فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 07═(تعاقب)═


 فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  07═(تعاقب)═

 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب مسلمان نماز سے فارغ ہوئے تو طارق نے کچھ لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے گھوڑوں کو پکڑنے کی کوشش کریں جن کے سوار مارے جا چکے تھے اور جو کہ میدان میں کودنے پھر رہے تھے-
چونکہ تمام عیسائی گھوڑوں پر سوار تھے اس لیے جو لوگ مر گئے تھے ان کے گھوڑے میدان میں بھاگتے پھر رہے تھے تقریباً اڑھائی سو آدمی میدان میں بکھر گئے اور گھوڑوں کو پکڑنے لگے-
طارق نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ جو شخص جس گھوڑے کو پکڑ لے گا وہ گھوڑا اسی کا ہو گا البتہ جو زیادہ گھوڑے پکڑ لیں وہ ان کو دوسرے مجاہدین کو دینا ہوں گے-
کچھ مسلمان شہداء کو جمع کرنے لگے اور کچھ عیسائیوں کی زرہ بکتریں اور ہتھیار اکٹھے کرنے کے لیے میدان میں پھیل گئے.
طارق یا کسی مسلمان کو پتہ بھی نہیں تھا کہ اسمٰعیل عیسائیوں کے خیموں میں چلے گئے ہیں اور ان سے لڑ رہے ہیں-
جب کہ طارق احکام جاری کر رہے تھے اس وقت امامن ان کے پاس آیا طارق نے کہا چلو امامن اب تمہاری لڑکی کو چھڑا لائیں-"
امامن نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا حضور جلدی کیجیے طارق نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا جلدی چلیں تدمیر اپنے خیمے میں پہنچ گیا ہے؟ "
امامن : جی ہاں.
طارق؛: تم نے اسے جاتے دیکھا ہے-
امامن : حضور میں ان کے خیمے سے ہی آ رہا ہوں-
طارق:تمہاری لڑکی محفوظ ہے؟
امامن : جب تک میں وہاں سے چلا تھا وہ محفوظ تهی!
طارق: اندیشہ نہ کرو اسے بلقیس کو لے جانے کی جرات نہیں ہو سکتی-
امامن : حضور لیکن.....
طارق: کیا بات ہے؟
امامن : وہاں جنگ ہو رہی ہے طارق نے حیران ہو کر کہا-"
جنگ ہو رہی ہے؟ کس کے ساتھ؟ "
امامن : آپ کے ایک ساتھی سے -
طارق چونک پڑے انہوں نے کہا کیا کوئی مسلمان وہاں پہنچ گیا ہے؟ "
امامن جی ہاں.
طارق: کیسے پہنچا؟ "
امامن : حضور میں لے گیا تھا-
طارق: کیوں؟ "
امامن : جناب اپنی لڑکی کو چھڑانے کے لیے-
طارق: مگر تم اسے چھڑا نہیں سکے؟ "
امامن : چھڑا تو لیا تھا پر جب ہم خیمے سے نکلے تو تدمیر پچاس ساٹھ آدمیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور اس مسلمان لڑکے سے لڑنے لگ گیا جسے میں ساتھ لے گیا تھا-
اب طارق گھبرا گئے اور انہوں نے کہا آہ " اللہ ایک مسلمان پچاس ساٹھ عیسائیوں سے لڑ رہا ہے اس کی حفاظت کرنا اللہ-"
وہ فوراً ان مسلمانوں سے مخاطب ہوئے جو اس کے اردگرد باتیں سن رہے تھے انہوں نے کہا دلیرو جلدی کرو اپنے بھائی کی مدد کرو جا کر-"
یہ کہتے ہی وہ عیسائی خیموں کی طرف بھاگے امامن بھی ڈورا اور مسلمان بھی لپکے-"
مسلمان تو ڈور کر آگے طارق کے ساتھ مل گئے امامن چونکہ بوڑها تھا وہ قدرے تیز نہیں چل سکتا تھا اس لیے وہ تھوڑا پیچھے رہ گیا-"
طارق اور اس کے ساتھ پانچ سو چھ سو مسلمان ڈور کر عیسائیوں کے خیموں میں داخل ہو گئے-"
طارق نے کہا مسلمانوں چاروں طرف سے خیموں کو گهیر لو ایک کو بھی بچ کر نہ جانے دینا-"
مسلمانوں خیموں کے چاروں طرف پھیل گئے طارق پندرہ بیس لوگوں کو ساتھ لے جا کر ہر خیمے میں دیکھ رہا تھا سامان تو ہر خیمے میں تها لیکن آدمی کوئی بھی نہیں تھا تمام خیمے خالی تهے اب امامن بھی آ گیا اور طارق کو لے کر تدمیر کے خیمے میں گیا مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا.
امامن نے کہا آہ-"
افسوس وہ ان دونوں کو گرفتار کر کے لے گئے ہیں -تدمیر کے خیمے کے سامنے عیسائیوں کی لاشیں تو پڑی ہوئی تھیں لیکن مسلمانوں کی کوئی لاش نہ ملی-"
طارق غم زدہ ہو گئے انہوں نے کہا آہ-"
نیک دل نوجوان نے اکیس عیسائیوں کو جہنم واصل کر دیا یقیناً وہ تھک گیا ہو گا اور انہوں نے اسے گرفتار کر لیا ہو گا-"
انہوں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اللہ غفورالرحیم، مجھ کو معاف کرنا میں ایک مسلمان کی طرف سے غافل ہو گیا اور وہ دشمن کے پنجہ میں پھنس گیا-
اللہ میری اس غلطی سے در گزر فرما.
پروردگار قیامت کے دن مجھ سے اس کے بارے میں باز پرس کر کے شرمندہ نہ کرنا میں انسان ہوں بشریت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے-"
ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا-
کچھ وقفے کے بعد انہوں نے دو مسلمانوں سے کہا تم فوراً میدان جنگ میں جاو جن لوگوں نے گھوڑے پکڑ لئے ہیں ان میں سے پچیس تیس کو بلاو-"
دونوں مجاہد اس کا حکم سنتے ہی ڈور پڑے-
اب وہ تمام مسلمان طارق کے پاس آ آ کر ہی جمع ہو گئے جو خیموں کا محاصرہ کرنے لگے تھے -
ہر ایک نے یہی کہا کہ خیموں میں ایک بھی آدمی نہیں ہے-
طارق نے کچھ مجاہدین سے کہا کہ مردہ عیسائیوں کی لاشیں اٹها کر میدان جنگ میں رکھ دو-"
دو دو آدمیوں نے ایک ایک لاش اٹھائی اور میدان جنگ میں رکھ آئے اور ان کی زرہ بکتریں اتار لیں-"
اب پچیس تیس وہ لوگ بھی آ گئے جنہوں نے گھوڑے پکڑ لئے تهے-"
طارق نے کہا دیکھو تدمیر ایک مسلمان کو گرفتار کر کے لے گیا ہے امامن کے ساتھ اس کے تعاقب میں جاو مگر زیادہ دور نہ نکل جانا رات ہونے سے پہلے واپس لوٹ آنا خواہ وہ ملیں یا نہ ملیں-"
ایک گھوڑے پر رہبری کے لیے امامن سوار ہو گیا اور مسلمان اس کی رہبری میں روانہ ہوئے-
وہ خیموں سے نکل کر مفرورں کے تعاقب میں نکل گئے اب طارق اور تمام مسلمان پهر میدان جنگ میں پہنچ گئے-"
طارق نے دیکھا کہ تقریباً سات سو گھوڑے پکڑ لئے گئے ہیں مسلمان شہداء کو بھی ایک جگہ جمع کر دیا گیا-"
کل انیس مسلمان شہید ہوئے اور عیسائی گیارہ سو مارے گئے-"
شہیدوں کو نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا گیا-
اب تمام مسلمان اپنا سامان اٹها کر عیسائیوں کے خیموں میں چلے گئے اور وہاں جا کر زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے لگے-"
رات ہونے پر انہوں نے کها نا تیار کرنا شروع کیا اور اور عشاء کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا-"
جب وہ کھانا کھا چکے تو اس وقت تدمیر کا پیچھا کرنے والوں نے بتایا کہ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا-
طارق اور تمام مجاہدین اسلام کو بہت غم فکر ہوا اور افسوس ہوا-"
اب چونکہ رات ہو چکی تھی اس لیے اب کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا-"
اس لیے سب طوعاً کرہا چپ ہو گئے اور بے صبری سے صبح کا انتظار تھا
عیسائیوں نے شیران اسلام کا مقدور بھر مقابلہ کیا لیکن ان کی تمام کوششیں اور محنت رائیگاں گئی نیز ان کی کافی تعداد نظر اجل ہو گئ اور جو بچ گئے ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی اور مسلمانوں کا ایسا رعب و خوف بیٹھ گیا کہ جس جس طرف منہ اٹها اور جسے جس طرف جگہ ملی بھاگ کھڑا ہوا-"
مسلمان پیدل تهے اور وہ سوار مسلمانوں کے پاس ہتھیار بھی پورے نہ تهے اور ان میں سے ہر ایک کے پاس جملہ ہتھیار موجود تھے مگر اس بے سرو سامانی کے باوجود مسلمان نہایت بے جگری سے سرفروشانہ لڑے اور عیسائی بہت بری طرح شکست کها کر پسپا ہوئے اور مسلمانوں نے پیدل ہونے کے باوجود سواروں کا بہت دور تک تعاقب کیا-
اس وجہ سے ان کی اور بھی دھاک بیٹھ گئی اور کسی کو واپس مڑ کر دیکھنے کی بهی جرات نہیں ہوئی عیسائی بھاگے اور نہایت بری طرح سے بھاگے-"
خود تدمیر بھی اسمٰعیل اور بلقیس کو گرفتار کر کے بے تحاشا بھاگ کھڑا ہوا
اسے یہ شبہ ہو گیا تھا کہ مسلمان انسان نہیں ہیں اس کے خیال میں انسان اس بے جگری سے نہیں لڑ سکتے تھے-
پیدل اور سوار کا مقابلہ کیا مگر غازیان اسلام نے پیدل ہوتے ہوئے بھی سواروں کا مقابلہ کیا اور پھر گیارہ سو سوار مار بھی ڈالے تھے اسے نہ صرف خوف بلکہ یقین بھی تھا کہ مسلمان اس کا تعاقب کریں گے -
اس وجہ سے وہ گھوڑے پوری رفتار سے اڑائے چلا جا رہا تھا بقیہ دن اور آدھی رات تک چلتا رہا-
جب گھوڑوں نے بلکل ہی جواب دے دیا اور اس کے سپاہی بھی تهک گئے تب انہوں نے ایک جگہ قیام کیا کها نے کے لئے تو وہاں سے کیا ملتا سب کے سب سنگلاخ زمین پر بھوکے ہی جا پڑے گئے-"
اسمٰعیل عرب تها مسلمان عرب اسے تو عادت تھی زمین پر سونے کی مگر عیسائیوں کو جو نرم گرم بستر پر سونے کی عادت تھی انہیں بڑی تکلیف ہوئی-
سب سے زیادہ تکلیف پری جمال بلقیس کو ہو رہی تھی وہ نازک بدن تهی -
اسے زمین پر سونا تو کیا کبھی بیٹھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا - اسے تکلیف تھی وہ اس تکلیف سے مسلسل پہلو بدل رہی تھی اتفاق سے وہ اسمٰعیل کے قریب ہی تهی اور اسمٰعیل اس کی بے چینی دیکھ رہے تھے انہیں سخت تکلیف ہو رہی تھی چاہتے تھے کہ اسے آرام پہنچانے کی کوشش کریں مگر وہ خود بندھے ہوئے تھے اس لیے مجبور تھے -
چاندنی رات تھی اور چاند اپنی تمام و کمال دل فریبیوں کے ساتھ نکلا ہوا تھا ہر طرف چاندنی چمک رہی تھی جس سے ہر چیز نہایت بهلی معلوم ہو رہی تھی -.
بلقیس کے پیارے چہرے پر بھی چاند اپنی نورانی کرنیں بکھیر رہا تھا - "
وہ بار بار کروٹیں لے رہی تھی اور جب کروٹ بدلتی تهی تو تکلیف کو ضبط کرنے کے لیے اپنے جاں بخش ہونٹوں کو آبدار موتیوں جیسے دانتوں میں دبا لیتی تھی -
اسمٰعیل نے آہستہ سے کہا - "
کیا تمہیں تکلیف ہو رہی ہے؟"
بلقیس نے کہا نہیں کچھ ایسی تکلیف تو نہیں مگر! !!!!"
مگر کیا اسمٰعیل نے کہا؟ "
بلقیس آپ کو میری تکلیف کا احساس ہو رہا ہے!
اسمٰعیل ہاں!
بلقیس مسکرائی____اور اس نے کہا کیوں احساس ہو رہا ہے؟ "
اسمٰعیل نے سادگی کے انداز سے کہا - "
میں خود حیران ہوں-"
بلقیس آپ کا نام کیا ہے؟
اسمٰعیل میرا نام اسمٰعیل ہے!
بلقیس: آپ شاید افسر ہیں؟
اسمٰعیل : جی ہاں پانچ سو سپاہی میرے ماتحت ہیں -
بلقیس : آپ مجھے چھڑانے کے لیے کیوں آئے تھے؟
اسمٰعیل : کیا جواب دوں اس کا.
بلقیس؛: شاید اتفاقیہ پہنچ گئے؟
اسمٰعیل اب یہ نہیں کہا جا سکتا!بلقیس: آپ شاید مسلمان ہیں؟
اسمٰعیل : جی ہاں!
بلقیس: اور میں ایک یہودی لڑکی ہوں!
اسمٰعیل : یہ میں نے تمہارے والد کو دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا
: تمہارا نام کیا ہے؟
بلقیس : میرا نام بلقیس ہے،
اسمٰعیل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا بلقیس؟ مگر یہودی تو اپنی لڑکیوں کے ایسے نام نہیں رکھتے-"
بلقیس نے مسکرا کر کہا مگر میرا نام تو بلقیس ہی ہے-"
اسمٰعیل: شاید حسن کی مناسبت سے تمہارا نام ایسا رکھا گیا ہے!
بلقیس: اب جو کچھ بھی آپ سمجھیں!
اسمٰعیل : یہ عیسائی بڑے ہی بے رحم ہیں -
بلقیس : کیوں؟
اسمٰعیل : انہیں تمہارے آرام کا بندوبست کرنا چاہیے-
بلقیس : ان میں انسانیت ہی نہیں-
اسمٰعیل : ٹھیک کہتی ہو تم انہوں نے مجھے فریب دے کر گرفتار کیا ورنہ میں ان سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑتا-
بلقیس : میرے دل پر سب سے زیادہ آپ کی بہادری ہی کا ہوا ہے -
ایک سپاہی نے کہا-"
باتیں بند کر دو اور خاموش ہو جاو کم بخت نہ سوتے خود اور نہ دوسروں کو سونے دیتے ہیں-"
ان کے چاروں طرف سپاہی پڑے ہوئے تھے-
اسمٰعیل کو طیش تو بہت آیا مگر ۔۔۔۔بلقیس نے آہستہ سے کہا-
اللہ کے لیے چپ رہیں یہ بڑے بے رحم اور بد تہذیب لوگ ہیں-"
اسمٰعیل چپ ہو گئے-
بلقیس بھی خاموش ہو گئی اور دونوں پڑے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہی سو گئے-
صبح جب بیدار ہوئے تو سورج نکل آیا تھا -
سب اٹھے اور سفر کی تیاری کرنے لگے-
اسمٰعیل نے وضو کر کے نماز پڑھی-
تدمیر اور عیسائی حیرت سے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے رہے-
تدمیر نے اپنے ساتھیوں سے کہا-" ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی عرب ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، یہ تو بہت برا ہوا ان کم بخت مسلمانوں نے جس نے جس ملک پر بھی حملہ کیا ہے اسے فتح ہی کر کے چھوڑا-"
ایک عیسائی : مگر سنا ہے کہ مسلمان تو کسی ملک پر بلاوجہ حملہ نہیں کرتے!
تدمیر : تم نے بلکل ٹھیک کہا ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے جو لوگ حملہ آور ہوئے ہیں میں شہنشاہ کو اطلاع کر دوں-
دوسرا:ضرور کر دینی چاہیے اگر انہیں نہ روکا گیا اور یہ اندرون ملک میں گھس گئے تو پھر ان کا نکالنا نہایت دشوار ہو جائے گا-
تدمیر : یہی بات ہے مگر لکھوں کس سے؟ نہ قلم نہ کاغذ اور نہ ہی دوات ہی ہے-
پہلا: یہاں ایسی بہت سی جڑی بوٹیاں ہیں جن کا عرق روشنائی کا کام لیا جاسکتا  ہے کسی درخت کی شاخ کاٹ کر اس کا قلم بنا لیجیے اور کسی چمڑے کے ٹکڑے پر لکھ کر لیجیے-
تدمیر : اچھا تو سب چیزیں مہیا کرو!
فوراً کئی آدمی دوڑ گئے اور سب سامان لے آئے-
تدمیر نے اندلس کے شہنشاہ رازرق کو خط لکھا-
جب خط لکھ چکا تو اس نے کہا-"
میرا ارادہ تھا کہ اس آدمی اسمٰعیل کو شہنشاہ رازرق کے حضور میں بهیج دوں لیکن ایک آدمی کو کیا بھیجوں، اگر بادشاہ نے کچھ لشکر بهیج دیا تو سب کو ہی گرفتار کر کے لے چلوں گا-"
پہلا: مناسب تو یہی ہے حضور-
تدمیر تم نے ایک خط سوار کو دیتے ہوئے کہا!
تم اڑے چلے جاؤ اور جلد سے جلد یہ عریضہ حضور شہنشاہ رازرق تک پہنچا دو-"
سوار نے بہت اچھا کہہ کر خط لیا-
گھوڑے پر سوار ہو کر طلیطلہ کی جانب روانہ ہو گیا اس کے جانے کے بعد یہ لوگ بھی سوار ہوئے اور شیڈونہ کی طرف چل پڑے
تدمیر کا قاصد نہایت تیزی سے چلا جا رہا تھا -
اسے دارالسلطنت طلیطلہ میں پہنچنا تھا -
چونکہ وہ راستوں سے بخوبی واقف تھا، اس لیے اس نے ایسا راستہ اختیار کیا تھا جو نہایت مختصر تها
وہ قرمونہ سے ہوتے ہوئے وادی الکبیر کو عبور کر کے قرطبہ کو دائیں ہاتھ چھوڑ کر سیدھا طلیطلہ کی جانب روانہ ہو لیا، چونکہ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جلد از جلد بادشاہ کے حضور میں پہنچ جائے، اس لیے نہایت تیزی سے رات اور دن چلا جا رہا تھا -
فقط تهوڑی دیر قیام کرتا تھا-
کوچ و قیام کرتے ہوئے وہ کوہ طلیطلہ پر جا پہنچا اور اس کے دروں اور گھاٹیوں کو طے کرتے ہوئے دریائے ٹیگس کے کنارے پر جا کھڑا ہوا-
یہاں سے طلیطلہ کی سر بفلک عمارتیں اور فلک بوس فصیل سب نظر آ رہی تھی-"
طلیطلہ نہایت وسیع قلعہ تھا -
یہ چٹانوں پر آباد تھا اور اگر سچ پوچھیں تو موٹی موٹی چٹانوں کو تراش کر ہی فصیل بنا لی گئی تھی-
اس قلعہ کے چاروں طرف دریائے ٹیگس بہتا تھا -
پل جو کہ اس دریا پر بنایا گیا تھا، نہایت اونچا اور بڑا شاندار تها-
اہل اندلس نے اس کی صناعی میں اپنی حرفت ختم کر دی تھی اس قاصد نے پل کو عبور کیا اور قلعے کے سامنے والا میدان طے کر کے قلعہ کے دروازے پر پہنچا-
اس قلعہ کے چاروں طرف چار دروازے تھے اور چاروں دروازوں کے سامنے اچھے خاصے میدان پڑے تھے -
دروازے نہایت بلند اور شاندار تهے -
ہر دروازے پر سپاہی رہتے تھے قاصد دروازے سے گزر کر قلعہ میں داخل ہوا-"
قلعہ اندر سے بھی نہایت شاندار تها-
نہایت اونچی اونچی اور خوبصورت عمارتیں بنی ہوئی تھیں-
اس نے دیکھا کہ تمام قلعہ خوب آراستہ کیا گیا ہے، مکانات اور بازار سب سجائے گئے ہیں، اس نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ یہ سجاوٹ کیوں ہو رہی ہے -
اسے بتایا گیا کہ آج جشن نو روز منایا جا رہا ہے - "
وہ جس طرف سے بھی گزرا اس کے کانوں میں شادیانوں کی آوازیں آتی رہیں-
کہیں کہیں رقص و سرور کی محفلیں بھی گرم ہو رہی تھیں _
لوگ اچھی پوشاکیں پہنے خوش ہوتے اور ہنستے پھر رہے تھے - "
قاصد سیدھا دربار عام میں پہنچا-
آج دربار کی عمارت دلہن کی طرح بنا دی گئی تھی-
خوب اچھی طرح سے سجاوٹ کی گئی تھی-
دربار لگا ہوا تھا اور اراکین سلطنت اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے - "
شاہ رازرق ایک اونچے چبوترے پر چاندی کے تخت پر بیٹھا تھا-
کئی حسین اور نوخیز لڑکیاں اس کے پیچھے کھڑی مگسرانی کر رہی تھیں اور بہت سی پری زاد رقاصائیں چبوترہ کے نیچے قالین کے فرش پر ناچ رہی تھیں 
ایک تو وہ سب سے حسین تهیں دوسرے نہایت اچھی ریشمی پوشاکیں اور سونے چاندی کے زیورات پہنے اور بھی حسین معلوم ہو رہی تھیں 
سب مست شباب تهیں -
ناچنا گانا خوب جانتی تھیں-
لہذا نہایت دل فریب طریقے سے ناچ رہی تھیں 
سارے درباری اراکین سلطنت اور بادشاہ تمام نہایت غور سے ناچ دیکھ کر داد دے رہے تھے -
قاصد ایک طرف کھڑا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ ناچ ختم ہو اور موقع ملے تو تدمیر کا عریضہ بادشاہ حضور کو پیش خدمت کرے-"
ناچ کے فوراً بعد ہی گانا شروع ہو گیا باجے نہایت دلکش انداز میں بجنے لگیں گانے والیوں کی سریلی آوازوں نے تمام درباریوں کو بے خود کر دیا 
حتی کہ بادشاہ بھی محو و بے خود ہو گیا -
کچھ عرصے کے بعد، گانا ختم ہوا اور پری جمال گانے والیاں دو قطاروں میں کھڑی ہو گئیں-
ان کی جھلمل جھلمل کرن پوشاکوں پر نظر نہ جمتی تهی - "
ہر شخص ان کے لباس اور چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا 
قاصد کو موقع ملا وہ ناچنے گانے والیوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا چبوترہ کے قریب جا پہنچا-
رازرق نے غضبناک نگاہوں سے قاصد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بد بخت انسان کون ہے تو؟ "
اس کی ڈاڑھی کے بال بلکل سفید ہو گئے تھے ستر پچھتر سال کی عمر ہو گی لیکن بد قسمتی سے اپنے آپ کو جوان سمجھتا تھا اور جوانوں جیسی حرکتیں کرتا تھا نہایت ہوس پرست اور عیش کوش تھا -
ہر وقت حسین و جمیل لڑکیوں اور عورتوں سے اختلاط کرتا رہتا تھا-"
قاصد اسے پر غضب دیکھ کر ڈر گیا-
اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں بادشاہ اس سے ناراض ہو کر اس کے قتل کا حکم نہ دے دے-"
قاصد فوراً سجدے میں گر گیا اور کهڑا ہو کر نہایت ادب سے بولا-
حضور میں قاصد ہوں-"
رازرق نے غصہ اور حیرت بهری مخلوط آواز میں کہا - "
قاصد؟ "
قاصد جی ہاں رازرق نے پوچھا کس کے؟
قاصد تدمیر کا
اب رازرق کا غصہ دور ہو گیا اور چہرہ سے کچھ مسرت و انبساط کی علامات ظاہر ہوئیں-
اس نے کہا کیا اس نے بلقیس کو گرفتار کر لیا؟ "
قاصد جی ہاں!
رازرق تم نے بلقیس کو دیکھا ہے؟
قاصد دیکھا ہے حضور! !!!
رازرق کیا وہ بہت زیادہ خوبصورت ہے؟
قاصد جی ہاں وہ ماہ شب چہارم دہم سے بھی زیادہ حسین ہے، رازرق ٹھیک ہے وہ کہاں ہے؟
قاصد تدمیر کے پاس ہے، رازرق کو پهر غصہ آ گیا اس نے کہا! اس نے یہ حماقت کیوں کی؟ "
قاصد نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مطلب ہے اور اسے کیا جواب دینا چاہیے، وہ چپ رہ گیا رازرق کو آور بھی غصہ آ گیا-
اس نے خشونت کے انداز میں کہا - "
احمق قاصد اس نے اسے اپنے پاس کیوں ٹھہرایا ہے؟ "قاصد حضور اس حور کو بھیجنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا رازرق کیوں؟
قاصد کچھ عجیب سے لوگ اچانک آ گئے، رازرق کہاں آ گئے؟
قاصد جہاں سپہ سالار کا لشکر تها-
رازرق انہوں نے آ کر کیا کہا!
قاصد حضور انہوں نے آتے ہی جنگ شروع کر دی رازرق نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا-"
جنگ! ؟"
قاصد جی ہاں!
اب اس نے جنگ کے تمام واقعات سنا دیے-
ہر شخص نے نہایت حیرت و استعجاب سے ان واقعات کو سنا رازرق نے دریافت کیا!
آخر کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ "
قاصد حضور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں - ان کے لباس دامن نہایت چوڑے چوڑے ہیں داڑھیاں لمبی لمبی ہیں چہروں سے نور برس رہا ہے یوں تو فرشتے معلوم ہوتے ہیں-"
رازرق عجیب بات ہے-
قاصد نے بڑھ کر عریضہ پیش کیا رازرق نے لے کر وزیر اعظم کو دیا-
اس نے پڑھنا شروع کیا-"
شہنشاہ جہانبائی فرمانروائے اسپین! !!!
ہمارے ملک پر ایک عجیب قوم نے حملہ کر دیا ہے ان کی پوشاک شاید سارے زمانے سے
نرالی ہے کم از کم میں نے تو ایسا لباس کہیں نہیں دیکھا-
لمبے لمبے ٹخنوں تک جبے ہیں -
چوڑے چوڑے دامن ہیں چوڑی آستینیں ہیں -
سروں پر بہت سے کپڑے باندھ لیتے ہیں اور ان کپڑوں پر ایک بڑا سا رومال ڈال لیتے ہیں جو دونوں کانوں کے برابر سے آ کر سینے تک لٹکنے لگتا ہے-
داڑھیاں لمبی لمبی اور صورتیں نورانی ہیں مگر جب لڑتے ہیں تو خونخوار شیر بن جاتے ہیں کم بخت ایسا جی توڑ کر لڑتے ہیں کہ کوئی قوم بھی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی-
میں حیران ہوں کہ یہ کہاں سے آ گئے ہیں-
آیا آسمان سے اترے ہیں یا زمین سے نکل آئے ہیں -
ہمارا ان سے مقابلہ ہوا ہم نے پورے جوش و شجاعت سے کام لیا-
بڑی جانبازی سے لڑے مگر تمام کوششوں اور سب جانثاروں کا انجام ناکامی ہی ثابت ہوا-
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم بخت مرنا نہیں جانتے بلکہ صرف مارنا جانتے ہیں-
وہ پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے آتے ہیں-
ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اگر ان کے قدم جم گئے تو سارے اندلس کو تباہ و برباد کر ڈالیں گے -
اس بلائے عظیم کو دور کرنے کے لیے عظیم الشان لشکر لے کر حضور خود تشریف لائیں ورنہ ان کی جانب سے خطرہ ہے-
میں نے ان کا ایک آدمی گرفتار کر لیا ہے اور بلقیس بھی میرے پاس ہے-"
(وفادار جاں نثار تدمیر)
رازرق اور تمام درباری اس خط کو سن کر نہایت متحیر ہوئے-
ابهی ان کی حیرت دور نہ ہوئی تھی کہ کچھ کھٹکا ہوا-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
بادشاہ اور درباریوں نے نظریں اٹها اٹھا کر دیکھا-
دو بوڑھے آدمی پادریوں جیسا لباس پہنے چاندی کے عصا ہاتهوں میں لیے بڑھے چلے آ رہے تھے -
انہیں دیکھتے ہی بادشاہ اور درباریوں کو حیرت ہوئی اور سب ان کو ٹکٹکی لگائے ہوئے دیکھنے لگے
دونوں بوڑھوں کی داڑھیاں برف کی طرح سفید تهیں بگلے کی طرح سفید جبے پہنے ہوئے تھے -
لمبے لمبے خوش نما پٹکوں پر منطقتہ البروج کی تصاویر منقش تهیں اور کمر کے پاس بے شمار گچھے لٹک رہے تھے - "
ان گچھوں میں چابیاں پڑیں ہوئی تھیں_
دونوں لمبے قد کے تهے اور سفید چاندی کے عصا لئے ان کے سہارے سے چلے آ رہے تھے -
ہر شخص ان کو حیرت استعجاب نظر سے دیکھنے لگے-
حتی کہ خود بادشاہ حیران و متعجب تهے -
دونوں ضعیف بڑھ کر چبوترے کے پاس پہنچے اور بادشاہ کی تعظیم کے لیے سیدھے زمین پر لیٹ گئے-
پھر انہوں نے کھڑے ہو کر بادشاہ کی تعریف کی-
بادشاہ نے دریافت کیا تم کون ہو؟ "
ایک بوڑھے نے کہا - "
ہم اس گنبد کے محافظ ہیں جو عجائب خانہ کے نام سے مشہور ہے-"
یہ بات سب کو معلوم تهی کہ طلیطلہ کے پہاڑ کی چٹان پر ایک گنبد ہے جسے ہرقل اعظم نے بنوایا تھا جو کہ برس ہا برس سے بند پڑا ہے-
شہنشاہ ہرقل نے سمندر کے کنارے پر مینار بنوائے تھے جو اسی کے نام سے مینار ہرقل مشہور ہیں اور آج تک موجود ہیں-
نہایت اونچے اور عجیب و غریب مینار ہیں جس وقت اس شہر طلیطلہ کے قریب ایک گنبد بنوایا تھا جو چٹان کے اوپر ہونے کی وجہ سے نہایت بلند تها اور عجائب خانہ کے نام سے مشہور تھا -
جب سے یہ گنبد تعمیر کیا گیا تھا -
اسی وقت سے بند پڑا تھا -
کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے اندر کیا ہے-
رازرق نے حیرت و استعجاب انگیز نظروں سے بوڑھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :"تمہارے آنے کی غرض کیا ہے؟ "
ایک بوڑها : عالی جاہ اسپین کے فرمانرواوں کا دستور رہا ہے کہ جو کوئی تخت پر بیٹھتا رہا وہی اپنے نام کا تالا بنوا کر نو روز کے دن گنبد کے پھاٹک میں ڈالتا رہا
رازرق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا" اور تم میرے پاس صرف اسی لیے آئے ہو کہ میں بھی اس میں اپنے نام کا تالا ڈلوا دوں؟ "
پہلا بوڑهاجی ہاں! رازرق مگر اس سے فائدہ کیا ہو گا؟ دوسرا بوڑھا حضور شاہان سلف کی وصیت پوری کرنا-
رازرق تم جانتے ہو اس گنبد کے اندر کیا ہے؟ پہلا بوڑها نہیں حضور اسے جس شہنشاہ ہرقل اعظم نے تعمیر کروایا تھا اسی وقت سے بند پڑا تھا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے-
رازرق تم اس کے محافظ کب سے ہو؟ دوسرا بوڑھا حضور ہم دونوں بھائی ہیں اور ہمارے بزرگوں کے سپرد اس کی خدمت اور حفاظت کر دی گئی تھی -
اس وقت سے ہمارے خاندان والے اپنے فرائض انجام دیتے رہے-
اب ہم دونوں جب سے کہ ہم نے ہوش سنبھالا ہے حفاظت کر رہے ہیں -
رازرق مگر تم خدمت کیا کرتے ہو؟
پہلا بوڑها باہر کی صفائی رازرق اور اندر کی صفائی کوئی نہیں کرتا رازرق کیوں؟
دوسرا بوڑھا حضور اس لیے کہ اس کے کھولنے کا حکم نہیں ہے
رازرق کس کا حکم نہیں ہے -
دوسرا بوڑھا اس کے بانی کا-
رازرق یعنی ہرقل اعظم کا؟ "
پہلا بوڑها جی ہاں!
رازرق کیوں حکم نہیں ہے ؟
دوسرا بوڑھا اس لیے کہ اس کے متعلق یہ پیشن گوئی ہے جب وہ گنبد کھولا جائے تو ملک پر تباہی آ جائے گی اور۔۔۔۔
رازرق : اور کیا؟
دوسرا بوڑھا : اور جو بادشاہ اسے کھولے گا وہ مارا جائے گا! !!
رازرق : عجیب و غریب پیشن گوئیاں ہیں! !!
پہلا بوڑها : جی ہاں!
رازرق : کیا کسی بادشاہ نے اسے کھولنے کی جرات نہیں کی؟
دوسرا بوڑھا : کئی بادشاہوں نے کی حضور!
رازرق :پھر کیا انجام ہوا؟
پہلا بوڑها :یا تو اس کی موت ہوئی یا کسی آفت ناگہانی میں گرفتاری-
رازرق :تمہارے سامنے بھی کسی بادشاہ نے اسے کھولنے کی کوشش کی؟
دوسرا بوڑھا :نہیں حضور ہم سے پہلے ہی کوشش کی گئی تھی -
رازرق :تو تم نہیں جانتے کہ اس کے اندر کیا ہے؟
دوسرا بوڑھا :حضور ہم ہی کیا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے؟
رازرق :مگر تمہارا کیا خیال ہے؟
دوسرا بوڑھا :حضور ہم نے کبھی اس کے متعلق خیال بھی نہیں کیا-
رازرق :میں بتا دوں جو میرا خیال ہے-
پہلا بوڑها :فرمائیے؟
رازرق :اس کے اندر خزانہ دفن ہے-
دونوں بوڑھے چونک پڑے ایک نے کہا-"خزانہ؟؟؟؟
رازرق :ہاں خزانہ! !! 
دوسرا بوڑھا :حضور خزانہ کی حفاظت کے لیے ایسی عجیب پیشن گوئیاں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
رازرق :تا کہ کوئی اسے کھول کر خزانہ پر قبضہ نہ کر لے.
پہلا بوڑها :مگر حضور خزانہ کے دفن رہنے سے کیا فائدہ تھا؟ "
رازرق :خزانہ دفن کرنے والے بیوقوف یہ چاہا کرتے تھے کہ جب وہی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو دنیا میں کوئی بھی شخص اس سے فائدہ نہ اٹھائے اس لیے ہیبت ناک اور ڈراونی پیشن گوئیاں کر دیتے ہیں 
دوسرا بوڑھا :مگر یہ گنبد تو ہرقل نے تعمیر کرایا ہے!
رازرق :اور اسی نے اس میں خزانہ دفن کر کے لوگوں کے ڈرانے کے لیے ہولناک پیشن گوئیاں کرا دیں
پہلا بوڑها :خیر کچھ بھی ہو اب حضور بھی اپنے نام کا ایک قفل لگوا دیں-
رازرق :میں بھی پہلے احمقوں کی طرح سے قفل لگوا دوں؟ہرگز نہیں میں اسے کهولوں گا 
دونوں بوڑھے خوف و دہشت سے زرد پڑ گئے، اراکین سلطنت بھی حیرت بهری نظروں سے رازرق کو دیکھنے لگے-
رازرق نے کہا - "ہاں ضرور کهولوں گا - "
وزیراعظم :مگر حضور۔ ۔ ۔ 
رازرق :کیا؟
وزیراعظم :تقادیم کہنہ میں لکھا ہے کہ اس گنبد کا راز کوئی بھی نہ معلوم کر سکے گا سوائے ایک بادشاہ کے جو اپنے سلسلے میں آخری ہو گا اور اس کو بھی یہ بات اس وقت میسر آئے گی جبکہ سلطنت کا ستون مرکز ثقل سے ہٹ جائے گا
رازرق نے غصہ میں آ کر کہا :"بزرگ بے وقوف تهے! !"
ایک فوجی افسر :جس دن یہ گنبد کھولا جائے گا اسی روز سے ملک پر غضببِ الٰہی نازل ہونا شروع ہو جائے گا 
رازرق نے استہزاد کے انداز سے کہا:! !!یہ تمام پیشن گوئیاں صرف ڈرانے کے لیے ہیں اور میں ڈرنے والا نہیں ہوں میں تو اس گنبد کو ضرور کهولوں گا اور جو کچھ اس کے اندر محفوظ ہے اسے دیکهو گا"
ایک پادری نے جو بادشاہ کے قریب ہی بیٹھا تھا بولا : عالی جاہ مناسب یہی ہے کہ آپ اسے نہ کهولیں، فرض کر لیجیے کہ اس کے اندر خزانہ ہی ہے اس وقت حضور کو روپے کے ضرورت نہیں ہے لہذا بند رہنے دیجئے کسی اشد ضرورت کے وقت کام آئے گا اور اگر خزانہ نہ ہوا تو کف افسوس ملنا پڑے گا"
رازرق : میں جو زبان کرتا ہوں اسے پورا کئے بغیر نہیں چهوڑتا اس لیے سمجھانا اکارت و فضول ہے۔
پادری : جوحضور کی خوشی! !!
رازرق :نے بوڑھوں سے مخاطب ہو کر کہا  "تم واپس جاو اور چابیوں کے گهچے صاف کرواؤ ہم کل وہاں آ کر گنبد کهولیں گے "
دونوں بوڑھے اظہار اطاعت کے لیے جھک گئے۔
رازرق نے فوجی افسر سے دریافت کیا:اس وقت میدان جنگ میں کتنا لشکر بھیجا جا سکتا ہے؟ "
افسر نے کہا:حضور ایک لاکھ ۔
رازرق :بہت کافی ہے تم اسے حکم سنا دو تاکہ وہ کوچ کے لیے تیار ہو جائے۔
افسر :جی بہتر-
اب رازرق اٹھا اور تمام درباری اٹھ کر رکوع کے انداز سے جھک گئے لڑکیاں بھی دونوں ہاتھ سینوں پر رکھ رکھ کر اور سر جھکا جھکا کر کھڑی ہو گئیں -
بادشاہ نے سب نے پر ایک سرسری نظر ڈالی اور تخت سے اتر کر چلا جو لڑکیاں تخت کے پیچھے کھڑی تھیں، انہوں نے اس کے لمبے لبادہ کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئیں-
بادشاہ کے جانے کے بعد ایک ایک کر کے سب چلے گئے لیکن کچھ پریشان اور فکر مند تھے اور یہ تفکر و پریشانی صرف اسی لیے تهی کہ بادشاہ نے اس گنبد کو کھولنے کا عزم صمیم کر لیا تھا جو کہ جب سے بنا تھا اسی وقت سے بند تھا اور جس کے کھولے جانے جانے کے متعلق نہایت ڈراونی پیشن گوئیاں تهیں -
تهوڑی ہی دیر میں وہ تمام دربار خالی ہو گیا
رازرق دربار سے نکل کر محل سرا کی طرف روانہ ہوا-
بوڑھوں کے آنے ان کی باتیں سننے اور پیشن گوئیاں معلوم ہونے سے وہ کچھ عجیب چکر میں الجھ گیا تھا - "
وہ ہیولا مزاج انسان تها اور ضدی بھی بہت زیادہ تھا -
اس نے دربار عام میں کہہ دیا تھا کہ وہ گنبد کو ضرور کھولے گا مگر اب یہ شرم دامن گیر ہوئی کہ اگر نہیں کھولتا تو لوگ اسے بزدل خیال کریں گے اس لیے وہ سوچنے لگا کہ اب کیا کرے-
قصر میں پہنچ کر اس نے شاہانہ پوشاک اتار دی اور کپڑے بدلے کهانے کا وقت ہو رہا تھا کها نا کها یا اور کوچ پر جا پڑا-
پڑتے ہی پهر وہی خیال آ گیا اور پھر اس کے پہلوؤں پر غور کرنے لگا-"
اب جوں جوں وہ غور کرتا جاتا تھا اس کا دل کسی انجانے خوف و ہراس سے میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا - "
کوئی غیبی طاقت اس سے کہہ رہی تھی اسے کھولنا مبارک ثابت نہ ہو گا -
ایک اور فکر اسے گهن کی طرح سے کها نے لگا تھا اور وہ فکر مسلمانوں کی تها اگرچہ مسلمانوں سے وہ واقف نہیں تھا لیکن پھر بھی اسے یہ فکر لاحق ہو گیا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کیوں انہوں نے بلاوجہ حملہ کر دیا ہے؟
یہ دونوں باتیں اس کے دل کو کھائے جا رہی تھی اور وہ انہی روح فرسا خیالات میں الجھ رہا تھا -
کئی گھنٹے پڑا ہوا ہے وہ سوچتا رہا اور غور کرتا رہا لیکن جوں جوں وہ غور کرتا طبیعت اور زیادہ پریشان ہوتی جاتی تھی-
اس نے اپنی خدمت کے لیے بھی مرد کو نوکر نہ رکھا تھا-
سب عورتیں بلکہ نوخیز آور حسین لڑکیاں تهیں-
جب وہ اپنے خیالات میں مستغرق تھا تو خادمائیں ریشمی پوشاکیں پہنے پرا باندھے سامنے مودب کھڑی تھیں، انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مصور نے رنگ برنگ کی خوبصورت تصویریں بنا کر کھڑی کر دی ہوں-
جب بادشاہ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوا تو ان میں سے ایک شوخ نے گلا کهنکارا اس کے کهنکارتے ہی بادشاہ کا سلسلہ تخیلات ٹوٹ گیا اور اس نے نگاہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھا لڑکیاں اس کی طرف پہلے ہی سے دیکھ رہی تھی ۔
اس نے کہا تم سب یہاں کھڑی ہو
 ایک لڑکی نے کہا :جی ہاں-"
رازرق :کب سے؟
وہی لڑکی :جب سے حضور خیالات کی دنیا میں پہنچے ہیں 
رازرق :ہاں آج طبیعت کچھ پریشان سی ہے 
یہ لڑکی بادشاہ کی کچھ منہ چڑھی تھی اس نے مسکرا کر کہا :فلوریڈا یاد آ رہی ہے حضور کو؟ "
غالباً قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ فلورنڈا کونٹ جولین کی وہ مہ پارہ لڑکی تھی جس کا دامن عصمت رازرق نے چاک کر دیا تھا اور جس کو اس کا والد اس کی والدہ کی علالت کا بہانہ کر کے لے گیا تھا اور اب تک واپس نہیں بھیجا-
نہ معلوم اب اس کی والدہ کا کیا حال ہے؟"
رازرق سنهل کر بیٹھ گیا
لڑکی :حضور میں نے تو سنا ہے کہ یہ سب بہانہ تھا -
رازرق :نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا بہانہ کیسے معلوم ہوا تجھے؟ "
لڑکی :فلورنڈا کی دایہ بعد میں گئی ہے اس نے راحیل سے کہا تھا 
رازرق :راحیل کون؟کیا وہی لڑکی جو کئی روز سے غائب ہے۔
لڑکی :جی ہاں!
رازرق :اور راحیل نے یہ بات کس سے کہی تھی؟ "
لڑکی :جس روز وہ غائب ہوئی اسی روز اس نے مجھے یہ بات کہی تھی ۔ میں اس فکر میں رہی کہ راحیل مل جائے تو اسے حضور کے سامنے پیش کر کے یہ بات کہوں لیکن اب جب کہ اس کے آنے کی کوئی توقع نہیں ہے تو میں نے ہی عرض کر دیا ۔
رازرق :مگر اس نے بہانہ کیوں بنایا؟ "
لڑکی :دایہ کہتی تھی کہ فلورنڈا نے سارا واقعہ اپنے باپ کو لکھ کر یہ استدعا کی تھی کہ وہ آ کر اسے لے جائے چنانچہ وہ آیا اور بہانہ بنا کر اپنی لڑکی کو لے گیا-
رازرق :کو بہت حیرت ہوئی اور حیرت کے ساتھ غصہ اور افسوس بھی ہوا-
وہ کچھ کہنے ہی آ تها کہ ایک پری زاد لڑکی اندر داخل ہوئی اور چند قدم بڑھ کر سر جھکا کر کھڑی ہو گئی -
رازرق نے اس کی طرف دیکھ کر کہا :کیا ہے؟ "
لڑکی نے ایک مراسلہ پیش کرتے ہوئے کہا!حضور قصر کے محافظ سپاہیوں کے افسر نے یہ مراسلہ دیا ہے! "
رازرق :لاو! !
لڑکی نے بڑهہ کر مراسلہ دیا-
رازرق نے کھولا اور جلدی سے نیچے فریسندہ کا نام دیکھا-
نیچے کونٹ جولین کا نام لکھا ہوا تھا - رازرق نے بغیر مراسلہ کا مضمون پڑھے کسی قدر خوش ہو کر کہا -
تیرا خیال غلط نکلا دیکھ یہ جولین کا مراسلہ آیا ہے ۔۔۔اس نے پڑھنا شروع کیا لکھا تھا! !
مغرور و سیہ کار بادشاہ!تونے میری بیٹی کی عصمت تاراج کر کے خاندان گاٹهہ کی توہین کی ہے ہوشیار ہو جا کہ میں نے تجھ سے انتقام لئے بغیر نہ رہوں گا ۔
اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا کہ جب تک تیرے قصر حکومت کو نہ گرا دوں اور تجھے عدم آباد نہ پہنچا دوں۔ 
جب میں فلورنڈا کو واپس لارہا تھا تو نے مجھ سے چلتے وقت خاص قسم کے شکاری بازوں کی فرمائش کی تھی ۔
میں نے تیری خواہش پوری کرنے کے لیے ایسے باز لایا ہوں جو تیری رعایا فوج اور تیرا بهیجا تک کها جائیں گے ۔ 
بتا دوں کہ وہ شکاری باز کون ہیں؟ وہ شیران اسلام ہیں وہ شیران اسلام کہ جس ملک میں ان کے قدم گئے انہوں نے اسے فتح کئے بغیر نہ چھوڑا۔
وہ جزیرہ سبز سے آگے بڑھ آئے ہیں اور تیرے سپہ سالار تدمیر کو شکست دے چکے ہیں۔ سنهل جا کیونکہ تیری سیہ کاری کا انجام بہت قریب ہے (کونٹ جولین)
رازرق اس مراسلہ کو پڑھتا جاتا تھا اور اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا جا رہا تھا -
اس نے سب کچھ پڑھ کر اس لڑکی سے جو مراسلہ لائی تھی پوچھا اس افسر کو لاو جو یہ مراسلہ لایا ہے.
لڑکی چلی گئی بادشاہ فرط غیظ و غضب سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگا تمام لڑکیاں اس کی یہ کیفیت دیکھ کر دم بخود ہو کر رہ گئیں اور کسی کو کچھ دریافت کرنے کی جرات نہ ہوئی.
تهوڑی دیر میں ایک شخص فوجی لباس پہنے حاضر ہوا اس نے زمین پر گر کر سلام کیا اور جب اٹها تو رازرق نے دریافت کیا تم جانتے ہو یہ مراسلہ کس کا ہے؟ "
افسر :نہیں، 
رازرق :کون لایا تھا اسے؟ ؟
افسر :ایک سوار -
 رازرق :کتنی دیر ہوئی جب وہ مراسلہ تم کو دے کر گیا تھا؟
افسر :بہت دیر ہوئی. 
رازرق :تم نے فوراً کیوں نہ پیش کیا 
افسر :مجھے بتایا گیا تھا کہ عالم پناہ آرام گاہ میں ہیں.
رازرق :اس وقت اس نے جواب کے متعلق کچھ نہیں کہا؟ "
افسر :نہیں حضور وہ عجلت میں تها مراسلہ دیتے ہی چلا گیا-
رازرق :ضرور چلا گیا ہو گا مردود ، اچھا تم جاو-
افسر چلا گیا ، رازرق کو اب تیسری فکر لاحق ہو گئی تھی گویا اب وہ اسیر پریشانی ہو کر رہ گیا 
وہ اسی الجھن میں تها کہ چند اور مہ وشیں داخل ہوئیں اور انہوں نے دل ربانہ انداز میں سر جھکا لئے.
رازرق نے استفسار کیا-"
کیا ہے؟
ان میں سے ایک نے کہا : عالی حضرت !ملکہ تشریف لا رہی ہیں-"
رازرق یہ سن کر اور بھی پریشان ہو گیا اور مراسلہ دیکھنے لگا جو ابهی ابهی آیا تھا وہ اسے تلاش کر رہا تھا تا کہ اسے چھپا دے لیکن چونکہ اس کے حواس منتشر ہو گئے تھے وہ اسے نہ ملا.
فورا ہی ملکہ آ گئی اور وہ اس کے استقبال کے لئے کهڑا ہو گیا ملکہ نو عمر تهی زیادہ سے زیادہ بیس سال کی عمر تهی اس کی.
نہایت حسین تهی اس کے چہرے سے حسن کی شعاعیں نکل رہی تھیں چہرہ گول اور پیشانی چوڑی تهی آنکھیں بڑی بڑی اور زیادہ سیاہ اور چمک دار تهیں
وہ نہایت بھڑک دار ریشمی لباس اور جواہرات کے زیورات وغیرہ پہنے ہوئے تهی -
اس کے گلے میں ایک طوق تھا جس میں بیش قیمت موتی او لعل جڑے ہوئے تھے وہ چمک رہا تھا اور اس کی چمک سے اس کا چہرہ خیرہ ہو رہا تھا اس ملکہ کا نام نائلہ تھا دنیا بھر میں اس کے حسن کی مثال نہیں ملتی اس کی اور  اس کے بے مثل طوق کی ہر طرف شہرت تھی-
وہ اٹھلاتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے نظروں کے تیر برساتے ہوئے بڑھتی چلی آئی.
رازرق نے بڑهہ کر پیار کیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کے بعد دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے.
نائلہ نے کہا -:"میں نے سنا ہے آپ نے عجیب گنبد کھولنے کا ارادہ کیا ہے؟ "
رازرق :آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے!
نائلہ :مگر آپ اسے نہ کهولیں تو بہتر ہے!
رازرق : شاید اس لیے کہ اس کے متعلق نہایت عجیب و غریب پیشن گوئیاں کی گئی ہیں"
نائلہ :جی ہاں!مجھے میری دایہ بتایا کرتی تھی کہ اس گنبد کو جو بھی بادشاہ کھولے گا وہ سب سے آخری بادشاہ ہو گا -
رازرق :تم فکر نہ کرو یہ پیشن گوئیاں اس وجہ سے کی گئی ہیں تاکہ کوئی اسے کھول کر اس کے اندر کا خزانہ نہ نکال لے-
 نائلہ :تو کیا اس کے اندر خزانہ ہے؟
رازرق :یقیناً خزانہ ہے! !!
نائلہ :لیکن یہ محض قیاس ہے،
رازرق :اور تم دیکھ لو گی کہ یہ قیاس غلط نہ تھا!
نائلہ :مگر میری التجا ہے کہ آپ اسے نہ کهولیں -
رازرق :میں ضرور مان لیتا لیکن میں نے بھرے دربار میں اس کے کھولنے کا اقرار کیا ہے اور اب اگر میں نہ کهولوں تو دنیا مجھے بزدل کہے گی اور یہ بات شاید تم کو بھی اچھی معلوم نہ ہو کہ اندلس کا بادشاہ بزدل کے نام سے یاد کیا جائے-"
نائلہ :اللہ کی مرضی.
رازرق :ہاں خدا کی مرضی یہی ہے-
اتفاق سے نائلہ کی نظر اسی مراسلے پر پڑ گئی جو کوچ پر رکھا تھا یہ وہی مراسلہ تها جسے چھپانے کے لئے رازرق نے تلاش کیا تھا اور باوجود ڈھونڈنے کے نہ ملا تھا 
نائلہ نے کہا :یہ کس کا مراسلہ ہے؟ "
یہ سنتے ہی رازرق کا رنگ فق ہو گیا اور وہ کچھ جواب نہ دے سکا نائلہ اسے دیکھنے کے لئے اٹهی 
رازرق گھبرا گیا اور اس نے کہا:"رہنے دیجئے یہ مراسلہ آپ کے دیکھنے کا نہیں ہے-"
نائلہ :نے ضد کرتے ہوئے کہا:" میں تو ضرور دیکھوں گی-"
اس کے کہنے کے ساتھ ہی اس نے بڑهہ کر وہ مراسلہ اٹها لیا-
رازرق شرم و خوف بهری نگاہوں سے نائلہ کو دیکھنے لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی