▪سلسلہ ماہِ محرم کے فضائل، احکام اور منکرات (تصحیح ونظر ثانی شدہ)
📿 ماہِ محرم الحرام سے متعلق قرآن وسنت کی تعلیمات سمجھنے کی ضرورت:
محرم الحرام قمری اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، اسی سے قمری اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے، شریعت کی نگاہ میں اس مہینے کو بڑی ہی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے جس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ان شاء اللہ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا المیہ اور افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ امت میں اس ماہِ محرم ومحترم سے متعلق نظریاتی اور عملی طور پر بہت سی بدعات ورسومات، غیر شرعی افعال اور بے بنیاد باتیں عام ہیں، اس مہینے کے حوالے سے طرح طرح کی منگھڑت چیزیں عام کی گئیں ہیں جو کہ واضح طور پر قرآن وسنت کے خلاف ہیں، اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس ماہ محرم ومحترم کی حقیقت، فضیلت اور اہمیت سے متعلق صحیح اور معتبر دینی تعلیمات دُھندلا کر رہ گئی ہیں حتی کہ امت کا ایک بڑا طبقہ اس ماہِ محرم ومحترم سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہے، اور دینی تعلیمات سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہےکہ بہت سےسادہ لوح مسلمان اس ماہ سے متعلق نظریاتی اور عملی طور پر شریعت کی خلاف ورزی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور انھیں نہیں معلوم کہ اس ماہ کے بارے میں دینِ اسلام کا صحیح نقطہ نظر کیا ہے!!
📿 ماہِ محرم سے متعلق اہلِ علم کی ذمہ داری:
اس تمام افسوس ناک صورتحال میں حضرات اہلِ علم کی یہ بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ماہ سے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں امت کی راہنمائی فرمائیں تاکہ امت میں صحیح تعلیمات عام ہوجائیں، اور خلافِ شرع اور منگھڑت باتوں کی نشاندہی اور خاتمہ ہوسکے۔
📿 ماہِ محرم سے متعلق ایک مسلمان کی ذمہ داری:
ایک عام مسلمان کی بھی یہ بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ماہ سے متعلق مستند اہلِ علم اور مفتیان کرام سے راہنمائی لے، قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات پر مبنی ان کی اس راہنمائی میں اس ماہ ِمحرم ومحترم سے متعلق اپنے نظریات اور اعمال کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح کرے، ماہ محرم کی حقیقت، فضیلت اور اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے، نظریاتی اور عملی طور پر شرعی تعلیمات پر عمل کرکے اس ماہ کے فضائل حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ہر اُس نظریے اور عمل سے اجتناب بلکہ اس سے بڑھ کر نفرت اور بیزاری کا اظہار کرے جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ یہی مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔
زیرِ نظر قسط وار سلسلے میں قرآن وسنت کی روشنی میں ماہِ محرم الحرام کی حقیقت، اہمیت، فضیلت اور اعمال ذکر کرنے کے ساتھ مروّجہ غیر شرعی نظریات اور اعمال کی نشاندہی بھی کی جائے گی ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے، سننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
⬅️ ماہِ محرم سے متعلق غیر شرعی اور غلط نظریات واعمال کا اجمالی تذکرہ:
ماہِ محرم سے متعلق امت میں متعدد غیر شرعی اور غلط نظریات واعمال رائج ہیں، ذیل میں ان میں سے بنیادی باتوں کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں:
1⃣ بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ماہِ محرم یا دس محرم کو جو فضیلت حاصل ہے وہ سیدنا حضرت حسین اور ان کے دیگر جانثار شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کی شہادت کی وجہ سے ہے، ظاہرہے کہ یہ بات ہرگز درست نہیں۔
2️⃣ بہت سے لوگ سیدنا حضرت حسین اور ان کے دیگر جانثار احباب رضی اللہ عنہم کی شہادت کی وجہ سے اس مہینے کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس مہینے کو غم کے طور پر ہی مناتے ہیں، اسی بنیاد پر اس مہینے میں شادی بیاہ نہیں کرتے، مکان کی تعمیر نہیں کرتے، خوشی کی کوئی بھی تقریب منعقد نہیں کرتے، جائز زیب وزینت اختیار نہیں کرتے، نئے کپڑے نہیں خریدتے اور نہ ہی پہنتے ہیں، عورتیں مہندی نہیں لگاتیں، بعض لوگ غم کی وجہ سے اس مہینے میں سیاہ لباس پہنتے ہیں اور سوگ مناتے ہیں، یہ تمام باتیں غیر شرعی ہیں۔
3⃣ بہت سے لوگ ماہِ محرم میں نکاح کرنے کو معیوب اور غلط سمجھتے ہیں بلکہ اس مہینے میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ اس مہینے پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں اس مہینے میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بد فالی اور بد شگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ ’’نحوست‘‘ سے حفاظت ہوسکے اور شادی کامیاب رہے۔ یہ بھی ایک غیر شرعی نظریہ ہے۔
4️⃣ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا غم منانا حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے، اس لیے اس ماہِ محرم میں غم منانا درست ہے۔ یہ بھی واضح غلط فہمی ہے۔
5️⃣ ماہِ محرم خصوصًا عاشورا کے دن سیدنا حضرت حسین اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شہادت کے غم میں نوحہ اور ماتم کرنے، مرثیے پڑھنے، مجالس منعقد کرنے، بیانات کرنے کا عام رواج ہوچکا ہے، یہ تمام کام شریعت کے خلاف ہیں۔
6️⃣ بہت سے لوگ ماہِ محرم خصوصًا نویں اور دسویں محرم کو سبیلیں لگا کر دودھ یا شربت پلاتے ہیں، حلیم، چاول یا دیگر کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں؛ یہ تمام تر چیزیں بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
7️⃣ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی بدعات پر مشتمل کھانے اور سبیلوں کی مجالس اور مقامات میں شریک ہوتے ہیں جس کا ناجائز اور گناہ ہونا واضح ہے۔
8️⃣ بعض خطیب حضرات اپنے بیانات میں ماہِ محرم سے متعلق منگھڑت اور غیر معتبر روایات، واقعات اور عملیات بیان کرتے رہتے ہیں، اسی طرح سیدنا حضرت حسین، شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم اور واقعہ کربلا سے متعلق بھی خود ساختہ واقعات اور روایات بیان کرتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی باتیں شریعت کی نظر میں غلط، ناپسندیدہ اور واجب الاِصلاح ہیں۔
یہ ماہِ محرم سے متعلق غیر شرعی نظریات واعمال کا اجمالی تذکرہ ہے، ان تمام باتوں کی تفصیل اس سلسلہ کے تحت قسط وار ذکر ہوگی ان شاء اللہ۔
🌼 ماہِ محرّم الحرام کے فضائل اور اعمال
📿 ماہِ محرّم حرمت اور عظمت والا مہینہ ہے:
ماہِ محرم اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے۔
☀ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ نمبر 36 میں فرماتے ہیں:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِي كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُۚ (36)
▪ ترجمہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاتھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قمری اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے قمری اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینےحرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جن سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: ’’زمانہ اب اپنی اُسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا (اس ارشاد سے مشرکین کے ایک غلط نظریے اور طرزِ عمل کی تردید مقصود ہے جس کا ذکر اسی سورتِ توبہ آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔)، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت (،عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذُو القعدہ، ذُو الحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘
3197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا: أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ».
📿 ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کی فضیلت کا نتیجہ اور اس کا تقاضا:
ان چار مہینوں (یعنی ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ، مُحرم اور رجب) کی عزت وعظمت اور احترام کی بدولت ان میں ادا کی جانے والی عبادات کےاجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ گناہوں کے وبال اور عذاب میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہینوں میں عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنےکا بخوبی اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرات اہلِ علم فرماتے ہیں کہ جو شخص ان چار مہینوں میں عبادت کا اہتمام کرتا ہے اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادات کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے۔
(احکام القرآن للجصاص سورۃ التوبہ آیت: 36، معارف القرآن سورۃ التوبہ آیت: 36)
⬅️ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ سے اس آیت کی تفسیر نقل کی جاتی ہے، مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے، اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔“
⬅️ مفتی صاحب رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
▪ ’’پہلی آیت میں ارشاد ہے:’’إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا‘‘ اس میں لفظِ عِدَّةَ تعداد کے معنی میں ہے، اور ’’شُھُور‘‘ شَہر کی جمع ہے،’’شَھر‘‘ کے معنی مہینہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ متعین ہے، اس میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی اختیار نہیں۔
▪ اس کے بعد ’’فِىْ كِتٰبِ اللّٰهِ‘‘ کا لفظ بڑھا کر بتلا دیا کہ یہ بات ازل سے لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی تھی، پھر ’’يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ‘‘ فرما کر اشارہ کردیا کہ قضائے خداوندی اس معاملہ میں اگرچہ ازل میں جاری ہوچکی تھی، لیکن یہ مہینوں کی ترتیب اور تعیین اس وقت عمل میں آئی جب آسمان وزمین پیدا کیے گئے۔
▪ پھر ارشاد فرمایا :’’مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘، یعنی ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا: ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں بھی باقی ہے۔
حجۃ الوداع کے خطبہ یوم النحر میں رسول کریم ﷺ نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے مسلسل ہیں: ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔ مگر ماہِ رجب کے معاملہ میں عرب کے دو قول مشہور تھے، بعض قبائل اس مہینہ کو رجب کہتے تھے جس کو ہم رمضان کہتے ہیں، اور قبیلہ مضر کے نزدیک رجب وہ مہینہ تھا جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو رجبِ مضر فرما کر یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے وہ ماہِ رجب مراد ہے۔
▪ ’’ذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُ‘‘: یہ ہے دینِ مستقیم، یعنی مہینوں کی تعیین اور ترتیب اور ان میں ہر مہینہ خصوصًا ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کے متعلق جو احکام ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکمِ ازلی کے مطابق رکھنا ہی دینِ مستقیم ہے، اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی اور تغیر و تبدل کرنا کج فہمی اور کج طبعی کی علامت ہے۔
▪ ’’فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أَنْفُسَكُمْ‘‘: یعنی ان مقدس مہینوں میں تم اپنا نقصان نہ کر بیٹھنا کہ ان کے معینہ احکام و احترام کی خلاف ورزی کرو یا ان میں عبادت گذاری میں کوتاہی کرو۔
امام جصاص رحمہ اللہ نے ’’احکام القرآن‘‘ میں فرمایا کہ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔‘‘(معارف القرآن: 4/370 تا 372)
☀ ’’احکام القرآن للجصاص‘‘ کی ایمان افروز عبارت ملاحظہ فرمائیں جو کہ سورۃ التوبہ آیت نمبر 36 کی تفسیر میں مذکور ہے:
وَإِنَّمَا سَمَّاهَا حُرُمًا؛ لِمَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا: تَحْرِيمُ الْقِتَالِ فِيهَا وَقَدْ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ أَيْضًا يَعْتَقِدُونَ تحريم القتال فيها، وقال الله تعالى: «يسئلونك عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فيه كبير»، وَالثَّانِي: تَعْظِيمُ انْتِهَاكِ الْمَحَارِمِ فِيهَا بِأَشَدَّ مِنْ تَعْظِيمِهِ فِي غَيْرِهَا وَتَعْظِيمِ الطَّاعَاتِ فِيهَا أَيْضًا، وَإِنَّمَا فَعَلَ اللهُ تَعَالَى ذَلِكَ؛ لِمَا فِيهِ مِنَ الْمَصْلَحَةِ فِي تَرْكِ الظُّلْمِ فِيهَا لِعِظَمِ مَنْزِلَتِهَا فِي حُكْمِ اللهِ وَالْمُبَادَرَةِ إلَى الطَّاعَاتِ من الاعتمار وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَغَيْرِهَا كَمَا فَرَضَ صَلَاةَ الْجُمُعَةِ فِي يَوْمٍ بِعَيْنِهِ وَصَوْمَ رَمَضَانَ فِي وَقْتٍ مُعَيَّنٍ وَجَعَلَ بَعْضَ الْأَمَاكِنِ فِي حُكْمِ الطَّاعَاتِ، وَمُوَاقَعَةُ الْمَحْظُورَاتِ أَعْظَمُ مِنْ حُرْمَةِ غَيْرِهِ نَحْوَ بَيْتِ اللهِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، فَيَكُونُ تَرْكُ الظُّلْمِ وَالْقَبَائِحِ فِي هَذِهِ الشُّهُورِ وَالْمَوَاضِعِ دَاعِيًا إلى تركها في غيره، ويصير فِعْلِ الطَّاعَاتِ وَالْمُوَاظَبَةِ عَلَيْهَا فِي هَذِهِ الشُّهُورِ وَهَذِهِ الْمَوَاضِعِ الشَّرِيفَةِ دَاعِيًا إلَى فِعْلِ أَمْثَالِهَا فِي غَيْرِهَا لِلْمُرُورِ وَالِاعْتِيَادِ وَمَا يَصْحَبُ اللهُ الْعَبْدَ مِنْ تَوْفِيقِهِ عِنْدَ إقْبَالِهِ إلَى طَاعَتِهِ وَمَا يَلْحَقُ الْعَبْدَ مِنَ الْخِذْلَانِ عِنْدَ إكْبَابِهِ عَلَى الْمَعَاصِي وَاشْتِهَارِهِ وَأُنْسِهِ بِهَا، فَكَانَ فِي تَعْظِيمِ بَعْضِ الشُّهُورِ وَبَعْضِ الْأَمَاكِنِ أَعْظَمُ الْمَصَالِحِ فِي الِاسْتِدْعَاءِ إلَى الطَّاعَاتِ وَتَرْكِ الْقَبَائِحِ، وَلِأَنَّ الْأَشْيَاءَ تَجُرُّ إلَى أَشْكَالِهَا وَتُبَاعِدُ مِنْ أَضْدَادِهَا فَالِاسْتِكْثَارُ مِنَ الطَّاعَةِ يَدْعُو إلَى أَمْثَالِهَا وَالِاسْتِكْثَارُ مِنَ الْمَعْصِيَةِ يَدْعُو إلَى أَمْثَالِهَا.
📿 ماہِ محرم کی فضیلت اور حُرمت کا تقاضا:
ان چار مہینوں میں سے چوں کہ ماہِ محرم کا مہینہ بھی ہے، اس لیے اس کی عزت واحترام کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس مہینے میں عبادات کی طرف بھرپور توجہ دی جائے اور گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
📿 عاشورا کے دن کی خصوصی فضیلت:
ویسے تو محرم کے پورے مہینے کی فضیلت ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا، البتہ محرم کے مہینے میں خصوصیت کے ساتھ عاشورا یعنی محرم کی دسویں تاریخ کی فضیلت محرم کے باقی دنوں کی بنسبت زیادہ ہے، اس دن تاریخِ انسانی میں متعدد عظیم واقعات کا ظہور بھی ہوا۔ عاشورا کی اسی خصوصی فضیلت کی وجہ سے اس دن عبادات کی فضیلت اور اہمیت بھی زیادہ ہے، مزید تفصیل آگے بیان کی جائے گی ان شاء اللہ۔
📿 ماہِ محرم کے عمومی اعمال:
ماقبل میں مذکور تفصیل سے ماہِ محرم کی عمومی عبادات کی حقیقت اور اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ محرم کے مہینہ کی فضیلت اور اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں گناہوں سے خصوصی طور پر اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات کا بھی خوب اہتمام کیا جائے۔ یہ عبادات دن میں بھی ادا کی جاسکتی ہیں اور رات میں بھی، اس کے لیے کوئی وقت یا تاریخ خاص نہیں اور نا ہی اس کے لیے کوئی خاص عبادت مقرر ہے، بلکہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق پورے مہینے کے شب وروز میں موقع محل کے اعتبار سے جس قدر فرائض، واجبات، سنتوں، مستحبات، نوافل، ذکر وتلاوت، دعاؤں، صدقات، روزوں اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام کرسکتا ہے تو یہ بڑی ہی سعادت کی بات ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب