🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر: صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تدمیر میدان جنگ سے بھاگ کر اپنے خیمے میں پہنچا-
جب وہ اپنے خیمے پر آیا تو اس نے بلقیس امامن اور اسمٰعیل کو دیکھا اور دیکھتے ہی کہا-"
اچھا تو تم اس پیکر جمال کو لے جانا چاہتے ہو؟ "
امامن بلقیس اور اسمٰعیل اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئے تھے-
تدمیر نے پھر کہا-"
امامن تم اپنی بیٹی کو لے جانا چاہتے تھے؟ "
امامن: جی ہاں! !!!
تدمیر: کیا تم نہیں جانتے تھے کہ اسے شہنشاہ کے پاس لے جانا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں-"
امامن: کیا تم نہیں جانتے کہ باپ کو اولاد سے کس قدر محبت ہوتی ہے؟ "
تدمیر: اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو اس کی بہبود کو مد نظر رکھ اس کی فلاح اسی میں ہے کہ یہ شہنشاہ کی منظور نظر بن جائے-"
امامن: نہیں اس کی اور اور اس کے ساتھ میری عافیت اسی میں ہے کہ یہ اپنے ہی گھر میں رہے-
تدمیر: مگر تم جانتے ہو کہ اندلس میں رہتے ہوئےیہ نا ممکن ہے کہ تم اسے کہیں چھپا سکو-
امامن: میں جانتا ہوں کہ نہیں چھپا سکتا!
تدمیر: پھر ایسی حماقت کیوں کرتے ہو؟
امامن:میں نہایت عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ اس پر اور مجھ پر رحم کریں -
تدمیر : یہودی کتے کیا یہ رحم نہیں کہ ہم نے تم کو زندہ چھوڑ دیا ہے، ورنہ جب تم نے اس لڑکی کو لاتے وقت سرکاری سپاہیوں سے مزاحمت کی تهی تو تم کو اسی وقت مار ڈالا جاتا-
امامن : اس بے عزتی سے تو مر جانا ہی بہتر تھا -
تدمیر: اچھا تو تم مرنا ہی چاہتے ہو!
امامن : ہاں اگر تم اسے لے جانا چاہتے ہو تو پہلے مجھے مار ڈالو-
تدمیر نے اپنے آدمیوں کی طرف دیکھ کر کہا-"اس کتے کا خاتمہ کر دو! "
اسمٰعیل نے ان دونوں کی گفتگو کا ایک لفظ بھی نہ سمجھا تھا-
وہ خاموش کھڑے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں تهے-
ایک عیسائی تلوار لے کر امامن کی طرف چلا فورا ہی بلقیس بڑهی اور اس نے عاجزی کے لہجہ میں کہا-"
آہ رحم کرو میرے ابا پر رحم کرو-"
اب اسمٰعیل سمجھا کہ عیسائی امامن کو قتل کرنا چاہتے ہیں انہیں غصہ آ گیا مگر خاموش رہے-
تدمیر نے بلقیس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکتے ہوئے کہا-"
الگ ہٹ جا بے وقوف لڑکی-"بلقیس گرتے گرتے سنهلی -
اسمٰعیل نے فوراً تلوار درمیان سے کھینچ کر کہا بد بختوں ہٹ جاؤ-"
کوئی عیسائی بھی عربی نہ جانتا تھا ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ اسمٰعیل نے ان سے کہا البتہ وہ ان کے تیور نیز انہیں شمشیر بہ کف دیکھ کر یہ ضرور سمجھ گئے کہ وہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں-"
انہیں مسلمانوں پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا کیونکہ انہوں نے ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے تھے اور انہیں شکست دے بھگا دیا تھا-
اس وقت اسمٰعیل تنہا تهے اور وہ پچاس ساٹھ تهے اس لیے انہوں نے ان سے انتقام لینے کا ارادہ کر لیا-
تدمیر نے للکار کر کہا-"
عیسائیوں تم نے اس شخص کا حوصلہ دیکھا؟ بڑھو اور اسے مار ڈالو-"
فوراً تمام عیسائیوں نے تلواریں کهنیچ لیں اور اسمٰعیل پر حملہ کرنے کے لیے بڑھے-
اسمٰعیل مطلق نہ گھبرائے-
انہوں نے ایک ہاتھ میں ڈھال سنبھال لی تھی اور دوسرے میں تلوار لے لی اور گوشہ چشم سے چاروں طرف دیکھنا شروع کیا-
بلقیس نے جب یہ کیفیت دیکهی تو اسے اندیشہ ہوا کہ اسمٰعیل تنہا ہیں اور عیسائی زیادہ ہیں اگر جنگ ہوئی تو اسمٰعیل مارے جائیں گے-
اس لیے اس نے تدمیر کی طرف بڑھتے ہوئے اس سے کہا-"
معزز سردار خون ریزی نہ کر-"
تدمیر نے اس کے رخ انور پر نظر ڈال کر کہا-"
کیا تم خوشی سے ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہو؟ "
بلقیس: ہاں بشرطیکہ____
تدمیر: کس شرط پر؟
بلقیس: تم اس اسمٰعیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا نوجوان کو چھوڑ دو اور اسے واپس جانے دو-
تدمیر: اگر اس نے کوئی حماقت نہ کی تو ہم اسے جانیں دیں گے اس کو سمجھا دو-
اب بلقیس اسمٰعیل کی طرف آئی اور کہا نوجوان اب تم اپنی تلوار نیام میں ڈال لو-"
اسمٰعیل اس چاند کے ٹکڑے کو اپنے اس قدر قریب دیکھ کر اس کے حسن آفریں چہرے کو دیکھنے لگے اور دیکھتے گئے-"
کچھ دیر بعد بولے کیوں عیسائی لڑنا نہیں چاہتے؟ "
بلقیس عربی جانتی تھی اور عربی میں ہی اس سے ہمکلام ہوئی اس نے کہا ہاں وہ لڑنا نہیں چاہتے-"
اسمٰعیل تو ان سے کہو کہ یہاں سے چلے جائیں-
بلقیس: نہیں تم چلے جاو-
اسمٰعیل: اور تم اور تمہارے والد؟
بلقیس: میرے والد بھی چلے جائیں گے مگر-----!
اسمٰعیل: مگر کیا؟
بلقیس: وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہیں-
اسمٰعیل: اور تم خوشی سے جانے کے لیے تیار ہو؟
بلقیس: نہیں!
اسمٰعیل: پھر؟ ؟
بلقیس: وہ تم کو اس وقت چھوڑ سکتے ہیں جب کہ میں ان کے ساتھ جاؤں اسمٰعیل کو جوش آ گیا انہوں نے کہا کیا میں ان کا قیدی ہوں؟ "
بلقیس: وہ زیادہ ہیں اور تم تنہا ہو-
اسمٰعیل: تم اس بات کا اندیشہ نہ کرو ان شاءالله میں تنہا ہی ان سب کے لیے کافی ہوں-
بلقیس:مگر میرا دل نہیں مانتا!
اسمٰعیل: پیاری دوشیزہ تم میری وجہ سے اپنے اوپر مصیبت لینے کو تیار ہو؟
بلقیس نے بھولے پن سے کہا " ہاں"
اسمٰعیل: میں تمہارا مشکور ہوں لیکن. ....بلقیس برابر ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی- اس نے دریافت کیا-"
لیکن کیا؟
اسمٰعیل: میں کبھی تم کو اپنی زندگی میں انہیں لے جانے نہیں دوں گا-
بلقیس:وہ بہت زیادہ ہیں!
اسمٰعیل: کچھ اندیشہ نہ کرو ان کو اپنی کثرت پر ناز ہے اور مجھے الله کی رحمت پر بھروسہ ہے-
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
تدمیر کی نظر مسلمانوں کی طرف تهی-
مسلمان نماز پڑھ رہے تھے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ پهر حملہ آور نہ ہوں، اس لیے وہ جلد از جلد وہاں سے چلا جانا چاہتا تھا-
جب بلقیس اور اسمٰعیل کی گفتگو نے طول کھینچ تو وہ بلقیس کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیا-"
یہ نوجوان کیا کہتا ہے؟ "
بلقیس: وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا! !
تدمیر: جب تو جنگ ضرور ہو گی، اب میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا-
تم ایک طرف ہٹ جاؤ اور ہمیں اس کا خاتمہ کرنے دو-
تدمیر نے بلقیس کا بازو پکڑ کر ایک طرف کر دیا-
اسمٰعیل کو اس کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری انہیں طیش آ گیا اور انہوں تلوار بلند کرتے ہوئے کہا-"
بدمعاش تم اس دوشیزہ کو ہاتھ لگاتے ہو-"
عیسائیوں نے کچھ نہ سمجھا کہ اس نے کیا کہا ہے تدمیر نے ان سے کہا دلیرو اس خود سر نوجوان کا خاتمہ کر دو-"
اب عیسائیوں نے اسمٰعیل پر حملہ کر دیا-
اسمٰعیل پہلے ہی حملے کے لیے تیار تھا انہوں نے پینترا بدلہ اور خود بھی پلٹ کر حملہ کر دیا اور پہلے ہی حملے میں ایک عیسائی کو جہنم واصل کر دیا پھر دوسرے پر حملہ کر کے اس کو بھی ٹھنڈا کر دیا-
اس کے بعد پلٹ کر تیسرے پر حملہ کیا اور اس کا سر بھی اڑا دیا-
انہوں نے کچھ اس طرح جھپٹ جھپٹ کر حملے کیے کہ عیسائی ان کی پھرتی پر حیران رہ گئے-"
بلقیس بھی حیرت اور مسرت بهری نظروں سے انہیں جنگ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی-
وہ دل سے ان کے لیے سلامتی کی دعا مانگ رہی تھی امامن سمجھ گیا کہ تنہا اسمٰعیل ان عیسائیوں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے
اس لیے وہ موقع پا کر وہاں سے کهسکا اور مسلمانوں کو اس واقعہ کی خبر دینے چل پڑا-
تدمیر یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ جلد از جلد اسمٰعیل کو مار ڈالیں گے مگر جب جنگ کرتے ہوئے انہوں نے دیکھا تو اس سے ضبط نہ ہو سکا اس نے کہا خدا جانے یہ کمبخت کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ کودے ہیں-
کس چیز سے بنے ہیں مرنا تو گویا جانتے ہی نہیں یہ اکیلا ہے اور ہم پچاس مگر یہ پهر بھی قابو میں نہیں آ رہا-"
عیسائی نہایت جوش و خروش سے لڑ رہے تھے لیکن اسمٰعیل ایسی پھرتی اور دلیری سے لڑ رہے تھے کہ کسی کو ان کے سامنے ٹھہرنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی-
وہ جس پر کود کر حملہ کرتے اسے ہی مار ڈالتے تھے پھر تلوار مار کر یہ دیکھتے تھے کہ جس پر تلوار پڑی اس کا حشر کیا ہوا ہے بلکہ فوراً ہی دوسرے پر جا کر حملہ کر دیتے تھے کبھی داہنے اور کبھی باہنے کبھی آگے کبھی پیچھے پینترے بدل بدل کر حملے کر رہے تھے-
اس طرح انہوں نے سترہ اٹھارہ عیسائیوں کو مار ڈالا تھا اور ابھی تک ان کے دم خم میں کمی نہ آئی تھی-
تدمیر ایک طرف کھڑا دانت پیس رہا تھا اگر اس کا بس چلتا تو وہ اسمٰعیل کے ٹکڑے اڑا دیتا-
پری پیکر بلقیس کھڑی اسمٰعیل کی لڑائی کا تماشہ خاص نظروں سے دیکھ رہی تھی-
اس کے حیات بخش لبوں پر تبسم کھیل رہا تھا آنکھوں میں عجیب چمک پیدا ہو گئی تھی اور چہرہ گلنار کی طرح سرخ ہو رہا تھا-
اسمٰعیل نے اس عرصے میں تین اور عیسائیوں کو ٹھکانے لگا دیا تھا تدمیر نے زرا بلند آواز سے کہا ظالم بے درد ہٹ جا-"
اسمٰعیل نے اس کی آواز سنی انہوں نے نظریں اٹها کر دیکها وہ ٹرپ گئے اور اپنے سامنے والے عیسائی کو مار کر تدمیر کی طرف جھپٹے.
ابھی چند قدم بھی نہ چلے تھے کہ عیسائیوں نے بےشمار تلواریں ان پر برسا دیں وہ جواب دینے کے لیے لپکے اور ایک عیسائی کو مار ڈالا-
تدمیر بلقیس کو چھوڑ کر جھپٹا اور اس نے جاتے ہی اسمٰعیل کی تلوار پر اپنی تلوار مار دی ان کی تلوار ٹوٹ گئی اب وہ نہتے رہ گئے-"
ادھر عیسائیوں نے ان پر حملہ کرنا چاہا تو تدمیر نے کہا ٹھہرو اسے قتل نہ کرو اسے زندہ گرفتار کرو-
حضور بادشاہ رازرق کے سامنے پیش کریں گے-"
یہ سنتے ہی بہت سے عیسائی ان پر جھپٹ پڑے انہیں گرفتار کر کے ریشم کی ڈوری سے جکڑ دیا-
اب تدمیر نے بلقیس کو بھی باندھ لیا اور دونوں کو گھوڑوں پر سوار کر کے خود بھی گھوڑے پر سوار ہوا-
اس کے بقیہ ساتھی بھی سوار ہوئے اور یہ تمام لوگ خیمہ سے باہر چل پڑے-
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔