ماہِ محرم کے روزوں کے فضائل واحکام


📿 ماہِ محرم کے روزوں کی فضیلت:
محرم قمری اسلامی سال کا پہلا  مہینہ ہے، اسی سے قمری اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے، شریعت کی نگاہ میں اس مہینے کو بھی بڑی حُرمت، عظمت، فضیلت اور اہمیت حاصل ہے، اسی وجہ سے اس ماہِ محرم میں عبادات کی ادائیگی بھی بڑی فضیلت اور اہمیت رکھتی ہے۔ اس ماہ کی عبادات میں سے ایک اہم عبادت روزہ بھی ہے کہ اس ماہِ محرم میں روزے رکھنے کی بھی فضیلت ہے، ہر دن کے روزے کی فضیلت ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

📿 ماہِ محرّم حرمت اور عظمت والا مہینہ ہے:
ماہِ محرم اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ آیت نمبر 36 میں فرماتے ہیں:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِي كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُۚ (36)
▪ ترجمہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاتھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قمری اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے قمری اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینےحرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جن سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: ’’زمانہ اب اپنی اُسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا (اس ارشاد سے مشرکین کے ایک غلط نظریے اور طرزِ عمل کی تردید مقصود ہے جس کا ذکر اسی سورتِ توبہ  آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔)، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت (، عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘
3197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا: أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ».

📿 ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کی فضیلت کا نتیجہ اور اس کا تقاضا:
 ان چار مہینوں (یعنی ذُوالقعدہ،  ذُوالحجہ، مُحرم اور رجب) کی عزت وعظمت اور احترام کی بدولت ان میں ادا کی جانے والی عبادات کے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ گناہوں کے وبال اور عذاب میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہینوں میں عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنےکا بخوبی اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرات اہلِ علم فرماتے ہیں کہ جو شخص ان چار مہینوں میں عبادت کا اہتمام کرتا ہے اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادات کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے۔
(احکام القرآن للجصاص سورۃ التوبہ آیت: 36، معارف القرآن سورۃ التوبہ آیت: 36)

📿 ماہِ محرّم کی حرمت کا تقاضا:
چوں کہ ماہِ محرم بھی ان چار مبارک مہینوں میں سے ہے، اس لیے اس میں بھی عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے اجتناب بڑی اہمیت رکھتا ہے، چوں کہ روزہ بھی ایک اہم عبادت ہے اس لیے اس سے ماہِ محرم کے 
پورے مہینے میں روزے رکھنے کی فضیلت بخوبی ثابت ہوجاتی ہے۔ 

📿 ماہِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے ہیں:
احادیث ِمبارکہ میں خصوصی طور پر محرم کے روزوں کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی ہے۔‘‘
2812: حَدَّثَنِى قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِى بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِىِّ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ».

📿 یومِ عاشورا کے روزے کی فضیلت:
ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ ماہِ محرم کے  پورے مہینے کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے، البتہ اس ماہ میں خصوصیت کے ساتھ عاشورا یعنی محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کو بڑی فضیلت حاصل ہے کہ اس دن کا روزہ مہینے کے باقی ایام کے روزوں سے افضل ہے، روایات ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ عاشورا کے دن کے روزے اور ماہِ رمضان کے روزوں کو دیگر ایام پر فضیلت دیتے تھے۔
☀ صحیح بخاری میں ہے:
2006: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ.
2️⃣ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’عاشورا کے  دن روزہ رکھنے سے پچھلے ایک سال کے (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘
☀ صحیح مسلم میں ہے:
2803: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ -قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ- عَنْ غَيْلانَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِىِّ عَنْ أَبِى قَتَادَةَ .... «صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ».

📿 یومِ عاشورا کے روزے کا  تاریخی پہلو:
حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورا کا روزہ رکھتے تھے،  رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے حضور اقدس ﷺ مکہ میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے، مدینہ آنے کے بعد حضور اقدس ﷺ نے دیکھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے ہیں، تو حضور اقدس ﷺ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو یہود نے کہا کہ یہ عاشورا تو عظیم الشان دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون کو اپنی قوم سمیت غرق کردیا تھا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا، اس لیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، یہ سن کر  حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ہم حضرت موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
☀ صحیح مسلم میں ہے:
2714: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ «مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِى تَصُومُونَهُ؟» فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، أَنْجَى اللهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ، فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَنَحْنُ نَصُومُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ»، فَصَامَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. 
چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے عاشورا کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، (اسی سے بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورا کا روزہ فرض تھا۔) پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’عاشورا کا روزہ رکھنے سے متعلق ہر ایک کو اختیار ہے، کوئی رکھنا چاہے تو رکھ لے اور نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھے۔‘‘ اس سے عاشورا کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی البتہ اس کا مستحب ہونا برقرار رہا۔
☀ صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ:
1592: عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الْكَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللهُ رَمَضَانَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ».
2002: عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ.

📿 یومِ عاشورا کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ ملانے کی حقیقت اور حکم:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے جب عاشورا کا  روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہود ونصاریٰ تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ان شاء اللہ اگلے سال ہم نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘ لیکن اگلا محرم آنے سے پہلے ہی حضور اقدس ﷺ وصال فرما گئے۔
☀ صحیح مسلم میں ہے:
2722: وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ الْحُلْوَانِىُّ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِى مَرْيَمَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنِى إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّىَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ: إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ -إِنْ شَاءَ اللهُ- صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ». قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّىَ رَسُولُ اللهِ ﷺ.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس ﷺ نے یہود ونصاریٰ کی مشابہت سے بچنے کے لیے نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا، لیکن اگلا محرم آنے سے پہلے ہی ربیع الاوّل میں انتقال فرما گئے۔ اس لیےاس حدیث کی رو سےعاشورا کے روزے  کے ساتھ 9 یا 11 تاریخ کو ملا کر دو روزے رکھنے چاہیے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ:
☀ مسند احمد میں ہے:
2154- قَالَ هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا».
☀ مصنف عبد الرزاق میں ہے:
7839- أخبرنا عبد الرزاق قال: أخبرنا بن جريج قال: أخبرني عطاء أنه سمع ابن عباس يقول في يوم عاشوراء: خالفوا اليهود، وصوموا التاسع والعاشر.
☀ اسی طرح شعب الایمان میں یہ حدیث ہے کہ:
3510- أخبرنا ابو الحسين بن الفضل: نا عبد الله بن جعفر: نا يعقوب بن سفيان: حدثني الحميدي: نا سفيان عن بن أبي ليلى، عن داود بن علي، عن أبيه، عن جده: أن رسول الله ﷺ قال: «لئن بقيت لأمرت بصيام يوم قبله أو بعده يوم عاشوراء».
ان احادیث مبارکہ اور شرعی دلائل کی روشنی میں حضرات فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ یومِ عاشورا کا تنہا ایک روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مستحب اور بہتر یہی ہے کہ عاشورا کے ساتھ ایک اور روزہ نویں یا گیارہویں تاریخ کا ملا کر دو روزے رکھے جائیں اور یہی حضور اقدس ﷺ کی خواہش کے عین مطابق ہے۔
☀️ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:
والظاهر أن صوم عاشوراء من القسم الثاني بل سماه في «الخانية» مستحبًّا فقال: ويستحب أن يصوم يوم عاشوراء بصوم يوم قبله أو يوم بعده؛ ليكون مخالفا لأهل الكتاب، ونحوه في «البدائع»، بل مقتضى ما ورد من أن صومه كفارة للسنة الماضية وصوم عرفة كفارة للماضية والمستقبلة كون صوم عرفة آكد منه، وإلا لزم كون المستحب أفضل من السنة وهو خلاف الأصل. تأمل ....... (وتنزيها كعاشوراء وحده) أي منفردا عن التاسع أو عن الحادي عشر. «إمداد»؛ لأنه تشبه باليهود، «محيط». قوله: (وسبت وحده)؛ للتشبه باليهود، «بحر». وهذه العلة تفيد كراهة التحريم، إلا أن يقال: إنما تثبت بقصد التشبه كما مر نظيره ط. قلت: وفي بعض النسخ: «وأحد» بدل قوله: «وحده»، وبه صرح في «التاترخانية» فقال: ويكرم صوم النيروز والمهرجان إذا تعمده ولم يوافق يوما كان يصومه قبل ذلك وهكذا قيل في يوم السبت والأحد. اه، أي يكره تعمد صومه إلا إذا وافق يوما كان يصومه قبل كما لو كان يصوم يوما ويفطر يوما أو كان يصوم أول الشهر مثلا فوافق يوما من هذه الأيام. وأفاد قوله: «وحده» أنه لو صام معه يوما آخر فلا كراهة؛ لأن الكراهة في تخصيصه بالصوم؛ للتشبه. وهل إذا صام السبت مع الأحد تزول الكراهة محل تردد؛ لأنه قد يقال: إن كل يوم منهما معظم عند طائفة من أهل الكتاب ففي صوم كل واحد منهما تشبه بطائفة منهم. وقد يقال: إن صومهما معا ليس فيه تشبه؛ لأنه لم تتفق طائفة منهم على تعظيمهما معا، ويظهر لي الثاني بدليل أنه لو صام الأحد مع الاثنين تزول الكراهة؛ لأنه لم يعظم أحد منهم هذين اليومين معا وإن عظمت النصارى الأحد وكذا لو صام مع عاشوراء يوما قبله أو بعده مع أن اليهود تعظمه.
(كتاب الصوم)

🌼 محرم اور عاشورا کے روزوں سے متعلق چند اہم باتیں
مذکورہ بالا تفصیل سے چند اہم باتیں سامنے آتی ہیں:
1⃣ ماہِ محرم کےروزے صرف نو اور دس محرم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس مہینے کے  ہر ہر دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے، اس لیے وسعت کے مطابق جس قدر چاہیں روزے رکھنا سعادت اور فضیلت کی بات ہے۔
2️⃣ ماہِ محرم کے روزوں میں خصوصی فضیلت دس محرم کے روزے کو حاصل ہے، جس کا اجر دیگر ایام کی بنسبت زیادہ ہے، جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔
3⃣ تنہا عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مستحب اور بہتر یہی ہے کہ عاشورا کے ساتھ ایک اور روزہ نویں یا گیارہویں تاریخ کا ملاکر دو روزے رکھے جائیں اور یہی حضور اقدس ﷺ کی خواہش کے عین مطابق ہے۔
⬅️ بعض اہل ِعلم فرماتے ہیں کہ آجکل چوں کہ یہود عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے اس لیے اب مشابہت نہ رہی، جس کی  وجہ سے عاشورا کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ ملانے کا حکم باقی نہیں رہا۔ لیکن اس بات سے اتفاق مشکل ہے کیوں کہ اول تو اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ یہود عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ کہنا ہی محلِّ نظر ہے کہ یہود آجکل یہ روزہ نہیں رکھتے کیوں کہ یہود کا وہ طبقہ جو مذہب کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا ہے ان کے بارے میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے ہوں گے۔ سوم یہ کہ اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ یہود آجکل عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے تب بھی حضور اقدس ﷺ کی خواہش کے پیشِ نظر دو روزے رکھنا ہی مستحب ہے کیوں کہ دین کے متعدد احکام ایسے بھی ہیں جو کسی مخصوص علت کی وجہ سے مشروع ہوئے تھے، لیکن بعد میں وہ علت نہ پائے جانے کے باوجود بھی سرانجام دیے جارہے ہیں، جیسے طوافِ قدوم میں رمل اس کی عمدہ مثال ہے کہ جو مکہ کے کفار کو قوت دکھانے کے لیے مشروع ہوا تھا لیکن وہ علت نہ پائے جانے کے باوجود بھی آج تک جاری ہے۔ 
4️⃣ اگر کوئی شخص تنہا عاشورا ہی کا روزہ رکھنا چاہے تو ناجائز نہیں بلکہ اس کو اس روزے کا پورا اجر ملے گا، اس لیے وہ حضرات جو کسی وجہ سے دو روزے نہ رکھ سکتے ہوں تو وہ بھی عاشورا کا ایک ہی روزہ رکھ کر اس کی فضیلت حاصل کرسکتے ہیں، کیوں کہ ان دو روزوں میں سے اصل فضیلت عاشورا کے روزے کی ہے،جبکہ یہود کی مشابہت کی وجہ سے ایک اور روزہ ساتھ ملانا ایک اضافی معاملہ ہے۔
5️⃣ نو یا گیارہ محرم کے روزے سے متعلق کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں جیسا کہ عاشورا کے روزےکے لیے ثابت ہے، البتہ اس کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ یہ محرم ہی کا ایک دن ہے اور محرم میں روزے رکھنا رمضان کے بعد سب سے زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور دوسری وجہ فضیلت کی یہ قرار دی جاسکتی ہے کہ عاشورا کے روزے کے ساتھ 9 یا 11 محرم کا روزہ رکھنے کے نتیجے میں یہود کی مشابہت سے بچنے کی حضور ﷺ کی خواہش پر عمل نصیب ہوتا ہے۔
6️⃣ اوپر جو دو روزے رکھنے کی بات ذکر ہوئی تو اس میں اصل روزہ دس محرم کا ہے کہ دس کے ساتھ 9 یا 11 تاریخ کا روزہ ملانے کا استحبابی حکم ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس مہینے کے کسی اور دن روزہ رکھنا چاہے تو اس کے ساتھ کوئی اور روزہ ملانے کا حکم نہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے نو محرم کا روزہ رکھ لیا اور وہ دس محرم کا روزہ کسی وجہ سے نہ رکھنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیوں نو محرم ماہِ محرم کا ایک عام دن ہے، اس کی اپنی فضیلت ہے لیکن اس کے ساتھ دس محرم کا روزہ ملانے کا حکم نہیں۔
7️⃣ محرم کے یہ روزے رکھنا  زیادہ سے زیادہ مستحب عمل ہے، اس لیے اس کو ضروری سمجھنا اوراس معاملے میں  حدود سے تجاوز کرنا ناجائز ہے۔ 
8️⃣ ماہِ محرم یہ روزے نفلی روزے کہلائے جاتے ہیں، اس لیے ان پر نفلی روزوں ہی کے احکام جاری ہوں گے۔
(مستفاد از: رد زالمحتار، اصلاحی خطبات، ودیگر کتب)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی