بختِ نصر : ایک ظالم بادشاہ اور حضرت دانیال و حضرت عُزیر علیہ السلام کے واقعات
بخت نصر اپنے زمانے کا ایک سفاک ترین بادشاہ گزرا ہے۔ جس کے دور کے بارے میں مورخین کا خیال ہے کہ اس کا دور حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے 605 سے 562 قبل از مسیح ہے۔اس کی حکومت کا مرکز بابل تھا۔ جس کو آج بابی لونیا بھی کہتے ہیں۔ اس کا باپ "نبولا سر" بھی ایک بادشاہ تھا۔ اس کے باپ نے اس کو مصر پر حملے کے لئے بھیجا۔ اور اس نے زمانہ شہزادگی میں مصر فتح کیا۔ اپنے باپ نبولا سر کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا۔ 597 ق م میں یہوداہ (جودیا) بغاوت فرو کی۔ اس علاقے میں دوبارہ بغاوت ہوئی تو یروشلم کو تباہ کر دیا۔ 586 ق م میں چار ہزار یہودیوں کو گرفتار کرکے بابل لایا۔ یہودیوں کی اس قید کو بابل کی اسیری کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں سلطنت کی زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ کی۔ کہتے ہیں اس کے دور میں اس کا محل ایک عجوبہ روزگار تھا۔ اور دیکھنے والوں کو محو حیرت کردیتا تھا۔ بابل کے معلق باغات سات عجائبات اسی نے بنوائے تھے۔ بابل علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا بہت بڑا مرکز بن گیا تھا۔ بائبل میں اس کا ذکر نبوکد نضر کے نام سے ہے۔
جبکہ تفسیر جمل میں اس کے بارے لکھا ہے۔ کہ یہ ایک لاوارث تھا اوراس کے بڑے ہونے پر بادشاہ ِ وقت نے اس کو بابل کا گورنر مقرر کردیا تھا۔ تفسیر میں لکھا ہے کہ بخت نصر قوم عمالقہ کا ایک لڑکا تھا۔ ان کے بت ''نصر''کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا نام بخت نصر (نصر کا بیٹا)رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہراسف اس وقت کے بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا۔ پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔
بخت نصر کا بیت المقدس پر حملہ کرکے بنی اسرائیل کو تباہ کرنا ۔۔۔۔
685 قبل مسیح میں بخت نصر بیت المقدس پر حملہ کرکے ہیکل سلیمانی تباہ کرتا ہے اور کئی ہزار اسرائیلیوں کو قتل کرتا ہے ۔۔ ستر ہزار اسرائیلی قید کیے جاتے ہیں ۔۔ ان قیدیوں میں دانیال علیہ السلام اور انکے ساتھی بھی ہوتے ہیں جنکے نام عزریا ، میثائیل ، حنانیا ۔۔ یہ انبیاء کے وارث تھے ۔۔
ایک روز بخت نصر ایک خواب دیکھتا ہے لیکن بھول جاتا ہے ۔۔ صبح دربار میں تمام نجیومیوں اور کاہنوں کو بلواتا ہے ۔۔ اور پوچھتا ہے کہ بتاؤ میں نے جو خواب دیکھا اسکی تعبیر کیا ہے ؟؟؟
اس پر نجیومیوں اور کاہنوں نے پوچھا " جب تک آپ ہمیں اپنا خواب نہیں بتائیں گے ہم کیسے بتا سکتے ہیں کہ آپ نے کیا دیکھا ۔۔!
اس پر بخت نصر نے کہا میں وہ خواب بھول گیا ہوں ۔۔ اگر تین دنوں میں تم لوگوں نے مجھے خواب کی تعبیر نہیں بتائی تو سب کو قتل کر دوں گا سب پریشان یہاں وہاں بھاگنے لگنے اور بڑے بڑے نجومیوں سے رابطے کرنے لگے ۔۔۔
ایک نجومی روتا ہوا قید خانے کے قریب سے گزر رہا تھا کہ کسی نے آواز لگائی" میں جانتا ہوں کہ تمھارے بادشاہ نے خواب میں کیا دیکھا ۔۔
اس پر وہ نجومی پلٹا اور کیا دیکھتا ہے کہ اندھیرے میں ایک خوبصورت نورانی چہرے والا نوجوان کھڑا ہے ۔۔ اسکے ساتھ تین دوست اور بھی ہیں ۔۔۔
نجومی اگلے دن صبح دانیال علیہ السلام کو دربار میں ساتھ لاتے ہیں ۔۔۔
بخت نصر پوچھتا ہے بتاؤ نوجوان تم میرے خواب کے متعلق کیا جانتے ہو ؟ اور اگر نہ بتاسکے تو سر قلم کردوں گا ۔۔
اس پر دانیال علیہ السلام نے فرمایا ۔۔" بادشاہ تم نے خواب میں ایک انتہائی بلند بت کو دیکھا جسکا سر بادلوں میں تھا جو پہاڑوں سے بھی اونچا تھا ۔۔ جب بخت نصر نے یہ سنا تو چونک گیا اور کہا " ہاں ہاں بالکل ایسا ہی دیکھا ۔۔
پھر کہا کہ اسکا سر سونے کا سینہ پیتل کا پیٹ تانبے کا گھٹنوں سے پنڈلیوں تک لوہے کا اور اسکے پیر مٹی کے بنے تھے ۔۔۔ پھر آسمان سے ایک پہاڑ نما چٹان بت سے ٹکراتا ہے اور اسے ریزہ ریزہ کردیتا ہے اسکے ذرے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں اور بت کی جگہ ایک چٹان لے لیتا ہے ۔۔۔
یہ سن کر بخت نصر مزید چونکا اور تخت سے نیچے اتر آیا ۔۔
بخت نصر نے کہا اسکی تعبیر کیا ہے؟
دانیال علیہ السلام نے کہا کہ تمھارے بعد بہت سے حکمران آئیں گے اور ختم ہو جائیں گے ۔۔
سونے کے سر سے مراد اس ملک کے بہترین لوگ ہوں گے جو خوبصورت بھی ہوں گے ۔۔ سینہ پیتل سے مراد اسکے بعد کے لوگ کم خوبصورت ہوں گے اور انکی حکومت زیادہ دیر تک ہوگی ۔۔۔ تانبے سے مراد اس پر کم خوبصورت لوگ اور عارضی حکومت قائم ہوگی ۔۔۔ لوہے سے مراد جنگجو لوگ اس ملک پر مسلط ہوں گے ۔۔ پیر مٹی سے مراد کمزور لوگ جو اسے ختم کردیں گے ۔۔۔
چٹان سے مراد ایک نبی آئے گا اسکے لوگ یہاں آکر سب کو تباہ کرکے ہمیشہ کے لیے حکومت کریں گے ۔۔۔۔
اسکے بعد بخت نصر دانیال علیہ السلام کو اپنا مقرب خاص بنا دیتا ہے ۔۔۔
حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ۔۔۔۔۔
بخت نصر کے بیت المقدس کو تاراج کے فوراً بعد کا ہی حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ جب کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام جب کسی طرح ''بخت نصر'' کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہوچکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِھَا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کریگا؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا، اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا۔ اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کردیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کردیا۔ اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلابلا کر اس شہر میں آباد کردیا۔ اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اورقسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔
جب حضرت عزیر علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مرچکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمر وہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیر! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے؟ تو آپ نے خیال کر کے کہاکہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں،اے عزیر! تم پورے ایک سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیر! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان پر گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا
اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
اَوْکَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ۟ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرْ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوۡہَا لَحْمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾
ترجمہ :۔ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پراور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم۔ فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بُو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں)اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)
درس ہدایت:۔(۱)ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ انگور اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہوجائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہوسکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیر علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)۔
اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا!میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ آپ کیسے عزیر ہوسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعا مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام)ہیں تو میرے لئے دعا کردیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آجائے اور میرا فالج اچھا ہوجائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کردی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقینا حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہوچکا تھا۔ اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلاشبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو تو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنائیے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کردیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی ہے یا نہیں؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی بیل کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کردی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کردو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کردوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کردیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقینا یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ)
(تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۲۲،پ۳،البقرۃ:۲۵۹)
معلق باغات کی تعمیر۔۔۔
کہتے ہیں کہ کیا کسارا کی بیٹی بہت خوبصورت تھی بخت نصر کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بابل منتقل ہوئی تو افسردہ رہنے لگی تھی ۔۔ ایک دن بخت نصر اس سے افسردہ رہنے کی وجہ پوچھی تو امنیہ نے جواب دیا ۔۔۔
" جہاں میں رہتی تھی وہاں سرسبز پہاڑ آبشاریں اور درخت وغیرہ تھے یہاں دور دور تک کچھ نہیں سوائے چٹیل میدان کے اور دو دریاؤں کے ۔۔۔
یہ سن کر بخت نصر نے ماہر تعمیرات کو بلوایا اور انکے سامنے یہ منصوبہ رکھ دیا ۔۔ ماہر تعمیرات نے اسے قبول کیا اور افرادی قوت کا مطالبہ کیا لہذا بخت نصر نے فوج بھیج کر آس پاس کے علاقوں سے مختلف قسم کے افراد قید کرکے لائے ۔۔ اسکے بعد تانبا لوہا نکالنے کا کام شروع ہوا ۔۔
اب ماہر تعمیرات برج بناتے ان برجوں ستون کو اینٹوں اور سیسہ پگھلا کر مظبوط کرتے جاتے۔۔ اسکے بعد منزل کی چھت پر ان لوہے اور تانبے کو پگھلا کر اسکی تہہ بنائی جاتی ۔۔
اسی طرح کئی منزل بنائے گئے جو قریبا 400 فٹ بلند تھی ۔۔ اس میں درجہ بہ درجہ کیاریاں بنائی گئی ان میں ایشیا بھر سے پھل پھول اور مختلف قسم کے درخت لگائے گئے ۔۔ اسکے بعد سیسہ پگھلا کر چاروں طرف تالاب بنائے گئے ۔۔۔ تالاب بنانے کے بعد اب پانی کو اتنی بلندی پر پہنچانا سب سے مشکل کام تھا ۔۔۔
اسکے لیے پن چکی بنایا گیا ۔۔ نمرود کے دور بابل کے قلعے کے اندر دریائے دجلہ و فرات کا پانی گزرتا تھا چنانچہ یہ عمارت دجلہ اور فرات کے عین وسط میں بنائی گئی تھی ۔۔۔ فرات کنارے چرخیاں لگائی گئی وہاں سے پانی تالاب میں منتقل ہوتا پھر وہاں سے یہ پانی عمارت کی بالائی منزل تک پہنچتا ۔۔ ہر منزل پر تالاب بنے ہوئے تھے جب وہ تالاب بھر جاتے تو پانی آبشار کی شکل میں نیچے کرنے لگتا ۔۔۔ جب ہوا کے جھونکوں سے درخت ہلتے تو محسوس ہوتا جیسے پوری منزل ہل رہی ہو۔۔۔
یہ منزل چار سو فٹ بلند اور تین سو پچاس فٹ چوڑائی میں بنائی گئی تھی ۔۔
اسکی فصیلیں اس قدر چوڑے بنائی گئے تھے کہ چار گھوڑے ایک ساتھ ان فصیلوں پر دوڑ سکتے تھے ۔۔۔ اس عمارت کیساتھ پانچ اور چھوٹے چھوٹے اسی طرز کے عمارت بنائے گئے تھے ان تالاب اور باغات کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ ہوا میں معلق ہیں اسی لیے انہیں معلق باغات کہتے تھے ۔۔۔
یہ باغات دنیا کے عجائبات میں دوسرے نمبر پر تھے ۔۔ ۔۔
بخت نصر کی موت کا واقعہ :
بخت نصر کے نزدیک حضرت دانیال علیہ السلام اور انکے ساتهی سب سے زیادہ باعزت تهے ۔ جنکو بخت نصر اسیران بیت المقدس کے طور پر قید کر کے بابل عراق لے کرآیاتها۔ کیونکہ یہودیوں کو اس قربت سے شدید حسد تها پس یہودی امراء جو کہ بخت نصر کے درباری اور مدد گارتھے سے کہنے لگےکہ دانیال علیہ السلام جب پانی پی لیتے ہیں تو انکا بول یعنی پیشاب پر سے اختیار ختم ہو جاتا ہے یہ بات اس وقت ان میں بہت عار معیوب سمجهی جاتی تهی بخت نصر نے اس بات کو جاننے کی خاطر یہودی امراء و حضرت دانیال علیہ السلام کی دعوت کی پهر انہوں نے کهانا کهایا اور پانی پیا دوسری طرف بخت نصر نے دربان کو حکم دیا کے کهانا کهانے کہ بعد حاضرین میں سے سب سے پہلے جو بهی پیشاب کرنے کیلئے باہر نکلے اسے کلہاڑے سےقتل کردینا۔ چاہے وہ پیشاب کرنے والا یہ ہی کیوں نہ کہے کہ میں بخت نصر ہوں پس تم اس سے کہنا کہ تو جهوٹ بولتا ہے کیونکہ بخت نصر نے مجهے تیرے قتل کا حکم دیا ہے چنانچہ کهانا ختم ہوا تو سب حاضرین میں سےبخت نصر پہلے پیشاب کی شدت کی وجہ سے بے قرار ہو کر سب سے پہلے کهڑا ہوا جوکہ اسکو اچانک ہی اتر آیا تها لہذاء وہ باہر نکلنے لگا تو دربان اس پر کم روشنی کی وجہ سے حملہ آور ہوا تو بخت نصر بولا میں بخت نصر ہوں تو دربان بولا تو جهوٹ بولتا ہے بادشاہ نے مجهے تیرے قتل کا حکم دیا ہے اور اس پر کلہاڑے کا وار کر دیا جس سے بخت نصر اپنی ہی عام سپاہی کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔بعض یہودیوں کی کتب میں اس کے بارے تعریفی کلمات بھی تحریر ہیں جس کے مطابق بخت نصر ایک نیک ' صالح اور نجات دہندہ بادشاہ تھا۔ جبکہ اکثریہودیوں کے مطابق یہ انبیاء کا قاتل ہونے کی وجہ سے بدبخت و نامراد تھا۔
تفسیر صاوی میں ہے کہ دنیا میں کل چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں جن کو پوری زمین بادشاہی ملی۔ ان میں دو مومن تھے اور دو کافر۔ مومن تو حضرت سلیما ن علیہ السلام اور ذوالقرنین ہیں اور کافر ایک بخت نصر اور دوسرا نمرود ہے۔ اور تمام روئے زمین کے ایک پانچویں بادشاہ اس امت میں سے ہونے والے ہیں جن کا اسم گرامی حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگا۔
تفسیر خازن میں ہے کہ جب بھی یہودیوں نے فساد ،شر انگیزی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی ایسے شخص کو ان پر مُسَلَّط کر دیا جس نے انہیں ہلاکت اور بربادی سے دوچار کردیا، پہلے جب انہوں نے فتنہ و فساد شروع کیا اور تورات کے احکام کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان کی طرف بھیج دیا جس نے ان کو تباہ کر کے رکھ دیا، کچھ عرصے بعد پھر جب انہوں نے پھر سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب انہوں نے پھر شر انگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کردیا، پھر کچھ عرصے بعد جب فساد کا بازار گرم کیا تواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان پر تَسلُّط اور غلبہ عطا فرمادیا۔
حضرت وہب بن منبہ سے بخت نصر کے بارے ایک روایت بھی موجود ہے جو کہ حیواۃ الحیوان میں نقل ہے وہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی نے بخت نصر کے چہرے کو اللہ تعالی نے پہلے شیر کی شکل و صورت میں تبدیل کردیا تھا پس شیردرندوں کا بادشاہ بن گیا پهر بخت نصر کی شکل اللہ تعالی نے گدھ کی شکل میں کردی پس گدھ پرندوں کا بادشاہ بن گیا پهر بخت نصر کی شکل بیل کی شکل و صورت پر تبدیل کی گئی پس بیل مویشوں کا بادشاہ بن گیا بخت نصر کی شکل سات سال تک تبدیل ہوتی رہی لیکن اسکا دل انسان کا دل ہی رہا اسی وجہ سے وہ بخت نصر تمام مسخ شدہ صورتوں میں بهی انسانی سوچ اور طرز عمل کو اپنائے رہا پهر اللہ تعالی نے بخت نصر کو انسانی شکل لوٹا دی تو اسکی روح بهی لوٹا دی۔ سدی لکهتے ہیں کہ جب بخت نصرکو حق تعالی نے دوبارہ انسانی شکل عطاء کی تو اسکو بادشاہت بهی لوٹا دی۔ لیکن بجائے اس نے قدرت الہیٰ کا شکر گزار بننے کے اللہ کے نبیوں کا مخالف بن کر ہلاک و برباد ہوگیا۔
یہ شائد ایک اسرائیلی روایت جس کی تصدیق یا تردید مشکل ہے۔ اسی وجہ سے عیسائیوں اور یہودیوں کی کتب میں بخت نصر کو مختلف اشکال میں دکھایا جاتا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ ایک تابعی بزرگ تھے۔ جو یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ جو بعد میں ایمان لے آئے۔ ان کی روایات میں پچھلی امتوں کے واقعات کثرت سے ملتے ہیں۔ (واللہ اعلم)