🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نائلہ نے مراسلہ کھولا-
وہ ابھی اسے پڑھنے بھی نہ پائی تھی کہ رازرق نے بحاجت آمیز انداز میں کہا - " میری پیاری تم اسے نہ پڑھو-"
انسان کی یہ فطرت ہے کہ جس چیز سے منع کرو اس کو ضرور ہی کرے گا-
لہذا نائلہ کو جتنا رازرق منع کرتا تھا اتنا ہی اسے اس کے دیکھنے کا شوق بڑهہ رہا تھا-
نائلہ نے سنا ہوا تھا کہ رازرق ہوس پرست بدکار ہے لیکن ابھی تک اسے اس کی نسبت تصدیق نہیں ہوئی تھی-
رازرق نائلہ سے اس لئے بھی ڈرتا تھا کہ پادریوں کی جماعت اس کی پشت پر تهی -
اس زمانہ میں اندلس کے اندر پادریوں کا بڑا زور تھا -
ان مذہبی لوگوں کی ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی تھی اور اس جماعت نے عوام کے دلوں میں کافی اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا -
بادشاہ کے احکام کی آن کے سامنے کوئی وقعت نہیں تهی.
رازرق سے پہلے اندلس کا بادشاہ ڈنرا تها وہ خاندان گاتهہ سے تها گاتهہ ان مشہور وحشی قوموں میں سے ایک قوم تھی جنہوں نے روما کی زبردست سلطنت کو تخت و تاراج کر دیا تھا - گاتهہ ایک ایشیائی قوم تھی جس کی دو شاخیں ہو گئی تھی - ایک اسٹروگاتهہ(مشرقی گاتهہ)یہ ابطالیہ پر مسلط ہو گئی اور دوسری وزی گاتهہ(مغربی گاتهہ) جو اندلس پر حکمران ہو گئی تھی -
شاہ ڈنرا وزی گاتهہ سے تها اس نے جب دیکھا کہ ملک میں پادریوں کا اقتدار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ ان کی بیخ کنی کے در پہ ہو گیا - "
اس میں شک نہیں کہ ڈنرا رحم دل تھا اور رعایا کے ہر فرد کو خواہ وہ کسی قسم اور کسی طبقہ کا کیوں نہ ہو ایک نظر سے دیکھتا تھا -
اس کی یہی بات پادریوں کو ناگوار گزرتی تھی -
اندلس میں یہودی اور عیسائی دو قومیں آباد تهیں -
پادری یہودیوں کو مقہور و ذلیل کرتے تھے، ڈنرا کو ان کی یہ بات بری معلوم ہوتی تھی اور وہ مظلوم یہودیوں کی طرف داری کر جاتا تھا.
پادریوں نے اس بادشاہ پر یہود نوازی کا الزام لگا کر اسے تخت سے معزول کر دیا تھا اور رازرق کو پادریوں کی بدولت تخت نصیب ہوا تھا -
اس کی ملکہ نے پادریوں کی جماعت کو اپنے ساتھ کر لیا تھا -
یہی وجہ تھی کہ رازرق اس سے ڈرتا تھا - کیوں اسے خوف تھا کہ کہیں نائلہ اسے بھی ڈنرا کی طرح پادریوں سے معزول نہ کروا دے-
نائلہ نے ضد کے لہجے میں کہا میں اسے ضرور پڑھوں گی-
رازرق :لیکن تم اسے پڑھ کر رنجیدہ ہو گی -
نائلہ :یہ تو میں جانتی ہوں-
رازرق :مگر عقل مندی نہیں ہے کہ انسان جان بوجھ کر غم و فکر اٹھائے-
نائلہ :لیکن مجبوری! !!!
رازرق :تم کو کوئی مجبور نہیں کر رہا.
نائلہ :یہ مراسلہ کس کا ہے-
رازرق :کونٹ جولین کا-
نائلہ :کیا لکھا ہے اس میں؟
رازرق :اگر یہ بات بتانے کی ہوتی تو منع کیوں کرتا پڑھنے سے .
نائلہ :سنو جب سے فلورنڈا یہاں سے گئی ہے اسی وقت سے میں مضطرب اور بےقرار رہنے لگی ہوں-
رازرق :شاید اس لیے کہ وہ تمہیں یاد آتی ہے.
نائلہ :وہ حسین نیک دل لڑکی ہے یاد کرنے کے قابل لیکن میری بےچینی تو کسی اور ہی سبب ہے.
کس سبب ؟رازرق نے پوچھا۔۔
نائلہ :مجھے خوف ہے کہ شاید تم نے اسے پریشان کرنا چاہا تھا وہ عصمت مآب تهی - "اس لیے چلی گئی ہے.
رازرق اس بات کا کیا جواب دیتا اس کا سیہ اعمال نامہ تو اس وقت نائلہ کے ہاتھ میں تھا اگر وہ جھوٹ بولتا تو وہ پڑھ کر سب معلوم کر لیتی اور اگر سچ بولتا تو کیسے اپنی زبان سے اپنی بد اعمالی کا اقرار کرتا.
نائلہ نے کہا - " تم چپ ہو گئے کیا میرا اندیشہ صحیح تھا؟ "
رازرق :اس ذکر کو جانے دو بیگم-
زرا سنو اگر تم یہ مراسلہ مجھے واپس کر دو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ عجیب گنبد نہیں کهولوں گا - "
نائلہ بے ساختہ ہنس پڑی اور اس نے کہا - "اگر آپ اسے کهولیں تو میرا اس میں کیا نقصان ہے اور اگر نہ بھی کهولیں تو مجھے اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ "
رازرق :لیکن اس کے پڑھنے سے بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہے - "
نائلہ :جس قدر تم اس کے نہ پڑھنے پر اصرار کرتے ہو اس قدر میرے اندر اشتیاق پیدا ہو رہا ہے اگر تم اس وقت جب کہ میں نے اسے دیکھا تھا اور دریافت کیا تھا کہ یہ کس کا مراسلہ ہے صاف صاف بتا دیتے تو میں اس کے پڑهتے کا خیال تک نہ کرتی-
رازرق :مجھ سے غلطی ہو گئی ہے میں اس کی معافی چاہتا ہوں-
نائلہ :اب غلطی کا خمیازہ بگهتو -
یہ کہہ کر اس نے اسے پڑهنا شروع کیا. رازرق بے حد بے چین پریشان اور مضطرب ہو گیا - "
رازرق نے پهر کہا اسے مت پڑہو بیگم-"
نائلہ نے غصہ میں آ کر کہا دیکھو تم خاموش رہو میں اسے ضرور پڑھوں گی - "
اب رازرق کو مزید کچھ کہنے کی جرات نہ ہو سکی.
وہ نائلہ کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا اور نائلہ اسے پڑھنے لگی وہ پڑھتی جاتی اور اس کا چہرہ غیظ و غضب سے سرخ ہوتا جا رہا تھا نیز آنکھوں سے چنگاریاں سی برس رہی تھی.
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
جوں جوں وہ غضب ناک ہوتی جا رہی تھی توں توں رازرق کے چہرے کا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا - "
بالآخر نائلہ نے اسے ختم کر لیا اب اس کی ہوش ربا نگاہوں سے شعلے نکلنے لگے تھے.
اس نے غصہ کو ضبط کرتے ہوئے کنیزوں کی طرف اشارہ کیا وہاں سے چلے جانے کے لیے.
تمام پرستاریں نہایت سکوت کے ساتھ سر تسلیم خم کر کے وہاں سے چلی گئیں.
جب فقط نائلہ اور رازرق رہ گئے تب نائلہ نے قدرے درشت لہجے میں کہا کیا یہ تمہارا سیہ اعمال نامہ نہیں ہے؟ "
رازرق کا خوف دور ہو چکا تھا وہ بڑا چالباز تھا عمر کی پختگی نے اسے بہت حد تک عیار و مکار بنا دیا تھا وہ خوب جانتا تھا کہ اس وقت نائلہ کا مقابلہ کیسے کرنا ہے جو کم سن اور بھولی سی ہے.
رازرق :میں اسی لیے کہتا تھا کہ اسے نہ پڑھو جولین بڑا ہوشیار آدمی ہے-
اس نے ایسی چال چلی ہے کہ جس سے عوام کی نظروں میں میری وقعت کم ہو جائے-"
نائلہ :مگر کیا اس سے اس کے خاندان کی بدنامی نہیں ہے؟
رازرق :ضرور ہو گی مگر اسی کا مقصد اسی طرح پورا ہو گا - "
نائلہ :اس کا کیا مقصد ہے؟ "
رازرق :کیا تم بھول گئی ہو کہ اس کے عقد میں معزول بادشاہ کی بیٹی ہے اور وہ خواہش مند ہے کہ مجھے معزول کرا کے اپنے خسر کو تخت نشین کرا دے.
بیگم صاحبہ یہ ایسی گہری چال ہے کہ جس کے سمجھنے کے لیے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے-
نائلہ :مگر میرے خیال میں کوئی شخص کسی قیمت پر بھی اپنی بیٹی کے متعلق اس وقت تک ایسے الفاظ نہیں لکھ سکتا جب تک کوئی واقعہ نہ ہوا ہو-"
رازرق :کونٹ جولین خار کھائے ہوئے اور وہ جو کچھ بھی کرے تھوڑا ہے-
نائلہ سوچنے لگی-
رازرق :سمجھ گیا کہ اس کافسوں کار گر ثابت ہونے لگا ہے لہذا اس نے پھر عاجزی کے لہجہ میں کہا - "پیاری مجھ پر اعتماد کرو! !میں سچ کہہ رہا ہوں - "
اسی لیے تو میں اس کے نہ پڑھنے پر مجبور کر رہا تھا کہ کہیں اسے صحیح نہ سمجھ لو! !کیوں کہ عورتوں میں رشک و حسد کا مادہ زیادہ ہے-
نائلہ :مگر میں تو فلورنڈا سے دریافت کئے بنا اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کر سکتی-
رازرق :بالکل ٹھیک کہا تم نے تم اس سے پوچھو اور اپنا اطمینان کر لو-"
سوچو تو صحیح ایسا ہوتا تو میں فلورنڈا کو جانے دیتا؟ "
نائلہ :میں کچھ نہیں جانتی میں تصدیق ضرور کروں گی! !
رازرق :میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ضرور تصدیق کرو لیکن خفیہ خفیہ کیونکہ اعلانیہ تصدیق کرنے میں میری رسوائی کا خدشہ ہے-"
نائلہ :میں سب سمجھتی ہوں - "
رازرق :تم نے اس بات پر غور کیا کہ وہ مسلمانوں کو میرے ملک پر چڑھا لایا ہے اس نے ضرور ان سے اپنے یا ڈنرا کے لیے کوئی معاہدہ کر لیا ہو گا - "
نائلہ :یہ ممکن ہے!
رازرق :مگر میں ان کو شکست دے کر خود جولین پر حملہ کر دوں گا-
نائلہ :اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتی-
رازرق :مگر ایک وعدہ کر لو! !
نائلہ :کیا؟
رازرق: جب تک لڑائی اختتام کو نہیں پہنچتی اس وقت تک تم خاموش رہو گی-
نائلہ: ایک شرط پر-
رازرق: وہ کیا؟
نائلہ:اقرار کرو کہ تم بھی کسی لڑکی کو نہیں ستاو گے - "
رازرق:اقرار کرتا ہوں!
نائلہ: میں بھی اقرار کرتی ہوں.
رازرق:شکر ہے معاملہ بآسانی طے ہو گیا - "
نائلہ:ابهی شکر کا موقع نہیں ہے -
رازرق: کیوں؟
نائلہ:اس لیے کہ میں تحقیقات کروں گی اور اگر یہ سچ ثابت ہوا تو____؟"
رازرق اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا _
اسے غصہ آ رہا تھا -وہ فقرہ پورا نہ کر سکی
رازرق:میں اس کے لیے تیار ہوں.
نائلہ: بس اس بات پر عارضی صلح سمجھو!
یہ کہتے ہی وہ لوٹی اور چل پڑی _
رازرق کو اسے روک کر کچھ اور کہنے کی جرات نہ ہو سکی.
وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا-
جب وہ کمرے سے باہر نکل گئی تو اس نے ٹھنڈاسانس بھرا اور کوچ پر جا پڑا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔