آج کل ایک بات مشہور ہے
بات تو ہے صحیح مگر نسبت میں کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔۔۔چونکہ نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے ۔
لہذا اس کی تصحیح بہت ضروری ہے
بات ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر میں یہودیوں کے درخت جلائے تھے
تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔۔۔کہ نبی علیہ السلام نے یہودیوں کے درخت۔۔۔جو اس وقت ان کی معیشت تھی جلائے تھے مگر خیبر میں نہیں
مدینہ منورہ ہی میں یہودِ بنی نضیر کے درختوں کو جلائے تھے اور اس پر نص قطعی موجود ہے۔۔۔
ماقطعتم من لینة
یہ بات یاد رکھیں
خیبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قلعہ کے پانی کے چشموں کو بند کیا تھا
لہذا میرے بھائیوں
آپ ﷺنے 1437 سال قبل ہمیں یہودیوں سے جنگ کرنے کے طریقے سکھلائے ہیں
اول۔۔۔ ان کی معیشت پر ضرب لگاؤ
تجارتی تعلقات کے انقطاع (بائیکاٹ) اور متبادل وغیرہ کے ذریعہ(غزوہ بنی نضیر میں درختوں کا جلانا)
ثانی۔۔۔ ان کی ضروریات زندگی بند کرو (خیبر میں قلعہ حصن قلہ کی پانی بند کرنا)
ثالث ۔۔۔ ان کو ذبح کرو قتل کرو (بنو قریظہ والوں کو قتل کرنا)
رابع ۔۔۔ ان کو جلاء وطن کرو (بنوقینقاع۔ بنی نضیر)