا گیا۔ سیاحت کے شوقین اور ماہرین نے دنیا بھر میں اس کی کاشت کے تجربات شروع کیے اور پھر دیگر ممالک میں بھی اس کی پیداوار ہونے لگی جس کے ساتھ ہی آم کی یہ منفرد قسم مقبول ہوتی چلی گئی۔
سینسیشن آم کی کاشت جن ممالک میں ہوتی ہے ان میں امریکا، میکسیکو، برازیل، بھارت، پاکستان اور دیگر گرم آب و ہوا والے ممالک شامل ہیں۔
اس کی کئی اقسام ہیں جن میں رنگ، سائز اور ذائقے کا معمولی فرق ہوسکتا ہے لیکن تمام اقسام کی بنیادی خصوصیات یکساں ہوتی ہیں۔
ذائقے میں مناسب میٹھے سینسیشن آم کا گودا نرم ہوتا ہے۔ گٹھلی بہت چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں ریشے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ خوشبو اسے دیگر آموں سے ممتاز بناتی ہے اور صرف دیگر آموں سے نہیں بلکہ پاکستان کے سینسیشن آم کا ذائقہ منفرد اور بہت زیادہ اچھا ہے جس کے لیے کھانا شرط ہے۔
پاکستان میں کاشت
پاکستان میں سینسیشن آم کی کاشت کچھ عرصے سے صوبہ پنجاب اور سندھ کے چند علاقوں میں کی جارہی ہے۔ ان علاقوں کی آب و ہوا اور مٹی آم کی کاشت کے لیے موزوں ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے آم اعلیٰ معیاری ہوتے ہیں۔ سندھ میں خیر پور کے بعد ہالا میں اس کی کاشت کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسے کراچی بھی لگایا جاسکتا ہے جہاں یہ پھل بھی خوب دے گا بلکہ یہ گملوں میں بھی لگ سکتا ہے کیونکہ اس کے درخت پستہ قد ہوتے ہیں۔
ہالا میں سینسیشن آم کاشت کرنے والے عمر فاروق بھٹو کہتے ہیں کہ ’درخت محبت مانگتے ہیں، انہیں بہتر نشوونما کے لیے مخصوص دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے جن میں باقاعدہ پانی دینا، کھاد ڈالنا اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مناسب اقدامات کرنا شامل ہیں۔ درختوں کی شاخوں کی کٹائی اور کیڑوں سے بچاؤ بھی اہم ہے تاکہ درخت صحت مند رہیں اور بہترین پھل دیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’دعا فاؤنڈیشن نے اکتوبر 2019ء کے بعد سے اب تک منصورہ کی زرعی زمین پر مختلف پھلوں کے 20 ہزار سے زائد درخت لگائے ہیں جن میں آم کے 8 ہزار درخت بھی شامل ہیں۔ سندھڑی، سفید چونسا اور سینسیش آم کے درخت شامل ہیں۔ ہم نے یہاں آم کی کاشت کے جدید طریقے متعارف کروائے ہیں جن میں ہائی ڈینسٹی اور الٹرا ہائی ڈینسٹی فارمنگ شامل ہیں۔
’ہائی ڈینسٹی میں ایک ایکڑ اراضی میں سندھڑی کے 440 درخت جبکہ الٹرا ہائی ڈینسٹی میں ایک ایکڑ میں سینسیشن کے 1350 پودے لگائے گئے ہیں۔ یہاں دو ایکڑ پر 2 ہزار 700 پودے موجود ہیں جو اگست 2022ء میں لگائے گئے تھے اور ان میں سے کئی سو درختوں پر اس وقت بھی پھل لگا ہوا ہے۔ سینسیشن کو لیٹ ورائٹی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا پھل جولائی اور اگست میں تیار ہوتا ہے۔ اس کی شیلف لائف بھی سندھڑی اور چونسا سے زیادہ ہوتی ہے‘۔
صحت کے لیے مفید؟
سینسیشن آم میں مختلف غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مفید ہیں۔ ان میں وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای، فائبر، پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس شامل ہیں۔ یہ اجزا جلد کی خوبصورتی، آنکھوں کی صحت، قوت مدافعت کی مضبوطی اور نظام ہضم کی بہتری کے لیے مفید ہیں۔ ہالا میں سینسیشن آم کی کاشت کا تجربہ ڈاکٹر فیاض عالم نے کیا، جن کا کہنا ہے کہ ’ہالا میں ہم نے جو آم کاشت کیے ہیں اس کے ٹیسٹ کروائے جانے چاہئیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ آم ذائقے کے ساتھ صحت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے‘۔
چونکہ اس آم میں مٹھاس زیادہ نہیں اس لیے میرے خیال میں اگر ڈاکٹرز سے مشورہ کیا جائے تو یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی موزوں رہے گا۔ آم کا گلائسمک انڈیکس 51 ہوتا ہے جو دیگر پھلوں کے مقابلے میں کم شمار ہوتا ہے اور ذیابیطس کے مریض اسے کم مقدار میں کھا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے اپنے متعلقہ معالج سے مشورہ ضروری ہے۔
دنیا میں طلب
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سینسیشن آم کی عالمی منڈی میں بھی مانگ زیادہ ہے۔ اس کی خوشبو، ذائقہ اور خوبصورت رنگ کی وجہ سے یہ آم بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی مقبول ہے اور مختلف ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔
ماہرین کی آرا، فصل کی پیداوار، بیماریوں سے بچاؤ اور برآمد کے حوالے سے معلومات اس کی اہمیت اور قدر میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔
زوال پذیر معیشت میں اس طرح کے پروجیکٹ کو فروغ دیا جائے اور لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ زراعت اور اس سے متعلقہ کاروبار کی طرف آئیں۔ کسان کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کی جائے۔ ہم نے یہاں پاکستان کے 200 اقسام کے آموں میں سے صرف ایک کی بات ہے کیونکہ سینسیشن آم کی کاشت کامیابی سے کیے جانے کا تجربہ ہوچکا ہے اور یہاں کے لوگ اس کے ذائقے اور خوشبو سے خوب محظوظ ہورہے ہیں۔
پاکستان کا سینسیشن آم برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک کو آئندہ تین سالوں میں بین الاقوامی منڈیوں میں برآمدات کی بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرنی چاہیے کیونکہ وہاں اس کی طلب زیادہ ہے۔ برآمد کیے جانے والے آموں کی پیکنگ اور معیار کی جانچ پر خاص توجہ دے کر جبکہ عالمی منڈی کے مطابق اس کا معیار برقرار رکھ کر ہم اپنے کسان اور معیشت کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
تحریر: عامر اشرف