کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم منانا حضور ﷺ کی سنت ہے؟؟
▪سلسلہ ماہِ محرم کے فضائل، احکام اور منکرات (تصحیح ونظر ثانی شدہ)
📿 کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا غم منانا حضور ﷺ کی سنت ہے؟؟
حضور اقدس ﷺ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نہایت ہی محبت تھی، وہ حضور اقدس ﷺ کے انتہائی محبوب نواسے تھے۔ جب حضور اقدس ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر دی گئی کہ ان کو مظلومانہ طور پر شہید کردیا جائے گا تو حضور اقدس ﷺ بہت ہی افسردہ ہوئے حتی کہ حضور اقدس ﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
☀ جیسا کہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کی اس حدیث سے واضح ہے:
38522- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُجَيٍّ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَافَرَ مَعَ عَلِي وَكَانَ صَاحِبَ مطْهَرَتِهِ حَتَّى حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ فَنَادَى: صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللهِ، صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللهِ، فَقُلْتُ: مَاذَا أَبَا عَبْدِ اللهِ؟ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا لِعَيْنَيْك تَفِيضَانِ أَأَغْضَبَك أَحَدٌ؟ قَالَ: «قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا».
اس مضمون کی روایات کو لے کر بعض حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا غم منانا اور ان کے غم میں رونا حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے، اسی طرح بعض لوگ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ماہِ محرم میں سیدنا حضرت حسین اور دیگر شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کی مظلومانہ شہادت کو یاد کرکے آنسو بہانا، رونا، مرثیے اور نوحے پڑھنا اور سوگ منانا؛ یہ سب حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے۔
واضح رہے کہ ان روایات سے یہ دعویٰ کسی طور ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی تائید ہوتی ہے، اس لیے یہ دعویٰ نہایت ہی بے بنیاد اور خود ساختہ ہے۔ آئیے اس دعوے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
📿 پہلی بات:
اس مضمون کی احادیث میں حضور اقدس ﷺ کا حضر ت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت پر افسردہ ہونے اور رونے کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ ان سے غایت محبت کا یہی تقاضا ہوسکتا ہے، اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے کسی عزیز کی مظلومانہ شہادت پر شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے طبعی تقاضے کی بنیاد پر غم زدہ ہونا، آنسو بہانا اور رونا جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی یا کسی اور شخصیت پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ آنے پر اگر کوئی شخص غم زدہ ہوجائے یا اس کے آنسو بہہ نکلے اور وہ رو پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، یہ طبعی تقاضا بھی ہے۔ لیکن اس سے:
▪نہ تو غم منانا ثابت ہوسکتا ہے۔
▪نہ غم منانے کا اہتمام ثابت ہوسکتا ہے۔
▪نہ ہی غم منانے کی ترغیب ثابت ہوسکتی ہے۔
▪نہ ماہِ محرم کو غم والا مہینہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔
▪نہ ہی نوحے اور ماتم کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔
▪نہ ہی حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رونے کو سنت قرار دیا جاسکتا ہے۔
▪نہ ہی غم زدہ ہونے کو حضرت حسین اور شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص کیا جاسکتا ہے۔
▪️نہ ہی اس طرح کے دیگر غیر شرعی امور ثابت کیے جاسکتے ہیں۔
📿 دوسری بات:
حضور اقدس ﷺ کے رونے اور غم زدہ رہنے سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یومِ شہادت پر یا ماہِ محرم میں نوحہ کرنے، چیخنے چلانے، واویلا کرنے، جاہلیت جیسی باتیں کرنے، گریبان اور کپڑے پھاڑنے، سر منڈانے، چہرہ پیٹنے، چہرہ نوچنے اور ماتم کرنے،اپنے آپ کو زخمی کرنے، نوحے پر مشتمل مرثیے پڑھنے، ایسے پروگرام نشر کرنے اور ان کاموں کے لیے جلسے منعقد کرنے جیسے تمام غیر شرعی کاموں کا ہرگز ثبوت نہیں ہوتا کیوں کہ یہ احادیث کی رو سے ناجائز ہیں۔
📿 تیسری بات:
ان جیسی احادیث سے غم زدہ ہوجانے کا تو ثبوت ملتا ہے، لیکن غم منانے کا ثبوت نہ تو ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور نہ کسی اور دلیل سے۔ یاد رہے کہ غم زدہ ہوجانے اور غم منانے، اسی طرح کسی موقع پرغمناک واقعہ کا تذکرہ کرنے اور باقاعدہ اہتمام سے غم منانے میں فرق واضح ہے۔ امت کی تاریخ میں جلیل القدر شخصیات کے سامنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی یا شخصیت پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ آنے پر غم زدہ ہوجانے یا آنسو بہہ پڑنے کے واقعات تو مل سکتے ہیں لیکن غم منانے یا دیگر غیر شرعی کام کرنے کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا۔
📿 چوتھی بات:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا علم ہونے پر حضور اقدس ﷺ کے رونے سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی کہ: ’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا غم منانا اور ان کے غم میں رونا حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے۔‘‘ اس کے تو معنی یہ ہوئے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذکر پر رونا عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ظاہر ہے کہ یہ بات دینی تعلیمات کے کس قدر خلاف ہے!! یہ بات اس لیے بھی درست نہیں کہ:
1⃣ آجکل ایک بنیادی غلطی یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے ثابت ہونے والی ہر بات کو سنت قرار دیا جارہا ہے، حضرات اہلِ علم جانتے ہیں کہ یہ واضح غلطی اور علمی دنیا میں کس قدر کمزور بات ہے، کیوں کہ سنت ایک شرعی حکم اور اصطلاح ہے، اس کی اپنی ایک خاص تعریف ہے، کسی چیز کے سنت ہونے کے لیے کچھ اصول و شرائط ہیں، ہر حدیث سنت نہیں ہوا کرتی بلکہ حدیث اور سنت میں فرق ہے، حدیث سنت تب بنتی ہے جب اس میں سنت کی شرائط پائی جائیں۔ یہ تفصیل کا موقع نہیں البتہ بنیادی بات یہی ہے کہ ہر ثابت شدہ بات سنت نہیں ہوا کرتی۔ اس سے متعلق تفصیل کے لیے ’’تحفۃ العلماء افادات ِحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو پھر یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے کہ ہم حدیث سے ثابت ہونی والی ہر بات کو سنت سمجھ لیتے ہیں جیسا کہ ایک مشہور ومعروف واعظ نے بیان کے دوران کھڑے ہوکر پانی پیا تو پھر وضاحت کے طور پر یہ فرمایا کہ: ’’کھڑے ہوکر پانی پینا بھی میرے نبی کی سنت ہے۔‘‘ قارئین جانتے ہیں کہ یہ بات خود احادیث اور اکابر اہلِ علم کی تصریحات کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اسی غلط فہمی پر مبنی ہے جو کہ ابھی بیان ہوچکی، اور خیر سے یہ بات بھی انھی کی فرمودہ ہے کہ: ’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں رونا حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے۔‘‘ غور کیا جائے تو ان باتوں کے پیچھے بنیادی غلطی یہی کارفرما ہے کہ حدیث سے ثابت ہونے والی ہر چیز کو سنت سمجھ لیا جاتا ہے۔
2️⃣ حضرات صحابہ کرام، ائمہ مجتہدین اور اکابر اہلِ علم میں سے کسی نے اس کو سنت اور عبادت قرار نہیں دیا، اور نہ ہی ماہِ محرم میں غم منانے کے لیے کوئی محفل سجائی، نہ ہی کوئی اہتمام کیا اور نہ ہی ترغیب دی۔ گویا کہ غم منانے اور رونے کو سنت قرار دینے کا موقف جمہور اہل السنۃ کے بھی خلاف ہے۔
3⃣ حضرات صحابہ، ائمہ مجتہدین اور اکابر اہلِ علم میں سے کسی نے بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں رونے کی تأکید یا ترغیب نہیں دی، اس لیے آج دی جانے والی یہ ترغیبات بھی جمہور اہل السنۃ کے خلاف ہیں۔
4️⃣ حدیث کی تشریح وہی معتبر ہوتی ہے جو مستند ماہرینِ دین سے منقول ہو، جبکہ ان احادیث کی تشریح میں اہل السنۃ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم منانے اور ان کے غم میں رونے کو سنت قرار نہیں دیا، اس لیے یہ خود ساختہ تشریح بے بنیاد ٹھہرے گی۔
5️⃣ ان احادیث کی بنیاد پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم منانے یا رونے کو سنت قرار دینا درحقیقت احادیث سے اخذ کیے جانے والے خود ساختہ نتائج ہیں، حالاں کہ جمہور اہل السنۃ سے ہٹ کر احادیث سے من پسند یا خود ساختہ نتائج اخذ کرنا نہایت ہی سنگین غلطی ہے کیوں کہ پھر تو یہ دین بازیچہ اطفال بن جائے گا۔
6️⃣ اگر حسین رضی اللہ عنہ کا غم منانا سنت ہوتا تو یہ غم خود حضور اقدس ﷺ نے کتنی بار منایا؟؟ کتنی بار اس کی ترغیب دی؟؟ حضور اقدس ﷺ کی سنت کے عاشق حضرات صحابہ کرام نے کتنی بار منایا؟؟ خصوصًا وہ صحابہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی تقریبا پچاس سال تک حیات رہے تو ان میں سے کتنے صحابہ نے غم منایا اور کتنے سال منایا؟؟ پھر ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین اور امت کے جلیل القدر اکابر نے کب منایا اور کب اس کو سنت قرار دیا؟؟ اور کب اس کی ترغیب وتاکید فرمائی؟؟
7️⃣ اور اگر شہدا کا غم منانا دین کا حصہ ہوتا تو حضور اقدس ﷺ دیگر شہدا صحابہ کی یاد میں بھی ہر سال مناتے اور اس کی ترغیب دیتے، اسی طرح حضرات صحابہ اور امت کے جلیل القدر اکابر بھی غم مناتے اور ترغیب دیتے، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
📿 پانچویں بات:
قرآن وسنت میں کسی عزیز کی فوتگی یا شہادت میں رونے یا غم ردہ رہنے کو عبادت قرار نہیں دیا گیا کیوں کہ یہ شریعت کا مزاج ہی نہیں۔ واضح رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پر حضور ﷺ کا رونا بھی طبعی تقاضے اور غایتِ محبت کی بنیاد پر تھا، نہ کہ عبادت یا کارِ ثواب ہونے کی بنیاد پر۔ اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم منانے کو سنت قرار دینا واضح طور پر بے بنیاد بات ہے۔
📿 چھٹی بات:
یہ بات خوب سمجھنی چاہیے جو کہ بہت ہی اہم ہے کہ غم کے موقع پر شریعت کا مزاج غم بڑھانے، غم پیدا کرنے، غم کے اسباب مہیا کرنے یا غم منانے کا نہیں، بلکہ غم دور کرنے کا ہے، غم کے خاتمے اور غم مٹانے کا ہے، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1⃣ کسی عزیز کی وفات پر اس کے عزیز واقارب کے لیے سوگ تین دن تک قرار دیا گیا ہے، تین دن کے بعد بھی سوگ منانا دین کا تقاضا نہیں، اس لیے تین دن کے بعد سوگ منانا شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے اور وہ حاملہ نہ ہو تو اس کا سوگ چار ماہ دس دن تک ہے، لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو اس کا سوگ بچے کی پیدائش تک ہے، ایسی عورت پر تو سوگ واجب ہے، اسی طرح بعض طلاق یافتہ عورتوں کے لیے بھی سوگ کا حکم ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (صحیح البخاری حدیث: 5334، احکامِ میت، فتاویٰ رحیمیہ)
2️⃣ شریعت نے تعزیت کو مسنون قرار دیا ہے جو کہ غم دور کرنے اور صبر و تسلی کا بنیادی سبب ہے۔
3⃣ پھر تعزیت کے الفاظ سے متعلق شریعت کا مزاج یہ ہے کہ تعزیت درحقیقت تسلی دینے اور صبر کی تلقین کرنے کا نام ہے، نہ کہ مزید غم بڑھانے کا، اس لیے اس موقع پر ایسے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے میت کے لواحقین کے غم میں اضافہ ہو، اس سے ان مَردوں اور خصوصًا خواتین کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جو میت کے گھر داخل ہوتے ہی رونا دھونا، چیخنا چِلَّانا یا نَوحہ شروع کردیتی ہیں، جس سے میت کے لواحقین کے غم میں مزید اضافہ ہوتا ہے، حالاں کہ ان کو تو چاہیے کہ وہ میت کے لواحقین کے لیے تسلی اور صبر کا ماحول فراہم کریں، نہ کہ غم بڑھانے کے اسباب مہیا کریں، بہرحال یہ طرزِ عمل ترک کرنا ضروری ہے۔
(احکامِ میت، حسنِ معاشرت اور آدابِ زندگی از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)
4️⃣ پھر یہ بھی تعلیم دی ہے کہ تعزیت ایک ہی بار کرنی چاہیے، ایک سے زائد مرتبہ تعزیت کرنا مناسب نہیں، اس سے ان لوگوں کی غلطی سامنے آجاتی ہے جو بار بار تعزیت کے لیے جاتے ہیں جو لواحقین کے لیے غم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ (رد المحتار، در مختار، عالمگیریہ، احکامِ میت)
5️⃣ ساتھ میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ تعزیت تین دن تک کسی بھی دن کی جاسکتی ہے، تین دن کے بعد تعزیت کرنا مناسب نہیں، البتہ اگر تعزیت کرنے والا سفر پر ہو یا میت کے لواحقین سفر پر ہوں یا کسی اور عذر کی وجہ سے تین دن کے اندر تعزیت کا موقع نہ ملےتو تین دن کے بعد بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔
(رد المحتار، احکامِ میت، فتاویٰ رحیمیہ)
6️⃣ پھر تعزیت میں بھی اجتماع کرنا یا مجمع لگانا اچھا قرار نہیں دیا گیا بلکہ تعزیت کے لیے جاکر متعلقہ افراد سے تعزیت کرکے اگر ہوسکے تو لواحقین کے ساتھ کسی معاملے میں تعاون کیا جائے، ورنہ تو وہاں سے واپس آجائے اور اپنے کاموں میں مشغول ہوا جائے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میت کے ہاں مجمع لگانے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ اور نوحے کی مذمت اور ممانعت احادیث سے ثابت ہے۔
6905: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ.
⬅️ اس تفصیل اور اہم نکات سے شریعت کا مزاج بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شریعت کا مزاج غم بڑھانے، غم پیدا کرنے، غم کے اسباب مہیا کرنے یا غم منانے کا نہیں بلکہ غم دور کرنے کا ہے، غم کے خاتمے اور غم مٹانے کا ہے۔ اس لیے غم منانے کو سنت قرار دینا بذاتِ خود شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
📿 ساتویں بات:
اپنے کسی عزیز کی فوتگی یا شہادت پر قرآن وسنت کی تعلیمات یہی ہیں کہ دل کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی کرتے ہوئے صبر سے کام لیا جائے، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم منانے کو سنت قرار دینا درحقیقت صبر اور رضا بالقضا جیسی دینی تعلیمات ہی کے خلاف ہے۔
📿 آٹھویں بات:
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر غم منانے یا رونے کو سنت قرار دے کر ترغیب دینا درحقیقت اُس مخصوص طبقے کے موقف کی تائید کے زمرے میں آتا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم مناتے ہیں، نوحے پڑھتے ہیں، ماتم کرتے ہیں اور اس طرح کے دیگر غیر شرعی افعال کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ امت مسلمہ کی تاریخ میں جمہور اہل السنۃ نے ہمیشہ اس طبقے کے مذکورہ غیر شرعی نظریات واعمال کی تردید فرمائی ہے اور آج بعض حضرات ان کو جواز فراہم کررہے ہیں!!
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ