مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔
ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجئے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔
اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آ سکتی چونکہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔
یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جوبین فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہےجہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ’’پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،’’فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘
اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یانہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ در اصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتاہے۔ ان کوقومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملےمیں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اورمعاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔
کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کااظہار کرنا اپنی نا واقفیت عامہ کاثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعدبلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسید احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،’’الٰہی میری بچوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘‘
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرات کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیرنہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سرپھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہوجائے۔مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستورنہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کرکے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجودین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔
اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچوں کاسا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔
کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشنائے فن کولا جواب کرنے کیلئے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘
عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتیا بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹفک کھیل ہے۔ بکنے والے بکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جا سکتے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔
فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبع نازک کیلئے جو نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کیلئے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘
محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لئے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیاہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چراکر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔
کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زریں اصول سے سرا سر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنی نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہےاور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجئے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔ ہم بذات خود سو فی صد تفریح کےحق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریق تعلیم سے جدید طرز تفریح ہزار درجے بہتر ہے،
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
تمہید قدرے طویل اور سخن گسترانہ سہی، لیکن بوجوہ ناگزیر تھی۔ اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور آنکھوں دیکھاحال سناتے ہیں۔
ٹسٹ میچ کے ہنگامہ پر ورو زمانے کا ذکر ہے۔ شہر کی آبادی دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک حصہ کہ
جس میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
اپنے اپنے گھروں میں بیٹھاریڈیوکمنٹری سن رہا تھا۔ دوسرا انبوہ ان سفید پوشوں پر مشتمل تھا، جو عزت کی خاطر اپنی اپنی چھاتیوں پر خالی ایریل لگاکر خود ایرانی ہوٹلوں اور پان کی دکانوں کے سامنے کھڑے کمنٹری سن رہے تھے۔ پاکستان ایک میچ جیت چکا تھا اور کرکٹ کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا غداری کے مترادف تھا۔ مرزا کرکٹ کااپنے آپ پر طاری کر کے کہنے لگے، ’’یہ کھیلوں کا بادشاہ ہے۔‘‘
ہماری جو شامت آئی تو بول اٹھے، ’’مرزا! کرکٹ رئیسوں کا کھیل ہے۔ دیکھتے نہیں یہ مر رہاہے۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ نہ اسے روسی کھیلتے ہیں نہ امریکی۔‘‘
’’اسی سے کچھ امید بندھتی ہے کہ شایدیہ کھیل زندہ رہ جائے۔‘‘ مرزا نے چھوٹتے ہی دہلا لگایا۔
’’ایسا مہنگا اور پیچیدہ کھیل جس کا میچ مسلسل پانچ دن گھسٹتا رہے اور جسے ہمارے غریب عوام نہ کھیل سکیں اور نہ دیکھ پائیں، ہرگز لائق التفات نہیں۔‘‘ ہم نے دکھتی ہوئی رگ پکڑی۔
’’پھر کون سا کھیل لائق التفات ہے، حضور؟‘‘ مرزا نے چڑاؤنے انداز میں پوچھا۔
’’اس سے بہتر تو بیس بال رہے گی۔‘‘ ہم نے کہا۔
’’بات ایک ہی ہے، آدھا بیٹ ٹوٹ جانے کے بعد بھی کرکٹ جاری رہے تو امریکہ میں اسے بیس بال کہتے ہیں۔ کسی اور کھیل کا نام لو۔‘‘ مرزا نے کہا۔
’’ٹینس۔‘‘ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’اگر تم نے کبھی ٹینس میچ میں گیند کے ساتھ سینکڑوں تماشائیوں کی گردنیں ایک ساتھ پنڈولم کی طرح دائیں گھومتی دیکھی ہیں تو بخدا تمہیں اس کھیل ہی سے نفرت ہو جائے گی۔‘‘ مرزا نے کہا۔
’’اس کے یہ معنی ہوئے کہ تمہیں ٹینس دیکھنے پر اعتراض ہے۔ مت دیکھو مگر کھیلنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ہم نے دبایا۔
’’جی نہیں! یورپ میں ٹینس بیمار مردوں اور تندرست عورتوں کا کھیل ہے۔
صاحب! اچھے کھیل کی خوبی یہ ہے کہ
کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، اچھلیں بازو، پھڑکے سب تن۔‘‘
مرزا نے ایکاایکی ہمارے مقابلے پر نظیر اکبرآبادی کولا کھڑا کیاجن سے نبٹنا فی الجملہ ہمارے لئے مشکل تھا۔
’’چلو ہاکی سہی۔‘‘ ہم نے سمجھوتے کے انداز میں کہا۔
’’چھی! ہماری یہ بڑی کمزوری ہے کہ اپنی ٹیم کسی کھیل میں جیت جائے تو اسے قومی کھیل سمجھتے لگتے ہیں اور اس وقت تک سمجھتے رہتے ہیں جب تک کہ ٹیم دوسرا میچ ہار نہ جائے۔‘‘ مرزا نے فتویٰ دیا۔
’’تمہیں پسند نہ آئے ،یہ اور بات ہے۔ مگر کراچی میں ہاکی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں دوستانہ میچ بھی ہورہا ہو تو خلقت اس بری طرح ٹوٹتی ہے کہ فیلڈ تک میں کھیلنے کی جگہ نہیں رہتی۔‘‘ ہم نے کہا۔
’’خدا آباد رکھے، کراچی کا کیا کہنا۔ بندر روڈ پر کوئی شخص راہ چلتے یونہی پان کی پیک تھوک دے اور پھر اس کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے لگے تو دو منٹ میں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جائیں اور سارا ٹریفک رک جائے۔ یاد رکھو! تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، نہ کی مداری کی ڈگڈگی سے!‘‘ مرزانے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
’’فٹ بال کیسی رہیگی؟‘‘ ہم نے عاجز آکر آخر ان ہی سے پوچھا۔
مرزا کہنے لگے، ’’کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے۔ جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے کے اوربھی مہذب طریقے ہوسکتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ!
اس باجماعت بد تمیزی کو کھیل کس نے کہہ دیا؟ آپ نے شاید وہ لطیفہ نہیں سنا کہ ایک پرانا کھلاڑی چند سکھوں کو فٹ بال سکھا رہا تھا۔ جب کھیل کے سب قاعدے ایک ایک کر کے سمجھا چکا تو آخر میں یہ گر کی بات بتائی کہ ہمیشہ یاد رکھو، سارے کھیل کا دارومدار فقط زور سے کک لگانے پر ہے۔ اس سے کبھی نہ چوکو۔ اگر گیند کو کک نہ کر سکو تو پروا نہیں۔ اپنے مخالف ہی کو کک کر دو۔ اچھا اب کھیل شروع کرو، گیند کدھر ہے؟ یہ سن کر ایک سردار جی اپنا جانگیا چڑھاتے ہوئے بے تابی سے بولے، گیند دی ایسی تیسی! تسی کھیل شروع کرو، خالصہ!‘‘
’’لیکن گنواروں اور دیہاتیوں کے ساتھ کھیلنے میں کون سی ہیٹی ہوتی ہے؟‘‘ ہم نے اپنے جمہوری جذبے سے تقریباً نڈھال ہوکر پوچھا۔
’’تفریح میں بری صحبت سے پرہیز لازم ہے۔ یاد رکھئے آپ تجارت اور عبادت تو کسی کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں لیکن تاش صرف اشرافوں کے ساتھ کھیلنے چاہئیں۔ یہی نہیں یوروپ میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ وہاں بڑے بڑے اسٹاک ایکس چینج اور گرجا میں ہرکس و ناکس کو بے روک ٹوک جانے کی اجازت ہے مگر کلب اور کسینو (قمار خانہ) میں فقط خاندانی شرفا بار پاتے ہیں۔‘‘
کیا عرض کریں، کرکٹ کے مخالفوں کو قائل معقول کرنے کیلئے مرزا کیسی کیسی دھاندلی روا سمجھتے ہیں اور آن واحد میں بات کو تنگنائے منطق سے نکال کر اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں بات کرتے دشمنوں کی زبان کٹتی ہے۔ بات گنجلک ہوئی جاتی ہے۔
اس لئے ہم وضاحتاً ان کے برہان قاطع کی ایک ادنیٰ مثال پیش کرتے ہیں۔ ایک دن کرکٹ کے جسمانی فوائد (روحانی فیوض کا بیان آگے آئے گا) پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے، ’’کرکٹ سے کلائی مضبوط ہوتی ہے۔‘‘
’’کلائی مضبوط ہونے سے فائدہ؟‘‘
’’کرکٹ اچھا کھیلا جاتاہے۔‘‘
ایک اور نازک موقع پر انہوں نے اسی قسم کی منطق سے ایک کج فہم کا ناطقہ بند کیا۔ ان صاحب کا استدلال تھا کہ کرکٹ میں ہر وقت چوٹ چپیٹ کا خدشہ لگا رہتاہے۔ مرزا کوقائل کرنے کی غرض سے انہی کے سر کی قسم کھاکے کہنے لگے، ’’میرے سامنے کی تین دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے۔ (اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں) وہ تو کہیے بڑی خیر ہوئی کہ میرے اوسان خطا نہیں ہوئے۔ اگر میں عین وقت پر منہ نہ پھاڑ دیتا تو کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔‘‘ بعد کو انہوں نے کرکٹ کی راہ میں دیگر اعضائے بدن کے باری باری مجروح و ماؤف ہونے کی درد بھری داستان میچ دار سنائی اوریہ ثابت کر دیا کہ ان کے اپنے تاریخی زخموں کی مجموعی تعداد رانا سانگا کے ستر زخموں سے کسی طرح کم نہیں۔
مرزا نے جھنجلاکر کہا، ’’مگر دستانے پیڈ اور گارڈ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟‘‘
وہ صاحب بولے، ’’دیکھئے نا! یہ ذرہ بکتر تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ کھیل واقعی خطرناک ہے۔ ان حفاظتی تدابیر کانام سن کر مجھے اس وقت اپنے گاؤں کا وہ زمیندار یاد آ رہا ہے جس نے ستر سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ لڑکی سے شادی کی تھی۔ ابھی سہاگ کے جوڑے کا کلف بھی ٹھیک سے نہ ٹوٹا ہوگا کہ وہ حالات پیدا ہوگئے جن میں بعض جلد باز اصحاب قتل کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن آدمی تھا بلا کا دور اندیش۔ بہت کچھ غور و خوض اور اپنی طبیعت کے فطری رجحان کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ خود کشی نسبتاً آسان رہے گی۔ قتل میں بڑا کھٹر اگ ہے۔ یادرہے کہ اس زمانے میں ریل اور بندوق کاغلط استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ اسلیے غیور حضرات کو کنویں میں جھانکنا پڑتے تھے۔ لیکن ان دنوں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور کنویں کا پانی ایسا ٹھنڈا برف ہو رہا تھا کہ غصے میں کوئی آدمی کود پڑے تو چھن سے آواز پیدا ہو۔ لہذا زمیندار نے ایک روئی کا فرغل اور دو موٹے موٹے لحاف اوڑھ کر کنویں میں چھلانگ لگائی اور آخر انہی لحافوں نے اسے نہ صرف سردی بلکہ حرام موت سے بھی بچا لیا۔‘‘
مرزا چٹخارہ لے کربولے، ’’بہت خوب! آئندہ آپ اس لذیذ حکایت کو کرکٹ کے بجائے نکاح ثانی کے خلاف بطور دلیل استعمال کیجئے گا۔‘‘
ہم نے بیچ میں پڑ کر مصالحت کرانے کی کوشش کی، ’’ظاہر ہے لحاف اوڑھ کر کر کٹ نہیں کھیلاجا سکتا۔ مگر ایک بات آج تک میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ کھلاڑی دبیز دستانے پہنتے ہیں، بھاری بھرکم پیڈ چڑھاتے ہیں، گارڈ باندھتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا الابلا اپنے اوپر منڈ لیتے ہیں۔ جب کہیں اپنے کو گیند سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن آخر اس کے بجائے نرم گیند کیوں نہیں استعمال کرتے؟ سیدھی سی بات ہے۔‘‘
مرزا صریحاً کنی کاٹ کر فلسفہ بگھارنے لگے، ’’حضرت! مجھے سزا کے طور پر بھی وہ کھیل منظور نہیں جس میں چوٹ کا قوی احتمال نہ ہو۔ مردوں کو چوٹ کھاکے مسکرانے کی عادت ہونی چاہئے۔‘‘
’’چوٹ کھانے سے حاصل؟‘‘
’’آدمی مضبوط ہوتا ہے۔‘‘
’’اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’آئندہ چوٹ لگے تو چیخ نہیں نکلتی۔‘‘
مرزا کو کرکٹ سے کتنی دلچسپی اور اس کی باریکیوں سے کس حد تک واقفیت ہے، ہمیں اس کا تھوڑابہت اندازہ پانچ سال قبل ہوا۔ ٹسٹ کا چوتھا دن تھا اور ایک سلو بالر بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی کلائی ایک ادنیٰ اشارے، انگلیوں کی ایک خفیف سی حرکت پر گیند ناچ ناچ اٹھتی اور تماشائی ہر گیند پر کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر داد دیتے اور داد دے کر باری باری ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ جاتے۔ ہمارے پاس ہی ایک میم کے پیچھے کرسی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا بوڑھا پارسی تک، اپنے پوپلے منہ سے سیٹی بجا بجا کر بولر کا دل بڑھا رہا تھا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر درختوں کی پھننگوں سے لٹکے ہوئے شائقین ہاتھ چھوڑ چھوڑ کر تالیاں بجاتے اور کپڑے جھاڑ کر پھر درختوں پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر شخص کی نظریں گیند پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک بارگی بڑے زور سے تالیاں بجنے لگیں۔
’’ہائے! بڑے غضب کی گگلی ہے!‘‘ ہم نے جوش سے مرزا کا ہاتھ دبا کر کہا۔
’’نہیں یار! مدراسن ہے!‘‘ مرزا نے دانت بھینچ کر جواب دیا۔
ہم نے پلٹ کر دیکھا تو مرزا ہی کی رائے صحیح نکلی، بلکہ بہت خوب نکلی۔
ان کی دلچسپی کا اندازہ اس اہتمام سے بھی ہوتا ہے جو پچھلے تین برس سے ان کے معمولات میں داخل ہو چکا ہے۔ اب وہ بڑے چاؤ سے لدے پھندے ٹسٹ میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سیر بھو بل کی بھنی مونگ پھلی، بیٹری کا ریڈیو اور تھرماس! (اس زمانے میں ٹرانزسٹر عام نہیں ہوئے تھے) یہاں ہم نے ناشتے دان، سگریٹ، دھوپ کی عینک اور اسپرو کی ٹکیوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ تو ان لوازمات میں سے ہیں جن کے بغیر کوئی دور اندیش آدمی کھیل دیکھنے کاقصد نہیں کرتا۔ یوں تو تازہ اخبار بھی ساتھ ہوتا ہے مگر وہ اس سے چھتری کا کام لیتے ہیں۔ خود نہیں پڑھتے البتہ پیچھے بیٹھنے والے باربارصفحہ الٹنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ دن بھر ریڈیو سے چمٹے کمنٹری سنتے رہتے ہیں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ انہیں کمنٹری سننے سے زیادہ سنانے میں لطف آتا ہے۔ البتہ کمنٹری آنا بند ہو جائے تو کھیل بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یا پھر اس وقت سر اٹھاکر فیلڈ کی طرف دیکھتے ہیں جب ریڈیو پر تالیوں کی آواز سے کانوں کے پردے پھٹنے لگیں۔ میچ کسی اور شہر میں ہورہا ہو تو گھر بیٹھے کمنٹری کے جوشیلے حصوں کوٹیپ پر ریکارڈ کرلیتے ہیں اور آئندہ ٹسٹ تک اسے سنا سنا کر اپنا اور دوسرے مسلمان بھائیوں کاخون کھولاتے رہتے ہیں۔
جاہلوں کا ذکرنہیں، بڑے بڑوں کوہم نے اس خوش فہمی میں مبتلا دیکھا کہ زیادہ نہ کم پورے بائیس کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم قواعد و ضوابط سے واقف نہیں لیکن جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسی کی قسم کھاکر عرض کرتے ہیں کہ در حقیقت کرکٹ صرف ایک ہی شخص کھیلتا ہے۔ مگر اس کھیل میں یہ وصف ہے کہ بقیہ اکیس حضرات سارے سارے دن اس مغالطے میں مگن رہتے ہیں کہ وہ بھی کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ یہ حضرات شام تک سارس کی طرح کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں اور گھر پہنچ کر اس تکان کو تندرستی سمجھ کر پڑ رہتے ہیں۔
مرزا کہتے ہیں (ناممکن ہے کرکٹ کا ذکر ہواور بار بارمرزا کی دہائی نہ دینی پڑے) کہ کھیل، علی الخصوص کرکٹ، سے طبیعت میں ہار جیت سے بے نیازی کا جذبہ پید ا ہوتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جیتنے کیلئے واقعی کاوش و مزادلت درکار ہے۔ لیکن ہارنے کیلئے مشق و مہارت کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ مشکل مخالف ٹیم بالعموم خود آسان کر دیتی ہے۔
اچھے اسکولوں میں شروع ہی سے تربیت دی جاتی ہے کہ جس طرح مرغابی پر پانی کی بوند نہیں ٹھیرتی، اسی طرح اچھے کھلاڑی پر ناکامی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض کمزور طبیعتیں اس نصیحت کا اس قدر اثر لیتی ہیں کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پروا ہو جاتی ہیں۔
لیکن اگر ہم کھلے خزانے یہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سی عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال کی بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ وتقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ چوبی بساط جیتنے والے کے سر پر دے ماری، جس سے اس گستاخ کی موت واقع ہو گئی۔ مورخین اس باب میں خاموش ہیں، مگر قیاس کہتا ہے کہ درباریوں نے یوں بات بنائی ہوگی، ’’سرکار! یہ تو بہت ہی کم ظرف نکلا۔ جیت کی ذرا تاب نہ لا سکا۔ شادی مرگ ہو گیا۔‘‘
یہی قصہ ایک دن نمک مرچ لگا کرہم نے مرزا کوسنایا۔ بگڑ گئے، کہنے لگے، ’’آپ بڑافلسفہ چھانٹتے ہیں مگر یہ ایک فلسفی ہی کا قول ہے کہ کوئی قوم سیاسی عظمت کی حامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس نے کسی نہ کسی عہد میں اپنے کھیل کا لوہا نہ منوایا ہو۔‘‘
ہم نے چھیڑا، ’’مگر قومیں پٹ پٹ کرہی ہیکڑ ہوتی ہیں۔‘‘
قوموں کو جہاں کا تہاں چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئے، ’’جس شخص نے عمر بھراپنے دامن صحت کو ہرقسم کی کسرت اور کھیل سے بچائے رکھا، وہ غریب کھیل کی اسپرٹ کو کیا جانے،
بچپن میں بھی تم کھیل جوکھیلے تو صنم کا
میں جانتا ہوں، تم جیسے تھڑو لے محض ہار کے ڈر سے نہیں کھیلتے۔ ایسا ہی ہے تو پرسوں صبح بغدادی جمخانہ آجاؤ، پھر تمہیں دکھائیں کرکٹ کیا ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ مذکورالصدرمقام پرہر ہفتے دوستانہ میچ ہوتے رہتے ہیں (دوستانہ میچ سے مراد ایسا میچ ہے جس میں لوگ ہار کربھی قائل نہیں ہوتے) ابھی گزشتہ سنیچر کو عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو پورے نو وکٹوں سے شکست دی تھی اور پرسوں ان کی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور ان کی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے ہیں۔ ہم نے کچھ ہچر مچر کی تو آنکھ مار کے کہنے لگے، ’’بےپردگی کاخاص انتظام ہوگا، ضرور آنا۔‘‘
ہم ناشتہ کرتے ہی بغدادی جمخانہ پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق کھیل ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہئے تھا مگر امپائر کا سفید کوٹ استری ہوکر دیر سے آیا۔ اس لئے چھپے ہوئے پروگرام کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلی کھاتے رہے۔
پندرہ منٹ کی ردو کد کے بعد طے پایا کہ جوٹیم’’ٹاس‘‘ ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدارروپیہ کھنکا، تالیاں بجیں۔ معطر رومال ہوا میں لہرائے اور مرزا کسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔
ہم نے دعادی، ’’خدا کرے تم واپس نہ آؤ۔‘‘
مرزا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورچلتے چلتے پھر تاکید کی، ’’کرکٹ مت دیکھو۔کرکٹ کی اسپرٹ دیکھو۔‘‘
ہم یہ بتانابھول ہی گئے کہ روانہ ہونے سے قبل مرزا نے اپنے بیٹ پر جملہ تماشائیوں کے دستخط لئے۔ ایک خاتون نے (جو کسی طرف سے ان پڑھ معلوم نہیں ہوتی تھیں) دستخط کی جگہ بیٹ پر اپنے ترشے ترشائے سرخ سرخ ہونٹ ثبت کر دیئے اور مرزا پیچھے مڑمڑکر دیکھتے ہوئے وکٹ تک پہنچے۔ بلکہ یوں کہناچاہئے کہ سارا سارا رستہ الٹے قدموں طے کیا اور بیچ میں وکٹ سے ٹکر نہ ہوتی تو شاید ساری فیلڈ اسی طرح پار کر جاتے۔
مرزا نے کرکٹ میں بھی وہی تیہا اور تیور دکھائے جوہم ان کے مچیٹوں اور معاشقوں میں دیکھتے چلے آئے تھے۔ یعنی تکنیک کم اور جوش زیادہ! روانگی سے چند منٹ پہلے پیڈ کے تسمے باندھتے ہوئے انہوں نے ایک مرکھنے سے کلرک کو یہ ہتھکنڈا بتایا کہ چھکالگانے کی سہل ترکیب یہ ہے کہ خوب کس کے ہٹ لگاؤ۔
کلرک نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا، ’’یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زور کاہٹ کس طرح لگایا جائے۔‘‘
مرزا اپنی بڑی بڑی آنکھیں لال کرکے بولے، ’’میں تو یہ کرتا ہوں کہ ہٹ لگاتے وقت آنکھ میچ کر اپنے افسر کا تصور کرتا ہوں۔ خدئی قسم! ایسے زور کاہٹ لگتا ہے کہ گیند تارا ہو جاتی ہے۔‘‘
مرزا کے کھیلنے بلکہ نہ کھیلنے کا انداز دیکھ کرہمیں یقین ہوگیا کہ افسر کا ایک فوٹو نہیں، بلکہ پورا کا پورا البم ان کی آنکھوں میں پھر رہا ہے۔ اس لئے وہ بیٹ کو پوری طاقت کے ساتھ گوپھن کی طرح گھمائے جا رہے تھے۔ تین ادوار اسی طرح خالی گئے اور گیند کو ایک دفعہ بیٹ سے ہم کنار ہونے کاموقع نہیں ملا۔ مرزا کے مسکرانے کا انداز صاف بتارہا تھا کہ وہ اس صورت حال کو بولر کی نا لائقی سے زیادہ اپنے استادانہ ہتھکنڈوں پرمحمول کر رہے ہیں۔ مگر اتفاق سے چوتھے اوور میں ایک گیند سیدھوں سیدھ بیٹ پر جا لگی۔ مرزا پوری طاقت سے بیٹ دور پھینک کر چیخے،
’’ہاؤز دیٹ؟‘‘
امپائر دوڑا دوڑا آیا۔ بیٹ اٹھا کر انہیں پکڑایا اور بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر دوبارہ کھیلنے پر رضا مند کیا۔
مصیبت اصل میں یہ تھی کہ مخالف ٹیم کا لمبا تڑنگا بولر، خدا جھوٹ نہ بلوائے، پورے ایک فرلانگ سے ٹہلتا ہوا آتا۔ ایک بارگی جھٹکے کے ساتھ رک کر کھنکارتا، پھر خلاف توقع نہایت تیزی سے گیند پھینکتا۔ اس کے علاوہ حالانکہ صرف دائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا مگر گیند بائیں ہاتھ سے پھینکتا تھا۔ مرزا کاخیال تھا کہ اس بے ایمان نے یہ چکرا دینے والی صورت انتظاماً بنا رکھی ہے۔لیکن ایک مرزا ہی پرموقوف نہیں کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ گیند کیسے اور کہاں پھینکے گا بلکہ اس کی صورت دیکھ کر کبھی تو یہ شبہ ہوتا تھا کہ اللہ جانے پھینکےگا بھی یانہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس نے گیند سے اتنے وکٹ نہیں لئے جتنے گیند پھینکنے کے انداز سے۔ بقول مرزا، ’’مشاق بولرسے کوئی خائف نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وکٹ ہی تو لے سکتا ہے۔ جان تو اناڑی سے نکلتی ہے۔‘‘ سبھی کے چھکے چھوٹ گئے۔ گیند پھینکنے سے پہلے جب وہ اپنی ڈھائی گھڑ کی چال سے لہریا بناتا ہوا آتا تو اچھے اچھوں کے بیٹ ہاتھ کے ہاتھ میں رہ جاتے۔
آگے بڑھا کوئی تو کوئی ڈر کے رہ گیا
سکتے میں کوئی منہ پہ نظر کر کے رہ گیا
ہر مرتبہ ظالم کچھ ایسے غیر پیشہ ورانہ جذبے اور جوش کے ساتھ کچکچا کے گیند پھینکتا گویا یہ وہ پہلا پتھر ہے جس سے ایک گنہگار دوسرے گنہگار کو سنگسار کرنے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مرزا انتہائی دندان شکن حالات میں ڈنڈے گاڑے کھڑے تھے۔
لیکن یہ درست ہے کہ رن نہ بننے کی بڑی وجہ مرزا کے اپنے پینترے تھے ۔ وہ اپنا وکٹ ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ وہ کرتے یہ تھے کہ اگر گیند اپنی طرف آتی ہوتی تو صاف ٹل جاتے۔ لیکن اگر ٹیڑھی آتی دکھائی دیتی تو اس کے پیچھے بیٹ لے کرنہایت جوش و خروش سے دوڑتے (کپتان نے بہتیرا اشاروں سے منع کیا مگر وہ دو دفعہ گیند کو باؤنڈری لائن تک چھوڑنے گئے) البتہ ایک دفعہ جب وہ اپنے بیٹ پر لپ اسٹک سے بنے ہوئے ہونٹوں کو محویت سے دیکھ رہے تھے تو گیند اچانک بیٹ سے آلگی اور وہ چمک کر ہوا میں گیند سے زیادہ اچھلے۔ وکٹ کیپر اگر بڑھ کے بیچ میں نہ پکڑ لیتا تو ایسے اوندھے منہ گرتے کہ ہفتوں اپنی شکل آپ نہ پہچان پاتے۔
یوں بھی بعض کھلاڑی گیند کو دیکھتے نہیں، سنتے ہیں یعنی ان کو اپنے قرب وجوار میں گیند کی موجودگی کا احساس پہلے پہل اس آواز سے ہوتا ہے جو گیند اور وکٹ کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔
چند اوور کے بعد کھیل کا رنگ بدلتا نظرآیا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا وکٹ گیند کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے مقناطیسی لوہےکو۔ ہم نے دیکھا کہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر مرزا نے اپنی مسلح و مسلم ران درمیان میں حائل کر دی۔ سب یک زبان ہوکر چیخ اٹھے، ’’ہاؤز دیٹ۔‘‘
’’مرزا نے دانستہ اپنی ٹانگ اس جگہ رکھی جہاں میں ہمیشہ گیند پھینکتا ہوں۔‘‘ بولر نے الزام لگایا۔
’’بکواس ہے۔ بات یوں ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس جگہ گیند پھینکی جہاں میں ہمیشہ اپنی ٹانگ رکھتا ہوں۔‘‘ مرزا نے جواب دیا۔
’’اگر میرا نشانہ ایساہی ہوتا تو مرزا جی کبھی کے پویلین میں براجمان ہوتے۔‘‘بولر بولا۔
’’تو یوں کہو کہ تمہاری گیند وکٹ سے الرجک ہے۔‘‘ مرزا نے کہا۔
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مرزا نے عمداً ٹانگ آگے کی۔‘‘ یک چشم بولر نے حلفیہ کہا۔
امپائر نے دونوں کو سمجھایا کہ بحثا بحثی کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پھریہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بیٹس مین کے کھیل کے محتاط اسٹائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسے ذرا بھی احتمال ہوتا کہ گیند اس کی ٹانگ کی طرف آ رہی ہے تو وہ کھٹاک سے وکٹ کو اپنی ٹانگ کے آگے کر دیتا۔
اس فیصلہ پر مرزا نے اپنی ٹوپی اچھالی اور جب وہ اپنے مرکز کی طرف واپس آگئی تو پھر کھیل شروع ہوا۔ لیکن دوسرے ہی اوور میں بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کہ مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی!) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی۔
جب امپائر نے مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہو چکی تھی! اس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کے کھیلے کہ ان کی اپنی ٹیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس اجمال پرملال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اسے رن بنانے کی پر زور دعوت دیتے اور جب وہ کشاں کشاں تین چوتھا ئی پچ طے کرلیتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر، بلکہ دھکیل کر، اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے۔ مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہو گیا۔ جب مرزا نے یکے بعددیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کا بشمول کپتان ذی شان، اس طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے پس ماندگان کو سختی سے تنبیہ کردی کہ خبردار! مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے۔
لیکن مرزا آخری وکٹ تک اپنی وضع احتیاط پر ثابت قدمی سے قائم رہے اور ایک رن بنا کے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا۔ اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے مگر وہ سب آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بر عکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ’’ زیرو ناٹ آؤٹ‘‘ بتاتے تھے۔ ناٹ آؤٹ! اور یہ بڑی بات ہے۔
کھیل کے مختصر وقفے کے بعد طویل لنچ شروع ہوا۔ جس میں بعض شادی شدہ افسروں نے چھک کے بیئر پی اور اونگھنے لگے۔جنہوں نے نہیں پی وہ ان کی بیویوں سے بدتمیزیاں کرنے لگے۔ جب چائے کے وقت میں کل دس منٹ باقی رہ گئے اور بیرے جھپاک جھپاک پیالیاں لگانے لگے تو مجبوراً کھیل شروع کرنا پڑا۔ دو کھلاڑی امپائر کو سہارا دے کر پچ تک لے گئے اور مرزا نے بولنگ سنبھالی۔ پتہ چلا کہ وہ بولنگ کی اس نایاب صنف میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جسے ان کے بد خواہ ’’وائڈبال‘‘ کہنے پر مصر تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹ لگے بغیر بھی دھڑا دھڑ رن بننے لگے۔ تین اوور کے بعد یہ حال ہو گیا کہ مرزا ہر گیند پرگالی دینے لگے۔ (شکار میں بھی ان کا سدا سے یہی دستور رہاکہ فائر کرنے سے پہلے دانت پیش کر تیتر کو کوستے ہیں اور فائر کرنے کے بعد بندوق بنانے والے کارخانے کو گالیاں دیتے ہیں۔)
ہم بولنگ کی مختلف قسموں اورباریکیوں سے واقف نہیں۔ تاہم اتنا ضرور دیکھا کہ جس رفتار سے مرزا وکٹ کی طرف گیند پھینکتے، اس سے چوگنی رفتار سے واپس کردی جاتی۔ وہ تھوڑی دیرکج رفتار گیند کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے۔ بار بار اس پر اپنا دایاں کف افسوس ملتے۔ پھر بھدر بھدر دوڑتے اور جب اور جہاں سانس بھر جاتی وہیں اسی لمحے لنجے ہاتھ سے گیند پھینک دیتے۔
منہ پھیر کر ادھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
ابتدا میں تو مخالف ٹیم ان کی بولنگ کے معیار سے نہایت مطمئن و محظوظ ہوئی۔ لیکن جب اسکے پہلے ہی کھلاڑی نے پندرہ منٹ میں تیس رن بنا ڈالے تو کپتان نے اصرار کیا کہ ہمارے دوسرے بیٹس مین رہے جاتے ہیں۔ ان کو بھی موقع ملنا چاہئے۔ اسلیے آپ اپنا بولر بدلیے۔
مرزا بولنگ چھوڑ کر پویلین آگئے۔ مارے خوشی کے کانوں تک باچھیں کھل پڑ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ پر واپس آ گئیں تو منہ ہمارے کان سے بھڑا کر بولے، ’’کہو، پسند آئی؟‘‘
’’کون؟ کدھر؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے، ’’نرے گاؤدی ہو تم بھی! میں کرکٹ کی اسپرٹ کی بات کر رہا ہوں۔‘‘