قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی گئی ہے اور حدیث شریف میں ہر اچھے اور مفید کام کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس میں نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے، لہٰذا احسان شناسی کا یہ تقاضا ہے کہ منعم و محسن کے انعامات و احسانات سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل مکی سورت ہے۔ مفسرین کرام نے اس کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں سورة فاتحہ کے بائیس نام شمار کرائے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے کثرت الاسماء تدل علی عظمۃ المسمی کسی چیز کے زیادہ نام اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سورة فاتحہ کے بہت سارے نام بھی اس مبارک سورت کی عظمتوں کے غماز ہیں۔ اہمیت کے پیش نظر اس سورت کے چند نام ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مشہور نام سورة الفاتحہ ہے کیونکہ مصحف عثمانی کی ابتداء اس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نماز کی ابتداء بھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ اس کا نام ام الکتاب بھی ہے جس کا مطلب ہے قرآن کریم کی اساس اور بنیاد۔ قرآن کریم میں بیان کئے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کر کے دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت، احکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کا قابل رشک انجام۔۔ ۔ اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنہیں پورے شرح و بسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳ سورتوں میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس سورت میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔ اسی لئے اس سورت کو ام الکتاب اور اساس القرآن کہا گیا ہے۔ مفسرین کرام نے سورت الفاتحہ کو قرآن کریم کا مقدمہ یا پیش لفظ بھی کہا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا تاکہ شب و روز میں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کا خلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ اس سورت کا ایک نام تعلیم المسئلۃ ہے کہ اس میں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے اور کس طرح مانگنا چاہئے۔ یہ سورت الشفاء بھی ہے کہ روحانی و جسمانی امراض کے لئے پیغام شفاء ہے۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے موت کے علاوہ ہر جسمانی مرض سے صحت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مضامین پر عمل کرنے سے روحانی امراض سے شفا یابی ہوتی ہے۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اعتراف کے لئے حمد کا عنوان اختیار کیا گیا ہے اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لئے رب العالمین کی صفت کا بیان ہے، کیونکہ رب وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کائنات کا وجود و عدم اس کی صنعت رحمت کا مرہونِ منت ہے۔ قیامت کے دن انسانی اعمال کی جزاء و سزا کا حتمی فیصلہ کرنے والا مالک و مختار وہی ہے۔ ہر قسم کی وفاداریوں کا مرکز اور مالی و جسمانی عبادات کا مستحق وہی ہے۔ ہر مشکل مرحلہ میں اسی سے مدد طلب کی جانی چاہئے۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ہدایت کہلاتا ہے۔ اس لئے بندہ صراط مستقیم کی ہدایت انبیاء و صدیقین و شہداء و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بناء پر انعامات کے مستحق قرار پا چکے ہیں ان کے راستہ کی ہدایت، اپنے مالک سے طلب کرتا ہے اور قرآنی نظام کے باغی یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کے راستہ سے بچنے کی درخواست پیش کرتا ہے اور آخر میں آمین کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لئے نیاز مندانہ معروض پیش کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب سورة فاتحہ ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میرے بندے نے مجھ سے جو مانگا، میں نے اسے عطاء کر دیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ ’’امام جب نماز میں سورة فاتحہ کی تلاوت ختم کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ تم بھی آمین کہا کرو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میں نے سورة فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہے۔ آدھی سورة فاتحہ میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے۔ جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اثنی علی عبدی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری عظمت و بزرگی کا اعتراف کیا۔ جب ایاک نعبد وایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا بینی و بین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم سے آخر تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہذا العبدی والعبدی ماسأل یہ میرے بندہ کے لئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اسے عطاء کر دیا ہے۔
٭٭٭