حدیث قدسی : تعریف
حدیث قدسی احادیث طیبہ کی ایک خاص قسم ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس طرح روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسے براہ راست اﷲ رب العزت کی طرف منسوب کر کے بیان فرماتے ہیں۔ اور یہ نسبت الٰہیہ ان احادیث طیبہ میں ایک خاص قسم کا تقدس پیدا کر دیتی ہے جس کی وجہ سے یہ احادیث ’’احادیث قدسیہ‘‘ کہلاتی ہیں۔ انہیں احادیث الٰہیہ یا احادیث ربانیہ بھی کہا جاتا ہے۔
حدیث قدسی کی متقدمین و متاخرین علماء نے اپنے اپنے دور میں مختلف تعریفات بیان فرمائی ہیں۔ متقدمین علماء میں سید علی جرجانی رحمۃ اﷲ علیہ (متوفی816ھ ) نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’کتاب التعریفات‘‘ میں حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے :۔
’’حدیث قدسی معنی کے لحاظ سے اﷲ رب العزت کی طرف سے اور الفاظ کے لحاظ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتی ہے۔ پس یہ وہ کلام ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو الہام یا خواب کے ذریعے بتائیں۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے الفاظ میں اسے بیان فرمائیں۔ قرآن کریم کی فضیلت اس کے مقابلے میں اپنی جگہ پر مسلم ہے۔اس لئے کہ اس کے الفاظ بھی اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ ہوتے ہیں۔ ‘‘
(کتاب التعریفات صفحہ 83-84)
علماء متاخرین میں سے احناف کے مایہ ناز محدث اور فقیہ ملا علی القاری رحمۃ اﷲ اپنی تالیف ’’الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
’’حدیث قدسی وہ ہے جسے صدر الروایات و بدرالثقات صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کریں۔ کبھی جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے اور کبھی وحی، الہام یا خواب کے ذریعہ۔اس کی تعبیر آپ ﷺ کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، جن الفاظ سے چاہیں تعبیر فرما دیں۔ وہ قرآن مجید اور فرقان حمید سے متغیر ہوتی ہے۔ قرآن کریم روح الامین کے واسطہ کے بغیر نازل نہیں ہوتا اور انہی متعین الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے جو لوح محفوظ سے نازل کئے گئے اور ہر طبقہ اور زمانہ میں متواتر منقول ہوتا ہے‘‘۔
چنانچہ اس سے علماء کرام نے بہت سے فرعی احکام مستنبط کئے ہیں کہ’’ احادیث قدسیہ کی قرات سے نماز صحیح نہیں ہوتی۔ جنبی حائض اور نفساء کے لئے احادیث قدسیہ کا چھونا حرام نہیں ہے۔ ان کا منکر کافر بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان سے اعجاز متعلق ہے۔ ‘‘(الاحادیث القدسیہ الاربعینیہ صفحہ۲)
علاوہ ازیں حسین بن محمد الطیبی(م۔ 473ھ) شارح مشکوة۔ محمد بن یوسف الکرمانی (م۔786ھ) شارح البخاری۔ ابن حجر الہیثمی (م۔974ھ)۔ شارح الاربعین النوویہ اور محمد بن علان الصدیقی الشافعی (م۔1057ھ)۔ شارح ریاض الصالحین وغیرہ نے بھی احادیث قدسیہ کے بارے میں اس سے ملتی جلتی آراء کا اظہار کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہے :
1۔ الاحادیث القدسیۃ (المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیۃ )صفحہ 5-6-7 ج 1۔
2۔ دلیل الفالحین (محمد بن علان الصدیقی الشافعی ) صفحہ 74۔201 ج 1۔
3۔ الاحادیث القدسیۃ ومنزلتہا فی التشریح صفحہ 28(الدکتور شعبان محمد اسماعیل)۔
متقدمین و متاخرین علماء کی آراء اور وضاحتوں کے پیش نظر حدیث قدسی کے معنی کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل چار امور پیش نظر رہنے چاہئیں :
1 حدیث قدسی اور عام حدیث نبوی میں فرق
عام حدیث نبوی کی سند رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہو جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی سند اﷲ جل شانہ تک پہنچتی ہے اور عموماً متکلم کی ضمیر استعمال ہوتی ہے۔ جیسے تحریم ظلم کی حدیث :
یاعبادی انی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا۔
لیکن اس سے عام حدیث نبوی کے منجانب اﷲ ہونے کی نفی لازم نہیں آتی۔ اس لئے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر کلام اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وماینطق عن الھویٰ o ان ہو الاوحی یوحیٰ o ’’وہ (نبی ) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اﷲ کی طرف سے وحی کیا ہوا ہوتا ہے۔ ‘‘
2۔ حدیث قدسی اور قرآن کریم کے درمیان فرق
قرآن کریم ہر دور میں تواتر قطعی کے ساتھ منقول ہوتا چلا آیا ہے جبکہ احادیث قدسیہ روایت آحاد کے ساتھ منقول و مروی ہوتی ہیں۔ احادیث قدسیہ پر روایت حدیث کے تمام قواعد و ضوابط کا اجراء ہوتا ہے اور انہیں صحیح، حسن، ضعیف بلکہ موضوع تک قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ قرآن کریم پر یہ اصطلاحات چسپاں نہیں کی جا سکتیں۔ قرآن کریم کو آیتوں اور سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کی روایت بالمعنیٰ جائز نہیں ہے۔ اس کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس کے حافظ کو جنت میں آیات قرآنیہ کے برابر درجات ملیں گے۔ حافظ قرآن کے والد کو سورج سے زیادہ روشن اور چمکدار تاج پہنایا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی بھی قسم کے تغیر و تبدل سے حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔قرات قرآن کریم کے بغیر نماز ادا نہیں ہوسکتی جبکہ احادیث قدسیہ کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں ہے۔
3۔احادیث قدسیہ کے الفاظ و معانی کے بارے میں علماء کرام کی دو رائے ہیں
(الف) الفاظ و معانی دونوں اﷲ رب العزت کی طرف سے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ ا ﷲ رب العزت کی طرف منسوب کر کے نقل کئے جاتے ہیں۔ ان کے نام میں ’’قدسیہ‘‘، ’’الٰہیہ‘‘ یا ’’ربانیہ‘‘ کا اضافہ اور متکلم کا صیغہ بھی اسی کی طرف مشیر ہے۔
(ب) معنی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ اور تعبیر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہے۔اسی وجہ سے احادیث قدسیہ کے الفاظ سے اعجاز متعلق نہیں ہیں اور ان کی روایت میں بھی اختلاف کی گنجائش ہے۔اس میں روایت بالمعنٰی بھی جائز ہے۔
خلاصہ کی بات یہ ہے کہ حدیث قدسی کے الفاظ کو تواتر کا مقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے الفاظ میں اعجاز ہے اور نہ ہی اس کے تغیر و تبدل سے حفاظت کی ربانی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اس کے الفاظ اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی یا الہام یا خواب کے ذریعہ تسلیم کر لئے جائیں تب بھی ’’الفاظ قرآنیہ‘‘ کا امتیاز اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔
4۔حدیث قدسی کی روایت کی دو صورتیں علماء کرام نے بیان فرمائی ہیں
(الف) پہلی صورت جسے افضل ترین صورت قرار دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حدیث قدسی کا راوی اسے ان الفاظ سے نقل کرے:یقول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فیما یرویہ عن ربہ عز و جل(نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں )۔
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ راوی یوں کہے :قال اﷲ تعالیٰ فیما رواہ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ( اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جو کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے روایت کیا)۔
لیکن ذخیرۂ حدیث میں غور کیا جائے تو ان دو صورتوں کے علاوہ کچھ مزید صورتیں بھی ملتی ہیں :
(الف ) حدیث قدسی کے شروع میں یہ الفاظ ہوں :قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال اﷲ تعالیٰ(رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)پھر اس کے بعد حدیث مذکور ہو اور یہ تعبیر آپ کو اکثر احادیث قدسیہ کی روایت میں ملے گی۔
(ب) حدیث شریف میں اﷲ تعالیٰ کا کلام ’’قول‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر کر کے ذکر کیا جائے۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ’’ لما قضی اﷲ الخلق کتب فی کتابہ علی نفسہ فہو موضوع عندہ:ان رحمتی تغلب غضبی‘‘۔عبارت کا متکلم کے صیغہ سے مذکور ہونا قطعی دلیل ہے اﷲ تعالیٰ کا کلام ہونے کی۔
(ج) حدیث اول سے آخر تک قدسی نہ ہو بلکہ اس کا کوئی جز ء اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو رہا ہو۔جیسا کہ نسائی کی روایت میں ہے: یعجب ربک من راعی غنم فی راس شظیۃ الجبل یؤذن بالصلوۃ ویصلی فیقول اﷲ عزوجل :انظرو الی عبدی ھذا …. الحدیث
(د) حدیث قدسی کا ٹکڑا پوری حدیث کے ضمن میں مذکور ہو لیکن صراحۃً اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ ہو بلکہ سیاق وسباق سے اس کی نسبت سمجھ میں آتی ہو۔ جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے : ’’قال صلی اﷲ علیہ وسلم تفتح ابواب الجنۃ یوم الاثنین ویوم الخمیس فیغفر لکل عبد لایشرک باﷲ شیئا الارجلا کانت بینہ وبین اخیہ شحناء فیقال :انظروا ھذین حتی یصطلحا‘‘۔ اس حدیث شریف میں ’’یقال‘‘ کے مجہول صیغہ کے باوجود سیاق کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا قول ہے اور اس کی تائید ’’فیغفر‘‘ کے مجہول صیغہ سے بھی ہوتی ہے کیونکہ مغفرت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔
مذکورہ بالا تمام صورتیں اﷲ تعالیٰ کی طرف نسبت کے موجود ہونے کی بناء پر ’’وصف قدسیہ‘‘کے ساتھ متصف ہوں گی۔
احادیث قدسیہ کے مصادر اور کتب
جب عمومی طور پر احادیث نبویہ کی جمع و تدوین اور تحقیق و تبویب کا کام شروع ہوا تو احادیث قدسیہ کو بھی اس میں سے وافر حصہ ملا اور محدثین کرام نے خصوصی توجہ اور اہتمام سے ذخیرہ حدیث کی مستند و معتمد کتب میں احادیث قدسیہ کو بھی شامل فر مایا۔تدوین حدیث کے ابتدائی دور میں احادیث قدسیہ کے لئے اگرچہ مستقل کتب تصنیف نہیں کی گئیں اور عام کتب احادیث میں انہیں کوئی امتیازی مقام بھی نہیں دیا گیا تاہم مضامین و ابواب کی مناسبت سے انہیں کتب حدیث میں شامل کیا گیا ہے اور ان کا امتیاز ان کی روایت کے وہ مخصوص صیغے ہی ہوا کرتے تھے جن کا ہم اس سے پہلی بحث میں تذکرہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کے احادیث قد سیہ کے لئے عام کتب حدیث ہی مصادر و مراجع کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ بعد کے ادوار میں اس موضوع پر مستقل تصنیفات مر تب کی گئی ہیں جن کا تذکرہ ہم ذیل میں کر رہے ہیں :
1۔ مشکوة الا نوار فیما روی عن اﷲ سبحانہ من الاخبار مؤ لف : شیخ محی الدین بن العر بی(المتو فی۔ 238ھ)۔
یہ کتا ب ایک سو احادیث قد سیہ پر مشتمل ہے اور1346ھ بمطا بق 1927ء میں حلب سے شائع ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر الہیثمی نے اپنی کتا ب میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
’’احادیث قدسیہ سو (100) سے زائد ہیں۔ جنہیں بعض علماء نے ایک جز ء کبیر میں جمع کیا ہے‘‘(الفتح المبین صفحہ 201)
2۔ ( جمع الجوامع /جامع کبیر) اور جامع صغیر میں مذکور احادیث قدسیہ۔مؤلف:الامام العلام جلال الدین السیوطی رحمہ اﷲ (م۔911ھ)۔ یہ احادیث قدسیہ کی مستقل کتاب نہیں ہے لیکن مؤلف رحمہ اﷲ نے حروف تہجی کی رعایت سے اس کتاب میں احادیث کو جمع کیا ہے اس لئے احادیث قدسی کے ذکر میں ایک ’’امتیاز‘‘ پیدا ہو گیا ہے اور ’’قال اﷲ تعالیٰ‘‘ کے عنوان کے تحت احادیث قدسیہ کی ایک معتد بہ تعداد یکجا ذکر کر دی گئی ہے۔ چنانچہ جمع الجوامع میں ایک سو تینتیس (133) اور جامع صغیر میں چھیاسٹھ (66) احادیث قدسیہ مذکور ہیں۔
3۔ الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ مؤلف : ملاعلی القاری الفقیہ المحدث الحنفی (م۔1016ھ)
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں چالیس احادیث قدسیہ مذکور ہیں جنہیں مؤلف علیہ الرحمۃ نے ذخیرۂ حدیث سے منتخب کیا ہے۔ یہ کتاب ترکی کے شہر آستانہ سے 1316ھ بمطابق 1898م میں طبع ہوئی اور پھر شام کے شہر حلب سے 1346ھ بمطابق 1927 میں دوبارہ شائع ہوئی۔
4۔الاتحاف السنیۃ بالاحادیث القدسیۃ۔مؤلف : الشیخ عبدالرؤف المناوی(المتوفی1031ھ)۔
یہ کتاب دوسوبہتر(272) احادیث قدسیہ پر مشتمل ہے جو کہ حروف تہجی کی ترتیب سے مذکور ہیں اور قاہرہ سے متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔
5۔ الاتحاف السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ۔ مؤلف : محمد محمود طربزوفی المدنی الفقیہ الحنفی(متوفی1200ھ بمطابق 1795م)
’’فی‘‘ اور ’’ ب‘‘ کے معمولی فرق کے علاوہ نام میں شیخ مناوی صاحب کی کتاب کے ہم نام ہے لیکن ایک مستقل اور وقیع کتاب ہے جس کی تالیف میں مؤلف علیہ الرحمۃ نے دوسری کتب حدیث کے علاوہ علامہ سیوطی اور علامہ مناوی رحمہ اﷲ کے مجموعوں سے بھر پور نقل واستفادہ کیا ہے اور صاحب کتاب کو احادیث قدسیہ کا جس قدر ذخیرہ مل سکا اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ انتخاب و نقل میں مؤلف کی رواداری اور وسعت کا یہ عالم ہے کہ ضعیف روایات تو درکنار بہت سی موضوع روایتیں بھی نقل کر دی ہیں۔ لیکن علمی دیانت کے پیش نظر مؤلف نے ان پر تنبیہ ضرور کر دی ہے۔
اس تالیف میں آٹھ سو تریسٹھ (863) احادیث قدسیہ موجود ہیں جبکہ مؤلف علیہ الرحمۃ کے خیال کے مطابق تلاش وجستجو سے مزید تعداد جمع کی جا سکتی ہے۔یہ مجموعہ حیدرآباد دکن سے دو مرتبہ (1323ھ بمطابق 1905م اور 1358بمطابق1939م میں )شائع ہو چکا ہے اور مصر سے 1387ھ بمطابق 1976م میں طبع ہوا۔
6۔ الاحادیث القدسیۃ : مصر کی مجلس اعلیٰ برائے مذہبی امور کے ذیلی شعبہ لجنۃ القرآن و الحدیث نے دو اجزاء پر مشتمل یہ مجموعہ تالیف کیا جس میں صحاح ستہ اور مؤطا امام مالک میں موجود احادیث قدسیہ شامل کی گئیں ہیں۔ یہ چار سو(400) احادیث قدسیہ پر مشتمل ہے جس میں ایک حدیث کی مختلف روایات کو بھی مستقل حدیث شمار کیا گیا ہے اور آج تک زیور طبع سے آراستہ ہونے والے ’’مجموعات قدسیہ‘‘ میں ایک انتہائی منضبط، وسیع اور قابل قدر مجموعہ ہے لیکن اگر مسند احمد اور باقی کتب حدیث سے بھی احادیث قدسیہ کا انتخاب اس میں شامل کر لیا جاتا تو اس مجموعہ کی جامعیت اور افادیت دو بالا ہو جاتی۔
احادیث قدسیہ کے مضامین
عام احادیث نبویہ کے مقابلہ میں احادیث قدسیہ کی تعداد بہت کم ہے۔ اسی وجہ سے ان میں بیان شدہ مضامین بھی کم ہیں۔ البتہ ’’قول ربانی‘‘ ہونے کی بناء پر ان احادیث کا مخصوص دائرہ کار اور منفرد چھاپ ہے۔ احادیث قدسیہ میں غور و خوض سے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت ان میں بیان شدہ مضامین کا خلاصہ نکالا جا سکتا ہے:
1۔ عقیدۂ توحید کی پختگی : ایک مخصوص انداز میں عقیدۂ توحید کی اصلاح اور ا س میں پختگی کادرس دیا جاتا ہے۔ کفر و شرک سے علیحدگی اور دوری کی تعلیم ہوتی ہے۔شکوک و شبہات سے پاک کیا جاتا ہے۔ خالق کائنات کی عظمت و جلال اور صفات الٰہیہ کی انفرادیت اور کمال کا بیان ہوتا ہے اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ یکسو ہو کر متوجہ الی اﷲ ہونے پر برانگیختہ کیا جاتا ہے۔
2۔ عبادات میں حسن و خوبصورتی پیدا کرنا : فرض اور نفل عبادات۔ نماز،روزہ، حج، زکوة ذکرو نوافل کو پورے اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ ثواب کی نیت سے ادائیگی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
3۔ اخلاق و کردار کی بلندی : اچھی صفات، نیکی کا جذبہ،صلہ رحمی، خدمت خلق، صالحین کی محبت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خوبیاں بیان کر کے ان اعمال کا شوق و جذبہ ابھارا جاتا ہے۔
4۔ فنا فی اﷲ : رضاء بالقضاء، دربار خداوندی میں حاضری کا شوق، اپنے خالق و مالک کی رضامندی کے حصول اور اطاعت شعاری میں جان و مال لٹا دینے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔
5۔ آخرت کی تیاری : قیامت کے دن کی جزاوسزا کے استحضار کے ساتھ توبہ واستغفار کے اہتمام، خوف و رجاء کی کیفیت،اعمال صالحہ کے ذریعے قرب خداوندی اور حصول شفاعت کی کوشش اور رحیم و کریم ذات کی وسیع و لامتناہی رحمتوں پر کامل اعتماد کے ساتھ آخرت کی تیاری اور اس کا شوق و جذبہ بیدار کیا جاتا ہے۔
خلاصہ کی بات یہ ہے کہ احادیث قدسیہ الوہیت و عبودیت کے معنی میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔ اچھی اقدار کی گہرائی و گیرائی کو واضح کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے دائرہ کار سے نکل کر فقہی مسائل و احکام اور معاملات میں دخل انداز نہیں ہوتیں۔
احادیث قدسیہ کا اپنا منفرد اسلوب ہے جو ان کے موضوع و مضمون کے ساتھ انتہائی مناسبت رکھتا ہے۔ براہ راست گفتگو کا انداز اپنایا گیا ہے۔ جس میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک’’ مقدس پکار‘‘ ہوتی ہے یا آقا اور غلام کے درمیان سرگوشی کا پیار بھرا انداز ہوتا ہے۔غرضیکہ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جس سے خالق و مخلوق، عابد و معبود اور بندے اور آقا کے درمیان رابطہ میں پختگی اور گہرائی پیدا ہو جائے۔
بہرحال احادیث قدسیہ کا اسلوب اپنی تمام صورتوں میں تاثیر میں ڈوبا ہوا اپنے اندر’’ روحانی چھاپ‘‘ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترغیب و ترہیب اور تصوف و مجاہدات کی کتابوں میں مصنفین نے احادیث قدسیہ سے زیادہ استفادہ اوراستدلال کیا ہے۔